240

خیرات وصدقات کے اصل حقدار۔۔۔۔تحریر: امیرجان حقانیؔ

صدقات چاہیے نفلی ہوں یا وجوبی، دونوں کی ادائیگی کا اجرعظیم ہے۔اللہ کے فضل سے پاکستان ان اولین ممالک میں ہیں جو خیرات سب سے زیادہ کرتے ہیں۔قرآن و حدیث میں صدقات واجبہ اور نافلہ کرنے والوں کے فضائل بھرے پڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ صدقات و خیرات کا اجر آخرت تک موخر نہیں کرتے بلکہ فوری طور پر اس دنیا میں اس کا بدلہ رز ق اور کاروبار وغیرہ میں برکت کی شکل میں عنایت کرتے ہیں۔محتاجین پر خرچ کرنے والے کبھی بھی رسوا نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہی فطری قانون ہے اور اللہ اپنے فطری قوانین کی کبھی مخالفت نہیں کرتے۔فطری قوانین لاگو ہونے کے لیے مسلمان ہونا شرط بھی نہیں۔فطرت الہیٰ پر جو بھی عمل کرے گا اس کو اس کا صلہ ملے گا۔بل گیٹس اور وارن بفرٹ کی مثال لے سکتے ہیں۔یہ دنیا کے متمول لوگ ہیں۔فطرت الہیٰ کے مطابق وہ محتاج لوگوں پر مال لٹاتے ہیں اور اللہ روز ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے۔ان کو فوری دنیا میں اجر ملتا ہے۔ رہی بات آخرت کی تو وہ اللہ چاہیے تو عطا کرے اور چاہیے تو نہ کرے۔حدیث میں آتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو کوئی ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے صدقہ کرے، اور اللہ تعالی حلال کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے۔ (حلال کمائی سے کیا گیا صدقہ)اللہ تعالی دائیں ہاتھ میں لیتا ہے پھر اس کے مالک کے لئے اسے بڑھاتا رہتا ہے۔جس طرح کوئی تم میں سے اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ(صدقہ)پہاڑکے برابر ہوجاتا ہے“(بخاری)۔صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
”مثل الذِین ینفِقون اموالہم فِی سبِیلِ اللہِ کمثلِ حبۃ ا نبتت سبع سنابِل فِی کلِ سنبلۃ ماءۃ حبۃ واللہ یضاعِف لِمن یشاء واللہ واسِع علِیم“۔
ترجمہ:جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال(اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر)ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے(اس سے بھی)اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔(البقرہ۱۶۲)
جو لوگ صدقہ کرتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ صدقات نافلہ اور واجبہ سے غضب الہی دور ہوجاتا ہے اور انسان مصیبتوں اور تکلیفوں اور بالخصوص بری موت سے بچ جاتا ہے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پوشیدہ صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتی ہے نیک عمل آدمی کو برائی کے گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہے“(بیہقی)
یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ معمولی چیزکے صدقے سے بھی نار جہنم سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔خلوص اور حلال مال سے ہوتو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑاہی دے کر بچو“ (بخاری)۔ترمذی میں بھی یہی روایت منقول ہے”صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔“۔اور کچھ نہ ہوتو پانی پلانا بھی افضل ترین صدقہ ہے۔ابوداود میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہر بھلائی اور نیکی کا کام صدقہ ہی کہلاتا ہے۔یہی بات محمد عربی ﷺ نے فرمائی ہے۔”ہر نیکی کا کام صدقہ ہے“ (مسلم)۔اور سب سے افضل صدقہ تندرستی اور خواہش مال کے زمانے میں کی جانے والی صدقہ ہے۔(بخاری)۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدقہ دے کر واپس لینا جائز نہیں۔ اور دیا ہوا صدقہ خریدنا بھی مناسب نہیں۔اپنے فوت شدہ والدین اور اقارب کو ایصال ثواب کے لیے بھی صدقہ دینا بہت اچھی بات ہے۔ ایک المیہ یہ ہے کہ ہم صدقہ نافلہ ہو یا واجبہ، عطاکرنے کے بعد احسان جتلاتے رہتے ہیں جو بلکل غلط بات ہے۔یاد رہے احسان جتلانے سے صدقہ کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ غلطی سے زکا صدقہ غیرمستحق یا فاسق آدمی کو دے دیا جائے تب بھی اس کا پورا ثواب مل جاتا ہے۔یہ سارے احادیث کے مفاہیم ہیں جن کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہمارے معاشرے کو درپیش ہے کہ وہ اپنے عیال پر خرچ کرنے کو صدقہ یا کارثواب نہیں سمجھتے حالانکہ اپنے اہل وعیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔مسلم شریف میں یہ روایت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”جو اپنے اہل وعیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اسی کے لئے صدقہ ہوگا۔“
اس ساری تفصیل کے بعد ہم مختصرا اس بات کا جائزہ لیں گے کہ صدقات نافلہ اور واجبہ کے اصل مستحقین کون ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیہا والمولفۃ القلوب قلوبہم فی الرقاب، والغارمین فی سبیل اللہ، وابن السبیل، فریضۃ من اللہ، واللہ علیم حکیم“۔
ترجمہ:”صدقات تو بس محتاجوں، مسکینوں، عاملین صدقات اور تالیف قلوب کے سزاواروں کے لیے ہیں۔ اور اس لیے کہ یہ گردنوں کو چھڑانے، تاوان زدوں کے سنھبالنے، اللہ کی راہ اور مسافروں کی امداد پر خرچ کیے جائیں۔یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علم اور حکمت والا ہے“۔(سورہ توبہ۰۶)
یہ بات ذہن میں رہے کہ زکواۃ اور صدقات کا مصرف و مستحق کا تعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مستحقین زکواۃ و صدقات کا تعین خود فرمایا۔جس آیت کریمہ کی تلاوت کی گئی ہے اس میں اللہ نے آٹھ مستحقین زکواۃ و صدقات تعین کیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ مصارفین زکواۃ (جن میں زکواۃ و صدقات تقسیم کیے جائیں گے)کے بارے کسی نبی یا غیر نبی پر راضی نہیں ہوئے بلکہ خود اس نے تقسیم کی“۔وہ آٹھ مصارفین و مستحقین زکواۃ و صدقات یہ ہیں:
۱۔ فقیر: فقیر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہو۔
۲۔ مسکین: مسکین وہ لوگ کہلائیں گے جو اپنی ضروریات زندگی کے لیے فقراء اور حاجت مندوں سے زیادہ خستہ حال ہوں۔
۳۔عاملین زکواۃ: وہ ہیں جو زکواۃ وصول کرنے، اس کی حفاظت،حساب کتاب اور تقسیم زکواۃ کے لیے حکومت کی طرف سے مامور ہوں۔
۴۔ مولفۃ القلوب: وہ لوگ ہیں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوں یا وہ لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہوں، ان کو مال دے کر ان کی جوش عداوت کو ٹھنڈ ا کیا جاسکتا ہے۔تاکہ وہ مسلمانوں کے مدد گار بن سکیں یامسلمانوں اور اسلامی ریاست کے خلاف ظلم و عداوت سے باز آجائیں۔ان نومسلم اور اسلام مخالف لوگوں کی تالیف قلب کے لیے زکواۃ و صدقات کی مد سے مد د کی جاسکتی ہے۔
۵۔ غلام: غلام جو کسی کی ملکیت ہو، اس کی آزادی میں بھی زکواۃ صرف کی جاسکتی ہے۔(آج کل مستحقین کی یہ صنف نہیں پائی جاتی،کم از کم پاکستان میں تو موجود نہیں)
۶۔قرضدار: قرض دار اگر اپنے مال سے اپنی قرض ادا کریں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال ہو،چاہیے یہ مقروض لوگ ادائیگی قرض سے پہلے امیر ہوں، کمانے والے ہوں، روزگار والے ہوں یا فقیر و غنی۔انکو زکواۃ و خیرات دی جاسکتی ہے
۷۔ راہ خدا میں دینا: راہ خدا سے مراد یہ ہے کہ نیکی کے وہ تمام کام جن میں اللہ کی رضا شامل ہو۔اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی تمام خدمات یا اپنا تمام وقت، کلی طور پر یاعارضی طور پر رضا الہیٰ کے کاموں کے لیے وقف کریں تو زکواۃ سے ان کی وقتی یا استمراری اعانت کی جاسکتی ہے۔
۸: ابن سبیل یعنی مسافر: وہ لوگ ہیں جو اگرچہ اپنے گھر میں غنی ہیں لیکن سفر میں مدد کے محتاج ہوں تو اس کی مدد زکواۃ و صدقات کی مد میں کی جاسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آٹھ قسم کے مستحقین کا ذکر قرآن میں ارشاد کیا۔تاہم مستحقین زکواۃ و صدقات میں سب سے پہلے فقراء اور مساکین کا ذکر کیا گیا۔فقراء اور مساکین کی حاجات و ضروریات بہت سخت ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ”جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو، گرا پڑا ہو، گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو،“
فقیر چونکہ اول مستحق ہے اس کی مزید وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ فقیر اپنی معیشت اور کاروبار حیات چلانے کے حوالے سے دیگر لوگوں کا محتاج ہو،فقیر کا لفظ تمام حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کو شامل ہے چاہیے یہ ضرورت مند مستقل نقص یعنی معذوری کی صورت میں ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے امداد کا مستحق ہو،ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عارضی طور پر ایسا کو ئی امر واقع ہوگیا ہو جس کی وجہ سے حاجت مند ہوگیا ہو، مثلا یتیم بچے بچیاں،مطلقہ اور بیوہ عورتیں،بے روزگار لوگ، اور ایسے تمام مالدار لوگ جو حوادثات وقت کا شکار ہوں اور پیسہ پیسہ کا محتاج ہوگئے ہوں۔یہ سب لوگ فقراء میں شامل ہیں۔زکواۃ اور صدقات کی مد میں ان کا تعاون کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح مسکین لوگ جو ضروریات زندگی کے لیے فقراء سے زیادہ خستہ حال ہوں۔مسکنت کے لفظ میں بے چارگی، درماندگی، عاجزی اور ذلت و رسوائی کے مفاہیم شامل ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مساکین کوخصوصیت سے زکواۃ و صدقات کا مستحق قرار دیا ہے جو جو اپنی ضروری حاجات کی تکمیل کے لیے ذرائع نہ پارہے ہوں اور سخت تنگ حال بلکہ مفلوک الحال ہوں۔ایسے لوگ دراصل سفید پوش لوگ ہوتے ہیں، یہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی انسان انہیں حاجت مند سمجھ کر دست امداد ان کی طرف بڑھائے۔حدیث کا مفہوم مگر یہی ہے کہ مسکین وہ ہے جو اپنی ضرورت اور حاجت بھر مال نہیں پاتا، اور نہ ہی اپنی ظاہری شکل و صورت سے پہچانا جاتا ہے کہ اس کی اعانت کی جائے اور نہ ہی دست سوال لوگوں کے آگے کرتا ہے اور نہ ہی در در بھیک مانگتا ہے گویا وہ ایک شریف النفس اور خودار انسان ہے۔ یہ انسان سب سے زیادہ مستحق زکواۃ و صدقات ہے۔
زکواۃ ایک مالی فرض ہے یعنی بذریعہ مال ادا کی جاتی ہے۔یہ بھی صدقے کی ایک قسم ہے جو صاحب نصاب پر فرض ہوجاتی ہے۔اس کو فرضی صدقہ کہا جاتا ہے۔زکواۃ ایسے انسان کو دی جاسکتی ہے جس کی ملکیت میں اس کی ضروریات اصلیہ سے زائد نصاب کے برابر سونا، چاندی، مالِ تجارت، نقد روپیہ یا کوئی چیز نہ ہو،اسی طرح جن لوگوں کو زکوۃ دینی جائز ہے وہی لوگ صدقہ فطر اور ر وزے کا فدیہ کے بھی مستحق ہیں۔(فتاویٰ ہندیہ)۔
تاہم یہ ذہن میں رہے کہ صدقات نافلہ کے لیے کوئی خاص شرط نہیں،مالدار انسان کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ہمارے ہاں بھی خیرات کے عنوان سے دیے جانے والے صدقات سے مراد صدقات نافلہ ہی ہوسکتے ہیں۔جو بہر صورت فقراء، مساکین اور حاجت مندوں کو دینا بہتر ہے۔
ٓآپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ صدقہ مالدار اور تندرست واتوانا پر حلال نہیں۔ان کو خود بھی اجتناب کرنا چاہیے اورنہ ان کو دینا چاہیے
اسلامی حکومت کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ وہ مالدار مسلمانوں کی ظاہری اموال سے زکواۃ جمع کریں اور مستحقین زکواۃ و صدقات میں انصاف سے تقسیم کریں۔
دین اسلام کا اصولی موقف یہ ہے کہ جو انسان محتاج و ضرورت مند ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کا مذہب اور اس کی گناہ گاری مانع نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ بے دین، گناہ گار اور اخلاقی ومعاشرتی پستیوں میں گرے ہوئے لوگوں کی اعانت کی جائے توان کی بہترین اصلاح ہوسکتی ہے۔تو مصیبت و تکلیف کے وقت ان کو سہارا دے کر، حسن سلوک اور مالی ومعاونت کے ذریعے ان کے نفس کو پاک کیا جانا چاہیے۔ویسے بھی اللہ کی راہ میں خرچ انسان صرف اپنے لیے کرتا ہے۔وما تنفقوا من خیر فلاانفسکم، وما تنفقون الا ابتغاء وجہ اللہ، وما تنفقوا من خیر یوف الیکم وانتم لا تظلمون“۔تم جو مال خرچ کروگے تو اس کا فائدہ تمہیں کو ہے اور تم جو خرچ کرو گے خدا کی خوشنودوی کے لیے کرو گے تو تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
یہ تحریر ریڈیوپاکستان کی رمضان ٹرانسمیشن 2019کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں