502

انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے صاف ستھرے ماحول کی فراہمی محکمہ صحت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے/ایم ایس ڈاکٹرفیض الملک

چترال (ڈیلی چترال نیوز)ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیویلپمنٹ سنٹر(DHDC)چترال کے زیر اہتمام پراونشل ہیلتھ سروسز اکیڈیمی (PHSA) پشاورکی تعاون سے تحصیل ہیڈکوارٹرہسپتال بونی،گرم چشمہ،دورش اور چترال میں سولڈویسٹ مینجمنٹ کے موضوع پر پانچ مقامات پر دو روزہ تربیتی ورکشاپس کاانعقادکیاگیا۔ورکشاپس میں ڈاکٹرز،پیرامیڈکس،نرسرز،ایل ایچ ویزاوردیگراسٹاف نے شرکت کی۔اختتامی پروگرام کے مہمان خصوصی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرہسپتال چترال ڈاکٹر فیض الملک نے کہاکہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے صاف ستھرے ماحول کی فراہمی محکمہ صحت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ ہسپتالوں کا فضلہ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا ہسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے،تمام سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال انتظامیہ ہسپتال کے فضلہ کو مناسب طر یقے سے ٹھکانے کی ہرممکن کوشش کریں۔انہوں نے کہاکہ ڈی ایچ کیوہسپتال چترال میں اس حوالے سے عنقریب ایک کمیٹی بنایاجائے گاہسپتال کے ہر ڈیپارنمنٹ کاایک متعلقہ اسٹاف اس کمیٹی کاممبرہوگاجن کی ماہانہ اجلاس ہو ں گے جس میں ماہانہ کارکردگی رپورٹ پیش کیاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ اس ورکشاپ کامقصد بھی یہ ہے کہ محکمہ صحت سولڈویسٹ کو مخصوص انداز میں تلف کرنے پابندہوجائے کیونکہ اس سے دیگر تندرست افراد کو بھی مختلف بیماریاں لگنے کا خدشہ رہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہسپتالوں میں استعمال ہونے والی سوئیاں، بلیڈ، کٹر، بوتلیں اور باسکٹ فوری تلف نہ ہونے پر اضافی بیماریوں اور انفیکشن کی وجہ بن سکتے ہیں جن سے دیگر صحت مند لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں اور اس کے خطرات اور آلودگی سے پانی، ہوا اور مٹی بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔اس موقع پرڈپٹی ڈائریکٹرڈی ایچ ڈی سی چترال ڈاکٹرارشاد احمد،پروگرام سہولت کارڈپٹی ڈائریکٹر فارسٹ اعجازاحمداورشاکرالدین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ضرر رساں، مہلک اور متعدی طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے اولین طریقہ انسنریشن ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس طریقے کے تحت مذکورہ فضلے کو ایک سائنسی بھٹی انسنریٹر میں حفاظتی اقدامات کے ساتھ ڈال کر انتہائی بلند درجہ حرارت دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں فضلے کے تمام نقصان دہ جراثیم ختم ہوجاتے ہیں اور فضلے کا حجم بھی بالکل کم ہوجاتا ہے، طبی فصلہ تلف کرنے کا دوسرا طریقہ آٹو کلیو کہلاتا ہے جس میں ایک خاص درجہ حرارت کے ساتھ نمی کے ذریعے طبی فضلے کے خطرناک جراثیم کو بے ضرر بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پچھلی چند دہائیوں سے آبادی سے آبادی بڑھنے اور سیوریج کے مناسب نظام کی عدم دستیابی کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا گیا جس سے نہ صرف بیرونی ماحول متاثر ہوا بلکہ زیرزمین پانی بھی آلودگی کا شکار ہوا۔پروگرام کے اخرمیں مہمان خصوصی اوردیگرسینئرڈاکٹرزنے شرکائے ورکشاپ میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں