208

ہاتھوں میں قلم کی بجائے اوزار تھامے بچے!۔۔۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان

پاکستان میں غربت، مہنگائی،بے روزگاری نے جہاں غریب خاندانوں کے بچوں کو اسکولوں سے دور کر دیا ہے اور تعلیم ان کے لئے ایک خواب بن کر رہ گئی ہے، وہاں پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کو اس قدر مہنگا کر دیا ہے کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولاد کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرکے غریب ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی معاشی بدحالی، بے روزگاری، غربت جیسے مسائل کی وجہ سے ننے معصوم بچوں کو زیور تعلیم سے دور رکھ کر مشقت لی جارہی ہے۔ اور جابجا پھول جیسے بچے گھریلو ملازم، بوٹ پالش کرتے، ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں، خشت بھٹوں،سی این جی اور پٹرول پمپوں سمیت بہت سی جگہوں پر مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ بچوں سے جبری مشقت کو ہمارے معاشرے میں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کے دنوں میں ہاتھوں میں قلم اور کتابوں کی بجائے اوزار تھامے پھول جیسے بچے جب حالات سے مجبور ہوکر کام کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوں تویقینا اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پارہاہوتاہے۔ بچوں سے مشقت خوشحالی و ترقی کے دعویدار معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ،اور قوم کی اخلاقی اقدار کے زوال کی علامت ہے۔
محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش نہیں ہوتے، ان کی شکلیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ہوتی ہیں لیکن صرف وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں ”چھوٹے“ بن کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں آئین کاآرٹیکل گیارہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ بچوں کو کارخانوں،د کانوں اور دیگر پرخطر ملازمتوں پر نہیں رکھا جائے گا، لیکن المیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین تو بنے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی پر سخت سزا نہیں سنائی گئی اور عملاً صورت حال سب کے سامنے ہے۔ امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حالات کار سب سے برے ہیں جن پر شدید تشدد کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں،اس کے علاوہ بیشتر کاروباری مقامات اور ورکشاپش میں محنت کش بچوں پر معمولی معمولی بات پر پر تشدد واقعات معمول ہے، دیہات میں اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں جبکہ شہروں میں سڑکوں اور ورکشاپوں اور چھوٹے کارخانوں میں پابندی کے باوجود معصوم بچوں سے مشقت لی جارہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 12 جون کو محنت کش بچوں کا عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگر اس دن منانے کے ساتھ ساتھ ان پھول جیسے بچوں سے مشقت کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
محکمہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کا کہنا ہے کہ والدین خود کمسن بچوں کو سڑکوں، بازاروں اور فیکٹریوں میں مزدوری کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں، جہاں حفظان صحت کے اصولوں سے آشنا نہ ہونے اور فیکٹریوں، کارخانوں کے شور و دھوئیں، گندے پانی کے فضلات کی وجہ سے مزدوری کرنے والے 70 فیصد سے زائد بچے ہپاٹائٹس اے، بی اور سی جیسے وائرس اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں موجودمعاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس المیے کوجنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتاچلاجارہاہے۔ امیر کے امیرتر اور غریب کے غریب تر ہونے پرقابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کوابتدا سے ہی کام پرلگادیں تاکہ ان کے گھروں کاچولہا جلتا رہے اور ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں، چاہے ایسا کرنے سے قیمتی زندگیاں داؤ پر لگی رہیں۔ بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں، ان کی بہترین تربیت و نگہداشت پر جس قدر زیادہ توجہ دی جائے، قوموں کی ترقی کے امکانات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں۔ بلاشبہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری بن چکا ہے لیکن یہ بھی جائز نہیں ایسے موقع پر معاشرہ کوئی کردار ہی ادا نہ کرے، ہمارا مذہب تو اپنے ہمسا ئیوں چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم دیتا ہے اور رشتے داروں کے حقوق تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اگر ہمسائیوں، رشتے داروں یا جاننے والوں میں کوئی بے سہارا بچہ یا خاندان ہے تو اسکی کفالت کرنا صاحب حیثیت لوگوں، خصوصاً رشتے داروں اور ہمسائیوں کا فرض ہے تاریخ اسلام ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے بجائے ان کی تعلیم،صحت اور خوراک کیلئے ان کے والدین کو مناسب سپورٹ کیا جائے۔غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم،علاج معالجہ اور کفالت فراہم کی جائے، تاکہ یہ اچھے شہری بن کر ہمارے آنے والے کل کے لئے مثبت کردار ادا کرسکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں