272

مہتر شیر افضل کی کہانی خو د ان کی زبانی۔۔۔۔ ترجمہ ہدایت الرحمن

شیر افضل خان چترال کی تاریخ میں عوامی مقبولیت میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ ذیل اقتباس ان کے اس بیان کا انگریز ی سے اردو میں لفظ بہ لفظ تر جمہ ہے جو انہوں نے گرفتاری کے وقت دیر میں موجود بر طانوی حکام کو دیا تھا۔ اس تر جمے کو پڑھ کر قارعین کے سامنے شیر افضل خان کی شخصیت کے مختلف زاویے کھلیں گے۔
”میرے والد شاہ افضل خان چترال کے حکمران (مہتر) تھے۔ ان کا انتقال چالیس سال پہلے ہوا۔ (اصل میں پچاس سال پہلے کا ہو گا) امان الملک جو میرا بڑا بھائی تھا۔ ملک کے دستور کے مطابق مہتر بنا اور میں (شیر افضل) قشقار با لا کا حاکم بنا جسے تور کہو کہتے ہیں۔ میں وہاں پندرہ سال تک رہا۔ افغانستان، اسمار، کوہستان، باشقار اور دیر میں کچھ سال گزار نے کے بعد امیر کابل نے مجھے اپنے پاس بلا یا۔ یہ واقعہ امیر عبد الرحمن کی کا بل میں تخت نشینی کے چند ماہ بعد پیش آیا۔ جب میں کابل پہنچا تو امیر (امیر عبد الرحمن) نے مجھے کابل سے بدخشان میں ایک سر کاری کام کیلئے روانہ کیا۔ میں بدخشان میں رہنے لگا جہاں مجھے سالانہ پانچ سو روپے اور تیس خروار گندم ملتا تھا۔ اس دوران محمد ایوب خان جو یعقوب خان (سابق امیر)کا بھائی تھا نے جنگ شروع کی۔ یہ واقعہ امیر عبد الرحمن کی تخت نشینی کے چھ ماہ بعد کا ہے۔ محمد ایوب خان قندھار میں تھا۔ امیر نے اپنی افواج کو ان کے خلاف روانہ کیا۔ میں نے اس جنگ میں امیر کی افواج کی اچھی طرح مدد کی اور محمد ایوب قندھار میں تھا۔ امیر نے اپنی افواج کو ان کے خلاف روانہ کیا۔ میں نے اس جنگ میں امیر کی افواج کی اچھی طرح مدد کی اور محمد ایوب خان فارس (ایران) بھاگ گیا۔ اس کے بعد امیر کے چچا محمد اسحاق نے بلخ میں علم بغاوت بلند کیا۔ اس دوران علاقہ بدخشان کے تمام قبائل نے بھی بغاوت کی ان کا مطالبہ تھا کہ شجاع خان کے بیٹے ناصر اللہ خان کو بادشاہ بنایا جائے۔ان کی افواج کی تعداد سات ہزار سے زیادہ تھی۔ میرے پاس اس وقت امیر کی طرف سے چالیس آدمی اور بیس آدمی میری طرف سے شامل تھے۔ میں نے اپنی افواج کی مدد سے ان کے ساتھ لڑائی لڑی اور ان کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ میں میری کمر اور بازو پر زخم آئے۔ ناصر اللہ خان نے میرے بھائی امان الملک کے پاس پناہ لی۔ ان کا انتقال چترال میں ہوا۔ اس جنگ میں میری خدمت کے عوض امیر نے میرے لئے سالانہ ایک ہزار روپے (کابلی) اور چالیس خروار گندم مقرر کر نے کے ساتھ ساتھ مجھے بدخشان کا حاکم نامزد کیا۔ میں وہاں سات سال تک رہا۔ اس کے چند سال بعد میرے بھائی امان الملک کا انتقال ہوا۔
عمائدین چترال نے مجھے افغانستان سے چترال بلوایا۔ میں امیر کے علم میں لائے اور اس کی اجازت کے بغیر بدخشان سے قلعہ دروشپ(لٹکوہ) آیا۔امان الملک کا بیٹا مرید(مرید دستگیر) مجھ سے لڑا میرے ساتھ اس وقت ساٹھ سوار تھے۔ اس لڑائی کے دوران مرید مارا گیا۔ میں نے رات وہاں گزار کر اگلے روز چترال کی طرف کو کیا۔ افضل الملک جو امان الملک کا بیٹا تھا۔ قلعہ چترال میں موجود تھا۔ میں نے اس کے خلاف لڑائی لڑی اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔ افضل الملک اس لڑائی میں ما را گیا۔ تمام علاقہ کوہستان، قشقار، میرے زیر نگین آگئے۔ میں چترال کا بادشاہ بنا۔ اور ایک ماہ تک وہاں رہا۔ نظام الملک جو امان الملک کا بڑا بیٹا تھا۔ ان سے افضل الملک اپنی طاقت کے زور پر ملک چھینا تھا۔ وہ برطانوی افسران کے ساتھ گلگت میں مقیم تھے۔ جب نظام الملک نے افضل الملک کے قتل اور میرے چترال پر قبضے کے بارے میں سنا تو وہ برطانوی افسران کی مدد سے گلگت کے مختلف قبائل کو جمع کر کے مجھ پر حملہ اور ہوئے جیسا کہ نظام الملک المعروف سر دار میر اداماد تھا۔ میں نے ان کو لڑائی سے دور رہنے اور چترال میں مشترکہ طور پر حکومت کر نے کیلئے خط لکھا۔ میرا مطلب چترال کا جغرافیائی تقسیم تھا جس سے اُس نے نہیں ما نا۔ اس کی وجہ میرے خیال کے مطابق اس کی گورنمنٹ (گورنمنٹ آف انڈیا) سے وفاداری یا دوستی تھی۔ اس واقعے کے دو سال بعد کابل میں امیر نے مجھے بتا یا کہ سردار نظام الملک کو اس کے بھائی امیر الملک نے قتل کر دیا اور عمرا خان جندولی کے افواج چترال میں داخل ہو گئی ہیں۔ اس خبر کے سنتے ہی امیر کو اطلاع دیئے اور اجازت کے بغیر باجوڑ کے راستے دروش پہنچا۔ اس وقت میرے ساتھ میرے پانچ ملازمین بھی تھے۔ عمرا خان جندولی اس وقت دروش میں تھا۔ پہلے اس نے ہمیں گرفتار کیا بعد میں ہمیں رہا کیا تب (اہلیان کوہستان (چترال)نے میرے دروش میں جو موجودگی کی خبر سنی تودروش میں میرے سلام کیلئے آئے۔ میں نے ایک خط دروش میں کرنل صاحب(سرچارچ رابرڈسن)کو لکھا جو کہ گہریت میں موجود تھا۔ خط میں ان کو یقین دلایا کہ میں گورنمنٹ کی اس طرح خدمت کر ونگا جس طرح امان الملک کیا کر تا تھا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کر نل صاحب نے میرے خط کے جواب میں کہا کہ تمہیں (شیر افضل) کو شجاع الملک کی اطاعت کر نی چاہئے۔ جسے کر نل صاحب بادشاہ مقرر کیا تھا۔ کر نل صاحب کے مکتوب کے جواب میں نے لکھا کہ وہ (شجاع الملک) ایک جھوٹا سر کار ہے جو میرے بیٹے کو بر ابرہے ہو گا۔میں اس کی اطاعت نہیں کرونگا۔ بلکہ دونوں ملکر آپ کے احکامات کی پیروی کرینگے۔کرنل صاحب نے اس تجویز کو قبول نہیں کی اور کہا وہ اس کے سلام کیلئے حاضر ہو جائے اس کے بعد کرنل صاحب گہریت کو چھوڑ کر گہریت چلے گئے۔ میں نے دروش سے چترال کی طرف سفر شروع کیا۔ چترال میں ایک دن دوری پر اپنے بھائی مہتر جو یادگار بیگ کے ذریعے کر نل صاحب کو دوبارہ دوستی کا پیغام بھیجا کہ جنگ نہ کی جائے۔ کرنل صاحب نے دوبارہ شجاع الملک کی اطاعت کا اصرار کیا میں نے اس خط کے جواب میں کہا کہ میں شجاع الملک کی اطاعت نہیں کرونگا۔ اگر کرونگا تو حکومت بر طانیہ کی کرونگا۔ جب چترال کے مضافات میں پہنچا تو کرنل صاحب کو ایک اور خط لکھا اس خط میں ان کے سلام کیلئے امادگی ظاہر کی تھی یہ خط اسے نہیں ملا۔ میں نے اپنی افواج کو حکم دیا اس وقت تک کرنل صاحب کی افواج سے نہ لڑاجائے جب تکہ وہ آپ کے پانچ افراد قتل نہیں کر دیتے۔ کرنل صاحب کی افواج ہمارے قریب آکر ہم پر فائرنگ شروع کر دی اس وقت تک میرے افواج نے جواب نہیں دیا جب تک ہماری افواج کے پانچ افراد قتل نہیں کئے۔ ہمارے پاس بھاگنے کا چارہ بھی نہیں تھا۔اس پر ہم نے لڑائی شروع کی اس لڑائی میں ہمارے چالیس اور کرنل صاحب کے تیس افراد لقمہ اجل ہوئے۔ اس وقت عمرا خان چترال آگئے وہ ہمارا آقا بن گئے ہم برائے نام چترال میں رہنے لگے۔ اس ساری لڑائی میں ہم لڑائی سے الگ رہے اس لڑائی کے بعد کرنل صاحب نے قلعے پر قبضہ کر کے اس میں محصور ہو گئے۔ عمرا خان شینہ خان اور غنی خان کو اپنی افواج کا کمانڈر مقرر کر کے واپس دیر چلا گیا۔ اپنے ساتھ ایڈورڈ اور فودلر کو بھی لے گئے۔ اس لڑائی کے دوران عمرا خان کی افواج چترال سے گھوڑے بہت سارے مال اسباب لوٹ کر لے جارہے تھیں ان پر ہمارا کوئی حکم نہیں چلتا تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان اور روس میں پناہ لے سکتا تھا۔ لیکن میں گورنمنٹ (حکومت برطانیہ) کے ساتھ دوستی کی خواہش رکھتاتھا۔ اس لئے میں نے خان آف دیر اور میاں راحت شاہ کا کا خیل کے ذریعے مذاکرات کئے میں گورنمنٹ کے لئے ہر کچھ کر سکتا ہوں جس کی وہ خواہش کرے۔
Source: Chitral IOR/R/2/1077/2394 (1895)
Electronically retreived from www.baluwaristan.net.2008

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں