299

کیلاش تہذیب نہ صرف چترال کی پہچان، بلکہ پاکستان کی سیاحتی شناخت کا اہم حصہ ہے۔۔۔۔تحریرسیدنذیرحسین شاہ نذیر

خیبرپختونخواکے دورافتادہ سبز وشاداب ضلع چترال آبی اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں دنیا کی قدیم تہذیبوں کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔کیلاش تہذیب نہ صرف چترال کی پہچان ہے بلکہ پاکستان کی سیاحتی شناخت کا اہم حصہ ہے۔چترال سے تقریبا45کلومیٹرکے فاصلے پردنیاکے مخصوص ثقافت رکھنے والے کیلاش قبیلے کے لوگ چترال کے تین وادیوں میں رہتے ہیں،وادی بمبوریت،رمبوراوربریرکے کیلاش قبیلے کے لوگ ہر سال دو بڑے اور دو چھوٹے جشن مناتے ہیں جو ان کی مذہبی رسومات پر مبنی اور ان کی مذہبی تہوار یں بھی ہیں۔ کیلاش ویلیزکے مکینوں نے اپنی مخصوص ثقافت اور طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور اور اپنی نرالی اور انوکھی رسومات کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
”چلم جوش“(جوشی)ہرسال موسم بہارمیں کی آمدپر13مئی سے 16مئی تک منایا جاتا ہے۔ موسم بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوشٹ کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔چلم جوش پاکستان کے سب سے رنگارنگ اور مشہورتہوارکی حیثیت سے سب سے زیادہ شہرت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس تہوار کو دیکھنے ہر سال ہزاروں سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وہ تہوار ہے جو وادی کیلاش کی روز مرہ زندگی اور وہاں کے انوکھے رہن سہن کو دنیا بھر میں شہرت بخشنے کابڑا سبب ہے۔تقریب کے آخری دن بہت زیادہ سیاحوں کی آمدہوتی ہے۔ضلعی انتظامیہ چترال کی طرف سے مہمانوں کوٹھہرانے کے لئے مناسب بندوبست کیاجاتاہے۔سیاحوں کی خریداری کے لئے مختلف سٹالزلگائے جاتے ہیں جس سے مقامی ثقافت سے متعلق آگاہی ملتی ہیں۔یہاں کے سادہ لوح افرادآج بھی صدیوں پرانی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانی روایات کو مذہب کی طرح اپنایا ہواہے۔اسی سبب سیاحوں کے لئے ان کی شادیاں، اموات، مہمان نوازی، میل جول، محبت مذہبی رسومات اور سالانہ تقاریب وغیرہ انتہائی دلچسی کا باعث ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو سیاحوں کو چترال اور خاص کر وادی کیلاش کی سیر کی دعوت دیتی ہیں۔ چلم جوشٹ کوجشن بہاران بھی کہاجاتاہے۔
”کوڑ ر“اس تہوارکاآغازجون کے آخرمیں کیاجاتاہے تقربیاایک مہینے تک جاری رہتاہے فضل کے کٹائی کے موقع پرخوشی کااظہارکرتے ہوئے ایک دن چھوڑکے دوسرے دن دھول کی تاب میں رقص کرکے خوشیاں مناتے ہیں۔راگ نٹ میں باہرکوئی خاص لوگ نہیں آتے ہیں یہ لوگ خودمناتے ہیں۔
”اُوچال“ اُوچال تہوار کا آغاز کیلاش ویلی رمبور میں 22اگست کوشروع ہوکر شام ڈھلنے کے ساتھ اختتام پذیر ہوتاہے۔ لیکن یہی تہوار 22 اور 23اگست کی درمیانی رات بمبوریت میں منایاجاتاہے۔چلم جوشٹ (جوشی) تہوار کے بعدکیلاش قبیلے کے لوگ اپنے مال مویشی گرمائی چراگاہوں میں لے جاتے ہیں وہاں قیام کے دوران چرواہے دودھ سے پنیر اور دیسی گھی جمع کرتے ہیں۔ اور اْ چال تہوار کے موقع پر تمام جمع شدہ اشیاء کو گاؤں لایا جاتا ہے۔گاؤں کے لوگ ڈھول بجاتے، رقص کرتے چرواہوں کے استقبال کیلئے جاتے ہیں۔ اور جمع شدہ پنیر اور دیسی گھی وغیرہ اشیاء گاؤں لانے میں اْن کی مدد کرتے ہیں۔جہاں کیلاش مذہب کے پیشوا اور بزرگ مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔ مال مویشیوں اور قبیلے کی خیرو عافیت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ گرمائی چراگاہوں سے آنے والے چرواہے پہلے مالوش (کیلاشہ عبادت گاہ)میں حاضری دیتے ہیں اور اْسکے بعد اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ جہاں لائے گئے پنیر کا بڑا حصہ گاؤں کے لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔


دسمبرکے مہینے میں سالانہ مذہبی تہوارکو”چھترمس“یاچاموس کہلاتاہے۔ یہ تہوارتینوں وادیوں میں انتہائی پرامن ماحول میں جوش خروش اورعقیدت سے منایاجاتاہے۔چھترمس کاتہواررمبورسے شروع ہوکربمبوریت میں اختتام پذیرہوتاہے۔اس تہوارمیں کیلاش ویلی کے مرد خواتین رویاتی رقص پیش کرتے ہوئے مذہبی گیت گاتے ہوئے نئے آنے والے سال کے لئے دعائیں مانگتے ہیں۔اس دوران کیلاش کے لوگ تین دنوں کے لئے روپوش ہوجاتے ہیں وہ خودجانورکوگردن یعنی پیچھے کی جانب سے جھٹکاکرکے مارتے ہیں اوراس کاگوشت کھاتے ہیں۔ان دنوں کسی مسلمان کویادوسرے وادی کے آنے والے کیلاش کوبھی ان کے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی،نہ ہی کیلاش لوگ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں۔مرداورعورتین سب شراب پیتے ہیں اس میلے میں کیلاش قبیلے مردتین دن مویشی خانوں میں گزارتے ہیں اورتین دنوں کے بعدباہرنکل آتے ہیں اس کے بعداجتماعی طورپررقص کرتے ہوئے گیت گاتے ہیں۔اختتامی تقریب میں کیلاش خواتین اورمرد شانہ بشانہ رقص کرتے ہوئے خوشی کے گیت گاکرایک دوسرے سے ملتے ہیں۔یہاں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کوپسندکرتے ہوئے تہوارکے شام بھاگ کردوسری وادی میں جاکرشادی کااعلان کرتے ہیں۔


ان تہواروں کے ساتھ ساتھ کیلاش کمیونٹی کا مذہبی رسومات انتہائی دلچسپ ہے۔اپنے عقیدے کے مطابق مناتے ہیں۔ کیلاش لوگ اپنے مذہبی روایات کے مطابق مرد کی میت پر تین روز جبکہ خاتون کی میت پر ایک دن مذہبی تہوار مناتے ہیں۔میت کے نہایت قریبی رشتہ دار یعنی اس کے اولاد اور بھائی بہن وغیر ہ اس کے سرہانے روتے ہیں جبکہ کیلاش خواتین گول دائرے میں روایتی رقص پیش کرتی ہیں اور مذہبی گیت گاتی ہیں۔اس دوران نوجوان لوگ ڈھول بجاتے ہیں اور کیلاش کے بوڑھے لوگ تلوار، نیزہ، کلہاڑی یا چھڑی کو ہاتھ میں پکڑ کر مخصوص رقص پیش کرتے ہیں۔مرد کے میت پر بیس سے سو بکریاں ذبح کی جاتی ہیں اور تین دن تک جشن منایا جاتا ہے جبکہ خاتون کی میت پر پانچ سے دس بکرے ذبح کرکے صرف ایک دن رسم ادا کرنے کے بعد اسے دفناتے ہیں۔کیلاش لوگ تین دن جشن منانے کے بعد میت کو لکڑی کی بنی ہوئی صندوق میں دفتاتے ہیں مگر جس چارپائی میں اس کی میت کو قبرستان تک لے جاتے ہیں اسے واپس گھر نہیں لاتے۔میت کے ساتھ اس کے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلاً کلہاڑی، کپڑے، کوٹ، چوغہ، ٹوپی، بندوق اور کچھ خوراک کی چیزیں بھی قبر میں رکھتے ہیں۔ تاہم ماضی میں چند لوگوں نے ان کی قبر سے بندوق وغیرہ چرانے کے بعد انہوں نے یہ سلسلہ بند کیا اب بندوق کے علاوہ دیگر سامان رکھتا ہے۔کیلاش لوگ میت کے سرحانے نہ صرف خشک میوہ رکھتا ہے بلکہ اس کی ٹوپی میں سو، پانچ سو، ہزار روپے نوٹ بھی سجاتے ہیں اور جن میت کے ٹوپی میں زیادہ نوٹ ہوں گے انہیں زیادہ عزت والا تصور کیا جاتا ہے۔ اس دوران مرد، خواتین اس میت کے بارے میں گیت گاتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں کہ آنجہانی نہایت سخی تھے لوگوں کو کھانا کھلاتے اور بہت بہادر انسان تھے ان کی بہادری اور سخاوت کی قصے گیتوں میں سناتے ہیں۔مرد کی میت کی صورت میں بعض اوقت پچاس سے بھی زیادہ بکرے کاٹے جاتے ہیں اور کیلاش کے تینوں وادیوں سے مہمان آتے ہیں ان مہمانوں کو دیسی گھی، پنیر، دودھ سے بنے ہوئے روایتی پکوان وغیرہ پیش کی جاتی ہے۔کچھ لوگ میت کے گھر پکا ہوا گوشت اپنے گھر بھی لے جاتے ہیں۔


کیلاش لوگ جب میت کو دفناتے ہیں تو ہوائی فائرنگ بھی کرتے ہیں۔ کیلاش لوگوں کے عقیدے کے مطابق جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے یعنی کوئی بچہ جنم لیتا ہے تو لوگ اس کی پیدائش پر خوشی مناتے ہیں لہذا جب وہ یہ دنیا چھوڑ کر دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے تو اسے خوشی خوشی رخصت کرنا چاہئے تاکہ وہ دوسری جنم میں خوشی سے رہے۔
”مختلف شائع شدہ رپورٹ کے مطابق کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے، جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اس تہذیب کے کی زبان کو کلاشہ کہا جاتا ہے۔ چترال کے پر امن ماحول میں یہ تہذیب آج بھی اپنی تمام تر رنگا رنگی کے ساتھ موجود ہے۔کیلاش کی ابتداء سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں اور یہاں کے لوگوں کے نسلی اجداد کا تعین بھی مشکل ہے تاہم اس ضمن میں دونظریات رائج ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ ان کا تعلق قدیم آریائی نسل سے ہے، اس نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد گھٹ کر اب چار سے پانچ ہزار نفوس تک رہ گئی ہے۔ آریائی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی سمٹ کر چترال کے تین دیہات بمبوریت، بریر اور رمبور تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔ دوسری روایت یوں ہے کہ کیلاش یونانی النسل قوم ہے۔ جب سکندر اعظم کی فوجیں موجودہ افعانستان سے گزر رہی تھیں تویونانی لشکر کے بہت سے ارکان اس خطے میں رہ گئے اور وہ یہاں آکر آباد ہو گئے۔

فائل فوٹو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں