274

پکڑ دھکڑ کا موسم۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

ہمیں رانا ثناء اللہ کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں کیونکہ اُنہیں پکڑ دھکڑ کے اِس موسم کا کچھ تو خیال کرنا چاہیے تھا۔ وہ فیصل آبادی ہیں اور پنجابی کا یہ محاورہ خوب جانتے ہوں گے ”آپے پھاتھڑیے تَینوں کون چھڈاوے“۔ جسے اِس محاورے کا مطلب نہیں آتا اُس کے لیے آسان اُردو ترجمہ ”آ بَیل مجھے مار“ اور بزبانِ فارسی ”خود کردہ را علاجِ نیست“ ہے۔ جب رانا صاحب جانتے تھے کہ حکمران اُنہیں پابندِ سلاسل کرنے کی تگ ودَو میں ہیں، جس کا اظہار اُنہوں نے چھ ماہ پہلے ہی حامد میر کے ایک پروگرام میں کر دیا تھا کہ کپتان صاحب نے تحقیقاتی اداروں کو حکم دیا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف کچھ نکالو تو پھر اُنہیں شعلہ بیانی سے گریز کرنا چاہیے تھا لیکن وہ ”راجپوت“ ہی کیا جو مصلحت اندیش ہو۔ اُن کی بیگم صاحبہ بھی یہی کہتی ہیں ”ہم کبھی ڈرے ہیں نہ جھُکے، لوگ جان لیں کہ اب میں راناثناء اللہ ہوں“۔ ایسے لوگوں کا واقعی کوئی علاج نہیں۔ اب میاں شہباز شریف لاکھ محترم عمران خاں کو فاشسٹ اور ہٹلر کہتے پھریں، رانا صاحب تو ”سی کلاس“ کے قیدی بَن چکے۔
وزیرِاعظم کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری سے اُن کا کچھ لینا دینا نہیں لیکن اُن کی باتوں پر یقین کرنے کو اُس وقت جی نہیں چاہتا جب اُن کا ایک وزیر با تدبیر اے این ایف کے سربراہ کے ساتھ میڈیا کو بریفنگ دیتا ہے کہ اے این ایف کے پاس آڈیو ویڈیو سمیت تمام ثبوت موجود ہیں جنہیں وقت آنے پر عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ ایک طرف تو اے این ایف کو آزادوخودمختار ادارہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اُسی کے سربراہ کے ساتھ میڈیاکو بریفنگ دی جاتی ہے۔ ایسے میں شکوک وشبہات تو پیدا ہوں گے۔ تحریکِ انصاف کی مشیرِاطلاعات فردوس عاشق اعوان تو ہر وقت رانا ثناء اللہ کو مجرم ثابت کرنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھی نظر آتی ہے۔ اُسے یہ بھی خوشی ہے کہ اب اُس سے پیپلزپارٹی کے دَور میں ہڑپ کی گئی بسوں کا حساب مانگنے والا ”اندر“ ہے۔
راناثناء اللہ کو اگر گرفتار کرنا ہی مقصود تھا تو کم از کم ”بہانہ“ تو درست بنایا جاتا۔ اِس ڈرامے کے ”گرفتاری ایپی سورڈ“ میں تو اتنے جھول ہیں کہ ڈرامے کے مصنف اور ڈائریکٹر کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کہا گیا کہ جب راوی ٹول پلازہ پر رانا صاحب کی گاڑی روکی گئی اور اُن سے سوال کیا گیا کہ اُن کی گاڑی میں منشیات تو نہیں، تو اُنہوں نے پیچھے پڑے ہوئے بیگ کی طرف اشارہ کیا جس میں سے 15 کلو ہیروئن اور 6 کلو دیگر منشیات برآمد ہوئیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ رانا ثناء اللہ منشیات کے انٹرنیشنل ریکٹ کا حصّہ ہیں اور اے این ایف کافی عرصے سے اُن کا پیچھا کر رہی تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ دنیا کا کوئی احمق ترین شخص بھی جو ہمہ وقت میڈیا کیمروں کی زَد میں ہو، یہ حماقت کر ہی نہیں سکتا کہ اپنی گاڑی میں اتنی کثیر مقدار میں منشیات لے کر گھومتا پھرے۔ اگر رانا ثناء اللہ واقعی منشیات کے کسی انٹرنیشنل ریکٹ کا حصہ ہیں تو کیا انٹرنیشنل ریکٹ اِس بھونڈے طریقے سے کام کرتا ہے؟۔ یہ کام تو رانا ثناء اللہ اپنے کسی بھی کارندے سے آسانی سے کروا سکتے تھے، وہ خود منشیات کی سمگلنگ کی حماقت کیوں کرتے جبکہ اُنہیں یقین تھا کہ حکومت بہرصورت اُنہیں گرفتار کرنے کے دَرپے ہے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ گرفتاری سے محض 2 دِن پہلے رانا ثناء اللہ نے اُنہیں کہا کہ حکومت اُنہیں گرفتار کرنے والی ہے۔ اِن حالات میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ رانا صاحب ایسی حماقت کرتے۔
حکومتی وزیر شہریار آفریدی نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کی گاڑی کا پہلے بھی تین بار پیچھا کیا گیا لیکن چونکہ گاڑی میں خواتین تھیں اِس لیے گاڑی چیک نہیں کی گئی۔ آفریدی صاحب! یہ پاکستان ہے جہاں دیواریں پھلانگ کر چادر اور چاردیواری کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، اِس لیے آپ کے اِس بھونڈے جواز پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔یہ بھی کہا گیا کہ سپیشل ٹیم اسلام آباد سے آئی جس نے لاہور کی اے این ایف سے مدد طلب کی۔ سوال یہ ہے کہ جب مخبری کی خبر مصدقہ تھی تو پھر موقعے کی ویڈیو کیوں نہ بنائی گئی؟۔ جب رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں تو سیل فون سے ہی ایک دو کلپ بنا لیے جاتے۔سوال یہ بھی ہے کہ اسلام آباد کی انویسٹی گیشن ٹیم کو آخر لاہور کی ٹیم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ کیا صرف لاہور کی اے این ایف ہی کافی نہیں تھی۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ فیصل آباد سے 2 گھنٹے میں لاہور پہنچتے ہیں جبکہ اسلام آباد سے لاہور کا فاصلہ 4 گھنٹے کا ہے۔ اِس لیے یہ تو طے کہ اسلام آباد کی انویسٹی گیشن ٹیم نہ تو رانا صاحب کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے لاہور تک پہنچی اور نہ ہی اسلام آباد سے اُس وقت نکلی جب رانا صاحب کی گاڑی فیصل آباد سے نکلی۔ لا محالہ یہی سوچا جا سکتا ہے کہ سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم راوی ٹول پلازہ پر پہلے سے موجود تھی جس نے بہرحال رانا صاحب کو گرفتار کرنا ہی تھا، باقی سب کہانیاں ہیں۔ اے این ایف کی ایسی کہانیاں پہلے بھی سنائی دیتی رہی ہیں۔ اُس نے نوازلیگ کے حنیف عباسی اور پیپلزپارٹی کے مخدوم شہاب الدین کو گرفتار کیا لیکن ثابت کچھ بھی نہ ہو سکا۔ حنیف عباسی کو عام انتخابات سے چار، پانچ دِن پہلے گرفتار کیا گیا تاکہ تحریکِ انصاف کے امیدوار کو جتوایا جا سکے۔ مخدوم شہاب الدین کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجنے والا تھا جو کچھ لوگوں کو منظور نہیں تھا اِس لیے اُن پر منشیات کا کیس بنا کر اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ محترم آصف زرداری پر بھی منشیات کا کیس بنایا گیا۔ دراصل کسی کے بیگ سے بھی دو، چار کلو ہیروئن برآمد کر دینا اے این ایف کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جب کچھ بَن نہ پڑے تو پھر اے این ایف کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
ہم تواِس وقت امریکہ کے معتدل موسم کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن کپتان کی مجوزہ ”ریاستِ مدینہ“ میں رانا ثناء اللہ کی گرفتاری سے بھی پہلے سیاسی درجہ حرارت اپنی انتہاؤں پرپہنچ چکا تھا۔ دَورِ آمریت میں توپکڑ دھکڑ عام سی بات ہوتی ہے لیکن جمہوری دَور میں ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔ مشرفی آمریت کے بعد پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے 10 سالہ جمہوری ادوار میں سیاسی رَہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ یکسر بند ہو گیا لیکن نئے پاکستان کے بانیوں کے نزدیک یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اِسی سے حکومتی ”ٹہور شہور“ کا پتہ چلتا ہے اور ”رعب شعب“ پڑتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سیاسی مخالفین کو ”رگڑا“ ہی نہ دیا تو ایسی حکمرانی کا کیا فائدہ۔ پرویزمشرف مُکّے لہرا لہرا کر اپنی اندھی طاقت کا اظہار کیا کرتا تھا، اب یہی وتیرہ تحریکِ انصاف کا ہے۔ پارلیمنٹ ہو، پریس کانفرنس یا پھر عوامی اجتماع، ہر جگہ وزیرومشیر دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وزراء پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ اب کس کی باری ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے امتحان سے پہلے ہی پیپر آؤٹ ہو جائے۔ اِسی لیے اپوزیشن کا یہ الزام درست نظر آتا ہے کہ ریاستی ادارے آزاد نہیں، حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ جب نَیب کا چیئرمین یہ کہے گا کہ اگر حکومتی ارکان پر ہاتھ ڈالا تو یہ حکومت گِر جائے گی تو پھر ایک عامی بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہو گا کہ نَیب دراصل مخالفین کی آواز بند کرنے کا ایک ”حکومتی ہتھیار“ ہے۔ چیئرمین نَیب شائد نہیں جانتے کہ جب پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو اُنہیں تاریخ کے متنازع ترین چیئرمین کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ 35 سال تک اقتدار میں رہنے والوں کا پہلے احتساب ہونا چاہیے۔ گویا پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کا احتساب ضروری، تحریکِ انصاف کا نہیں کیونکہ 35 سالوں کا مکمل احتساب ہونے سے کہیں پہلے چیئرمین صاحب ریٹائر ہو جائیں گے۔ دست بستہ عرض ہے کہ پچھلے 35 سالوں میں جو لوگ پارٹیاں بدل بدل کر آجکل تحریکِ انصاف میں براجمان ہیں، کیا اُن کا بھی احتساب ہوگا یا”احتسابی ڈنڈا“ صرف نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے سَر پر ہی پڑے گا؟۔ پریس کانفرنس سے چیئرمین نَیب کا خطاب ایک آزاد اور خودمختار ادارے کے سربراہ کا نہیں، تحریکِ انصاف کے سیاسی کارکن کا محسوس ہو رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ نَیب کے کس قانون میں اور کہاں لکھا ہے کہ ماضی کا احتساب پہلے ہوگا اور دَورِحاضر کے کرپٹ لوگوں سے صرفِ نظر کیا جائے گا۔ سوال یہ بھی
ہے کہ کیا موجودہ چیئرمین نَیب کے خیال میں اُن سے پہلے آنے والے چیئرمین نَیب نااہل تھے جن کے سامنے کرپشن ہوتی رہی اور وہ خاموش تماشائی؟۔ اداروں کا احترام ضروری، احتسابی عمل کے خلاف بولنے والا ملک دشمن مگر اداروں کو بھی اپنی حدودوقیود کا احساس ہونا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں