303

“خُورو پیالان گانی کیہ ہوٹل والی”….طارق اقبال

ایک عام چترالی کی حیثیت میرے لئے کسی پارٹی اور کسی شخصیت کی کوئی اہمیت نہیں۔میرے لئے ہر وہ انسان اہم ہے جس نے سرزمین چترال اور اس میں بسنے والے سادہ لوح عوام کے لئے ایک روپے کا بھی کام کیا ہو۔میرے لئے وہ پارٹی اہم ہے جس کی حکومت میں چترال کے اندر ترقیاتی کام ہوئے ہوں۔مجھے اس پارٹی اور اس شحصیت سے کوئی سروکار نہیں جس کا صرف نام اور باتیں بڑی ہوں۔جو صرف عیر ضروری چیزوں کو اچھالتا ہو اور عوام کو جھوٹ کے زریعے بے وقوف بناتا ہو۔ایک عیر جانبدار چترالی کی حیثیت سے مجھے گراونڈ میں حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔مجھے کس نئے پروجیکٹ سے فائدہ ہوا ہے۔کس روڈ سے مجھے سفر میں آسانی ہوئی ہے۔کونسی نئی پروجیکٹس کا چترال میں اجرا ہوا ہے۔کتنے فنڈز چترال میں لائے اور استعمال کئے گئے۔کس کس شعبے میں کونسے کونسے کام ہوئے ان سب چیزوں کو دیکھنا ہے۔

چترال کے سابق ایم این اے جناب شھزادہ افتخار الدین صاحب کے اوپر سب نے کھلے دل سے تنقید کیےاور اس تنقید 

میں بذات خود میں بھی شامل رہا۔ان کے کام کو فیس بلی انکے کوششوں کو جعلی اور ان کی محنت کو ڈرامہ قرار دیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ متعصب لوگوں نے انکے خاندان کو بھی ٹارگٹ کیا-

اگر پچھلے پانچ سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو جتنا کام شھزادہ افتخار الدین صاحب (سابق ایم این اےنے کیا ہے آج تک کسی نے نہیں کیا۔اس کی زندہ مثال لواری ٹنل پروجیکٹ کو فنڈز کی فراوانی، گولین گول پروجیکٹ کی تکمیل اور اس سے بائی پاسگرڈ اسٹیشن کے زریعے چترال کو بجلی کی فراہمی،  زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کی بروقت امداد، ایک منتخب وزیر اعظم کے چترال کے کئی دورے، چترال کے لئے گیس پلانٹس وعیرہ ایسے کام ہیں جو حقیقت بھی ہیں اور عیان بھی

اب آتے ہیں ان سارے پروجیکٹس کی حقیقت کی طرف۔ان سارے پروجیکٹس اور فنڈز کی ڈیٹیل  نیچے دئے گئے لنک میں موجود ہیں

1- Link to PML N Budget (PSDP) presented in May 2018 https://www.pc.gov.pk/uploads/archives/PSDP_2018-19_Final.pdf

چترال کے لئے ٹوٹل ترقیاتی پیکج 173.14 بلین روپے تھا۔اس میں سے 2013 سے 2018 تک مندرجہ زیل پروجیکٹس پر کل 61 بلین روپے خرچ ہوئے 

1- گولین گول ہائڈرل پاور پروجیکٹ 28.5 بلین

2- لواری ٹنل پروجیکٹ 27 بلین 

3- زلزلہ زدگان کی مالی معاونت پر کل 2.22 بلین

4- سیلاب زدگان کی مالی امداد پر 1 بلین (ایک مکان ایک لاکھ)

5- چترال میں موبائل ٹاور اور تھری جی فور جی سروس پر 1.9 بلین

6- تورکہو روڈ جس کی ٹوٹل تحمینہ لاگت 1.11 بلین تھا اور سالانہ ایلوکیش 30 کروڑ تھا جو کم کرکے صرف 6 کروڑ کر دیا گیا

7- تین گیس پلانٹ (دروش، چترال، ایونکے لئے 2 بلین جو الگ سے منظور ہوئے ہیں۔یہ سارے پلانٹس امریکہ سے برآمد کرکے لاہور میں موجود ہیں اور انکے لئے زمین کی خریداری کی قیمت تقریباً 23 کروڑ ڈی سی چترال کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کیے جاچکے تھے۔

اب آتے ہیں ان 49بلین روپوں کے منصوبوں کی طرف جن کے لئے 2018کے پی ایم ایل این کے بجٹ میں فنڈز الوکیشن ہو گئی تھی۔

1- چترال۔بونی، مستوج۔شندور  145 کلومیٹر ECNEC سے 7 مارچ 2018 کو اپرو ہوا تھا اسکا سالانہ الوکیشن 1.5 بلین سے کم کرکے 1 بلین کردیا گیا ہے

2- 212 km شندور گلگت روڈ CPEC روٹ 25 بلین مکمل طور پر ہٹایا گیا تھا لیکن ابھی دوبارہ شامل کیا گیا ہے لیکن اسکی تحمینہ کم کرکے صرف 16.7 بلین رکھا گیا ہے یعنی 9 بلین کی کٹوتی کی گئی ہے

3- چترال گرم چشمہ روڈ 85km تقریباً 8.32بلین 

4- کالاش ویلی روڈ 48km ٹوٹل کاسٹ 4.64 بلین 

5- کشادگی اور بلیک ٹاپنگ تیریچ، لوٹ اویر روڈ 132 کلومیٹر تقریباً 16 بلین جو 6  پلوں   (پرپش،کوراع۔کوشٹ، بنباع۔کوشٹ، دراسن موڑکہو، کندوجالکشم، نشکوہمداک) پر مشتمل ہے۔بجٹ سے نکال دیا گیا ہے

6- یونورسٹی آف چترال جس کا PC-1 تقریباً 2.9 بلین پلاننگ کمیش کے پاس موجود ہے۔جو مکمل طور پر اس بجٹ سے نکال دیا گیا ہے

7- چترال میں بجلی کی ترسیل کے لئے 3.47 بلین 9 مختلف فیڈرز پر جبکہ 1.8 بلین گرڈ اسٹیشنز (قاقلشٹ، مستوج، گرم چشمہ اور گہیریتاس میں سے 1.8 بلین روپے کم کرکے 1.44 بلین کردیا گیا ہے

8- اسکے علاوہ بونی مستوج بروعل روڈ پر سروے کا کام مکمل ہوچکا تھا

09– N45 چکدرہ ایکسپریس وے اگست 2106 ECNEC سے 17.42 بلین منظور ہوچکے تھے

ان سارے تفصیلات کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سابقہ ایم این اے کے دور میں پبلک سیکٹر دولپمنٹ پروگرام کے تحت 21 نئے پروجیکٹس کا اضافہ کیا گیا تھا جو چترال کی تاریخ میں ایک بڑی سنگ میل ہے۔لیکن چترال یونورسٹی اور تریچ لوٹ اویر روڈ نکال دیے گئے اب ٹوٹل پروجیکٹ کی تعداد 20 رہ گئی ہیں۔

کیا ہم عینی شاہد نہیں ہیں کہ لواری ٹنل پر فنڈز کی فراہمی کس کے دور میں ہوئی۔ہمارے گھروں میں بند پڑے برقی آلات کب سے دوبارہ زیر استعمال آنے لگے۔زلزلہ زدگان کی مالی امداد، سیلاب زدگان کی بحالی، وزیر اعظم کی چترال کے دورے، تھری جی اور فورجی سروس اور چترال کے طول و عرض میں موبائل نیٹورک کی فراہمی، مستوج پل بونی پل سے لیکر تورکہو روڈ پر کام کا اعاز، گرم چشمہ میں نادرا آفس کا قیام یا چترال میں گیس پلانٹس کی تنسیب، یہ سارے کام ہوئے تو ہیں۔پھر ہم کیوں آنکھوں پر پٹی ڈال کرحقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کر رہے ہیں

1999 میں چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے چترال کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر شندور میں چترالی عوام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل مشرف نے چترالی عوام سے وعدہ کہا تھا۔  “لواری ٹنل پروجیکٹ میرا چترالی عوام کے ساتھ وعدہ ہے” انہی کے دور میں ٹنل مکمل ہوا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اسکا افتتاح کیا۔بعد میں میاں نواز شریف صاحب کے دور میں شھزادہ افتخار کی سرپرستی میں اس پروجیکٹ پر کام مکمل ہوا۔ان سارے پروجیکٹس پر کریڈٹ لینے کی کوشش بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانا کے مترادف ہے۔

بہت سارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ چترال میں اہلیت کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہئے اگر اہلیت ہی بنیاد تھی شھزادہ افتخار سے زیادہ اہل کوئی نہیں تھا۔صرف پانچ سالوں میں 21 نئے پروجیکٹس کا اضافہ کوئی معمولی کارکردگی نہیں ہے۔  چترال میں سیاسی اختلاف سے بالاتر ہو کر اگر کام کریں گے تو سب کا بھلا ہوگا اگر سوال کرنا ہے تو سب سے مل کر کرین قرنہ کسی ایک فرد کی ذاتی زندگی کو ٹارگٹ کرکے تنقید کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔چترال میں اگر ترقی چاہئے تو آنکھیں کھولنے پڑے گی اور اس آدمی کو سپورٹ کرنی پڑے گی جو کچھ کرنے کے قابل ہو اور جس کی کوئی نہ کوئی کارکردگی نمایاں ہو۔ورنہ مزہب کارڈ استعمال کرکے بے کار لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیج کر حکومت سے خیر کی توقع کرنا احمقانہ اور عیر فطری اقدام ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو واسلام

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں