193

مسجد سکون و راحت کا مرکز……تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان

مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں مسجد ایسا مرکز و محور ہے جہاں عبادت الٰہی کے ساتھ ساتھ، ان کے تمام تر مذہبی، اخلاقی، اصلاحی، تعلیمی، ثقافتی و تہذیبی، سیاسی اور اجتماعی امور کی رہنمائی ہوتی ہے۔مسجد کا نام سجد سے نکلا جس کے لفظی معنی خشوع و خضوع کے ساتھ سرجھکاناہے، اصطلاح میں مسجد اس مقام کو کہتے ہیں جہاں مسلمان بغیر روک ٹوک کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”شہروں اور بستیوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ مبغوض بازار اور منڈیاں ہیں“۔ (مسلم شریف) انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں، ایک ملکوتی و روحانی،یہ نورانی اور لطیف پہلو ہے۔ اور دوسرا مادی و کثافتی جو ظلماتی اور کثیف پہلو ہے۔ ملکوتی و روحانی پہلو کا تقاضا اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر جیسے مقدس افعال و اعمال ہیں، انہی سے اس پہلو کی تربیت و تکمیل ہوتی ہے اور انہی کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و محبت کا مستحق قرار پاتاہے، اور ان مبارک افعال و اعمال کے خاص مراکز مساجد ہیں جو ہر وقت ذکروعبادت سے معمور رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کو ”بیت اللہ“ سے ایک خاص نسبت ہے اس لئے انسانی بستیوں اور آبادیوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب یہ مسجدیں ہی ہیں۔ جبکہ بازار اور منڈیاں اپنے اصل موضوع کے لحاظ سے انسانوں کی مادی وکثافتی تقاضوں اور نفسانی خواہشوں کے مراکز ہیں اور وہاں جاکر انسان عموماً خدا سے غافل ہوجاتے ہیں اور ان کی فضا اس غفلت اور منکرات و معصیات کی کثرت کی وجہ سے ظلماتی اور مکدر رہتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسانی آبادیوں کا سب سے زیادہ مبغوض حصہ ہیں۔ حدیث بالا کی اصل روح اور منشا یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ مسجدوں سے زیادہ سے زیادہ تعلق رکھیں اور ان کو اپنا مرکز بنائیں اور منڈیوں اور بازاروں میں صرف ضرورت سے جائیں،اور ان سے دل نہ لگائیں اور وہاں کی آلودگیوں سے مثلاً جھوٹ، فریب اور بددیانتی سے اپنی حفاظت کریں،ان حدود کی پابندی کے ساتھ بازاروں سے تعلق رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بلکہ ایسے سوداگروں اور تاجروں کو خود سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اصول دیانت و امانت کی پابندی کے ساتھ تجارتی کاروبار کرتے ہیں اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ بیت الخلاء غلاظت اور گندگی کی جگہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ اصلاً سخت ناپسندیدہ مقام ہے لیکن ضرورت کے مطابق اس سے بھی تعلق رکھا جاتا ہے بلکہ وہاں کے آنے جانے میں اور قضاء حاجت میں اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام اورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و سنن کا لحاظ رکھے تو بہت کچھ ثواب بھی کما سکتا ہے۔
اسلامی شریعت میں اس اجتماعی نظام کا ذریعہ مسجد اور جماعت کو بنایا گیا ہے، ذرا سا غورکرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس امت کی دینی زندگی کی تشکیل و تنظیم اور تربیت و حفاظت میں مسجد اور جماعت کا کتنا بڑا دخل ہے اس لئے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک طرف تو جماعتی نظام کے ساتھ نماز ادا کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی اور ترک جماعت پر سخت سے سخت وعیدیں سنائیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کی اہمیت پر زور دیا اور کعبۃ اللہ کے بعد بلکہ اسی کی نسبت سے ان کو بھی ”خدا کا گھر“ اور امت کا دینی مرکز بنایا اور ان کی برکات اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی عظمت و محبوبیت بیان فرما کر امت کو ترغیب دی کہ ان کے جسم خواہ کسی وقت کہیں ہوں لیکن ان کے دلوں اور ان کی روحوں کا رخ ہر وقت مسجد کی طرف رہے، اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے حقوق اور آداب بھی تعلیم فرمائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ سات قسم کے آدمی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے گا۔ قیامت کے دن جبکہ اس کے سایہ رحمت کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا، ایک عدل و انصاف سے حکمرانی کرنے والا حاکم و عادل بادشاہ، دوسرا وہ جوان جس کی نشودنما اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہوئی (یعنی جو بچپن سے عبادت گزار تھا اور جوانی میں بھی عبادت گزار رہا اور جوانی کی مستیوں نے اسے غافل نہیں کیا)، تیسرا وہ مرد مؤمن جس کا حال یہ ہے کہ مسجد سے باہر جانے کے بعد بھی اس کا دل مسجد ہی سے کی طرف رہتا ہے جب تک کہ پھر مسجد میں نہ آجائے، اور چوتھے وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ کے لئے باہم محبت کی اور پھر اسی پر جڑے رہے اور اسی پر الگ ہوئے (یعنی ان کی محبت صرف منہ دیکھنے کی محبت نہیں جیسا کہ اہل دنیا کی محبتیں ہوتی ہیں، بلکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب یکجا اور ساتھ ہیں تب بھی محبت ہے اور جب ایک دوسرے سے الگ اور غائب ہوتے ہیں تب بھی ان کے دل ا للہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں)، پانچواں خدا کا وہ بندہ جس نے اللہ کو یاد کیا تنہائی میں تو اس کے آنسو بہہ پڑے، اور چھٹا وہ مردِ خدا جسے حرام کی دعوت دی کسی ایسی عورت نے جو خوبصورت بھی ہے اور صاحب وجاہت و عزت بھی، تو اس بندے نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لئے حرام کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتا)، اور ساتواں وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ کیا اور اس قدر چھپا کر کیا کہ گویا اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں کہ اس کا دایاں ہاتھ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کررہا ہے اور کس کو دے رہا ہے“۔(بخاری شریف) اس حدیث مبارکہ میں تیسرے نمبر پر اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت کی بشارت سنائی گئی ہے جس کا حال یہ ہو کہ مسجد سے باہر ہونے کی حالت میں بھی اس کا دل مسجد کی طرف متوجہ ہے، بے شک مؤمن کا حال یہی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان سات باتوں میں سے کوئی نہ کوئی بات ہمیں بھی نصیب فرمائے کیونکہ بندہ صبح یا شام جس وقت بھی اور دن میں جتنی مرتبہ بھی خدا کے گھر میں (یعنی مسجد میں) حاضر ہوتا ہے رب کریم اس کو اپنے عزیز مہمان کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔صحابہ کرام کے دور میں جتنے اہم اعلان، فیصلے اور مشاورتیں ہوئی تھیں ان کاا علان مسجد میں ہی ہوتا تھا۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ صحابہ کرام کو مسجد سے کتنا انس تھا او ران کے دلوں میں اس کی کتنی اہمیت تھی۔ بلاشبہ مسجدیں اللہ کا گھر اورسکون و راحت کا مرکز ہیں اور ان میں حاضر ہونے والے اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے ملاقاتی اور مہمان ہیں۔ اللہ پاک اپنے خاص فضل و رحمت سے ہمیں مساجد میں دل لگانے والا بنائے، آمین۔
٭……٭……٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں