237

  ہماری تربیت کا شاخسانہ…….محمد جاوید حیات 

لفظ ”انسان“ ایک مخلوق کا نام ہوتا تو اس کی اتنی اہمیت نہ ہوتی۔خالق نے اس کو اپنی مخلوقات میں سے اشرف کا درجہ نہ دیتے۔ اس کواشرف کادرجہ اس لئے دیا کہ وہ تربیت حاصل کرکے واقعی اشر بن جاتا ہے۔ اس لئے اس کو عقل،شعور اور فہم و ادراک دینے کے ساتھ ساتھ اس کو تربیت کے بے غیر نہیں چھوڑا۔دنیا کا پہلا انسان بہ یک وقت انسان بھی تھے۔ہادی بھی تھے۔پیام بر بھی تھے۔اس کو دنیا میں بھیجنے کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ تربیت اور ہدایت بھی بھیج دی۔دنیا میں اس اشرف المخلوقات کی تربیت کو اولیں درجہ حاصل ہے۔۔تربیت کے اس عظیم کام کی بنیاد علم پر رکھا گیا ہے۔قرآن نے کہا۔عقل والے۔۔شعور والے۔۔فہم و ادراک والے۔۔پھر علم والے۔۔سوچ کی دعوت دی۔۔فکر کرنے کی دعوت دی۔۔اس بیتربیت ہیں ان کو۔۔جاہل،غافل،ناسمجھ،بے تربیت کہا گیا۔حق و باطل میں فرق نہ کرنے والا۔۔ظلم و انصاف میں فرق نہ کرنے والا۔اچھے برے میں تمیزنہ کرنے والا۔اب انسان نام کی مخلوق کا تعارف یہ ہے۔۔کہ وہ مل جل کر رہتا ہے۔۔اس کے پاس جو صلاحیتیں ہیں ان کو استعما ل کرتا ہے  وہ تربیت کا محتاج ہے۔۔۔اگر نہ کرے تو قرآن نے کہا۔۔کہ دل ان کے پاس ہیں مگر سوچتے ہیں۔کان ہیں سنتے نہیں۔آنکھیں ہیں دیکھتے نہیں۔وہ تو حیوان ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔۔اب انسان تربیت سے انسان بنتا ہے۔۔اگر بے تربیت ہے تو وہ حیوانوں سے بھی بد تر ہوا۔۔ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ تربیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔جنگل بنتا جارہا ہے۔انسان حیوان بنتے جا رہے ہیں۔مولانا روم بہت یا د آتا ہے۔۔

دی شیخ با چراغ ہمین گشت گرد شہر

کز دام و دت ملولم و انسانم آرزوست

از ہمراہاں خشک عناصر دلم گرفت

شیر خدا و رستم و داستانم آرزوست

اس تربیت میں والدین اور گھر آنگن کی بہت بڑی غفلت ہے۔پھر اساتذہ آتے ہیں۔پھر معاشرہ آتا ہے۔۔ہمیں سکولوں کا تجربہ ہے۔ایک والد ہونے کے ناتے گھروں کاتجربہ ہے۔آج کا بچہ والدین کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہے۔۔معاشرہ ویسے بھی ایک بے ربط اجتماع ہے۔پھر استاد کسی کام کا نہیں رہا ہے۔۔اس وجہ سے یہ المیہ روگ بنتا جارہا ہے۔۔ہمارے اقدار ختم ہوتے جا رہے ہیں۔میرا بیٹا میرے ساتھ تھا۔۔میرا ایک دوست مل گیا۔۔میں نے اپنے بچے سے کہا۔۔”تن میکیو ہوستہ باہ کو“۔۔میر ے بیٹے کوایسا لگا کہ گویا میں اس سے کوئی بڑا گناہ کرا رہا ہوں۔۔ڈاکٹر فیضی میرے محسن ہیں۔۔میرے تعلیم یافتہ بیٹے نے مجھے اس کا ہاتھ چومتا ہوا دیکھا اور کہا۔۔”ہم آپ کی طرح اپنے اساتذہ کاا حترام نہیں کر سکتے ہیں“ میں نے کہا کہ جان ابو!تم میں وہ جرات ہی کہاں ہے“روز اولاد کی نافرمانیوں کے قصے سنائے جاتے ہیں۔روز شاگردوں کی ہٹ دھرمیوں کی خبریں ملتی ہیں۔روز خودکشیاں،مار دھاڑ قتل و غارت کی کہانیاں ہیں۔۔میٹرک کا نتیجہ آیا۔۔وہ بچہ بھی خودکشی کرتا ہے جو پاس ہوا یا ہوئی ہے وہ بھی جو فیل ہو ا یا ہوئی۔۔پھر تھینگ ٹینگ اس پہ ڈیبیٹ کرتا ہے۔کہ وجوہات کیا ہیں؟۔کوئی وجہ نہیں۔۔تربیت کا فقدان ہے۔۔بچے سے اس کا تعارف نہیں کرایا جاتا۔۔کہ وہ اولاد ہے۔۔بچہ ہے۔۔ اس کا اپناتعارف ہے اپنی پہچان ہے۔وہ کامیاب کس طرح ہو سکتا ہے۔۔اس کی ناکامی کیا ہے۔۔کردار کس بلا کا نام ہے۔۔شرافت اور احترام کسے کہتے ہیں۔اس کا کیا تک بنتا ہے کہ میں یا تیری بات نہیں مانوں گا یا خود کشی کروں گا۔۔میں پڑھوں گا۔پڑھوں گی نہیں اگر فیل ہوا تو خود کشی کروں گا۔یہ سب ہماری تربیت کا شاخسانہ ہے۔۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ اپنی اولاد کے لیے ہماری تربیت کاانداز کیا ہے۔کیا ہم ان سے بے جا محبت کرکے سب کچھ ٹھیک کرہے ہیں۔۔کیا ہم ان کی ہر اچھی بر ی۔ جائز ناجائز  خواہش کوپورا کرکے اچھا کررہے ہیں۔کیاہم نے سمجھ رکھا ہے کہ حوصلہ کسے کہتے ہیں اور بے حوصلہ کر نا کیا ہوتا ہے؟۔کیا ہم نے سوچا ہے کہ اولاد کی ہم سے بے جا توقعات خطر ناک ہو سکتی ہیں۔کیا ہم نے خیا ل کیا ہے کہ ہم اولاد کے سامنے ان کی بے جا تعریف کرکے ان کو برباد کر  رہے ہیں۔کیا ہم نے یہ انداز لگایا ہے کہ ہم اولاد کے سامنے دوسروں کی تضحیک کرکے اور ان کو برا بھلا کہہ کر اپنی اولاد کو ٹرین کر رہے ہیں کہ وہ دوسروں کواپنے سے کمتر سمجھیں۔پھر کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم جو کچھ کما رہے ہیں وہ حلال ہے۔۔درست ہے۔۔اس کا ہماری اولاد پر کیا اثر پڑے گا۔۔یہ ہم سب نے کبھی نہیں سوچا۔۔ کہ امتحان میں نقل اور نمبروں کی سکورنگ نے اولاد کوhyperactiveبنا دیا ہے۔۔اس نے سمجھ رکھا ہے کہ امتحان میں نمبر لینا ہے بس۔۔اس نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اس نے تیاری کیسے کی ہے۔۔اس کی محنت کیسی رہی ہے۔پھر اس کے والدیں اور اساتذہ یعنی ہم نے ان کو کامیابی اور ناکامی کا تعارف نہیں کرایا کہ کامیابی کسے کہتے ہیں اور ناکامی کیا ہوتی ہے اور پھر صلاحیت کس چیز کا نام ہے۔۔بچوں نے جو بے جا توقع والدیں سے وابستہ رکھا ہے اس کی بنیاد پر وہ اپنی ناکامی کا قصور وار بھی  والدیں کوٹھراتا ہے اور دھمکی یا بدلہ لینے کی بنیاد پر خودکشی کرتا ہے۔۔اس بدقسمت کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس اقدام سے غریب والدیں ساری زندگی آگ میں جلتے رہیں گے۔یہ سارا قصور ہمارا ہے۔ہم ان سے بے جاتوقع رکھتے ہیں اور وہ ہم سے۔۔۔اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں