212

دادبیداد۔۔۔۔ٹیکس کا رواج ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

خزانہ کے لئے وزیر اعظم کے مشیر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ہم ملک میں ٹیکس کا رواج لا نا چا ہتے ہیں تا کہ ہر پا کستانی ٹیکس دینے والا بن جائے نیپا ل کے گاوں دھولی خیل اور تھائی لینڈ کے گاوں چیانگ ما ئی میں ہم نے کھو کے پر پا ن بیچنے والے چھوٹے دکانداروں کے ہاں نمایاں جگہ پر آویزاں ٹیکس کی رسید یں دیکھ کر حیراں ہوئے تو دکانداروں نے بتا یا کہ ہمارا ما ہا نہ ٹیکس 10ڈالر کے برابر ہوتا ہے ہمارے محلے کے غریبوں پر اس ٹیکس کی رقم سے ہر ماہ 5000ڈالر خرچ ہوتے ہیں نیپالی دکا ندار نے بتا یا کہ اُس کے 10ڈالر کے برابر ٹیکس کے بدلے اس کی معذور بہن اور بوڑھی ما ں کو ہر ماہ 30ڈالر کے برابر وظیفہ ملتا ہے ٹیکس لینے کا یہ گُر ہے کہ ٹیکس کی رقم مقامی آبادی پر خرچ ہوتا ہوا نظر آئے آج کل ٹیکس کے حوالے سے حکومت بھی عجیب وغریب اعلا نا ت کر تی ہے سو شل میڈیا اور کوچہ سیا ست کے من چلے ، لڑکے، با لے بھی اوٹ پٹانگ تبصرے کرتے دکھا ئی دیتے ہیں مثلا ً وفاقی کا بینہ نے ایف بی آر کے اہل کاروں کو ٹیکس لینے کے لئے لو گوں کے گھروں کے اندر گھسنے ،دیوار پھلانگنے ، دروازے اور کھڑ کیاں توڑ نے کا اختیار دیا ہے حکومت نے اگلے ماہ بڑی عید پر قر بانی کے جا نور خرید نے والوں کو خصو صی رعا یت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 40ہزار روپے تک کے جانور کا ٹیکس نقدی کی صورت میںلیا جائے گا 40ہزار روپے سے زیادہ قیمت پر قر بانی کا جانور خریدا جائے تورقم بینک کے ذریعے اد اکرنی ہو گی اور ٹیکس بھی بیچنے والے سے الگ اور خرید نے والے سے الگ کا ٹا جائے گا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈر ڈاکٹر فاروق ستارنے تبصرہ کیا ہے کہ فقیر کے ہا تھ میں دو پیسے تھمانے پر بھی ٹیکس لے لو ، دھوپ میں بیٹھنے اور بارش میں نہانے پر بھی ٹیکس لے لو اور عوام کو بتاﺅ کہ یہ ٹیکس نقد لیا جائے گا یا بینک کے ذریعے اس کی کٹو تی ہو گی ؟ٹیکس کے لئے اپنی آمدنی کی تفصیلات ایف بی آر میں جمع کرانے وا لوں کو فائلر اور آمدن چھپا نے والوں کو نان فائلر کہتے ہیں گزشتہ روز سو شل میڈیا پر ایک لطیفہ آیا یہ فو تید گی اور جنازے کا اعلان ہے الفاظ یہ ہیں ”راجر ولد میتھی فائلر این ٹی این 25171بقضا ئے الٰہی وفات پا گئے ہیں ان کی نماز جنازہ ایف بی آر سے کلیر نس ملنے کے بعد ادا کی جائے گی اعلان ختم ہوا “ ایک من چلے نے یہ تجویز دی ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس دینے وا لوں کو بھی فائلر کا درجہ دیا جائے اور نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) الاٹ کیا جائے اس صورت میںہم آئی ایم ایف کو ٹیکس دہندہ گان کے درست اعداد و شمار بتاسکینگے اور سینہ پھلا کر سر بلند کرکے کہہ سکینگے کہ مزید قرض دو ہمارا ہر شہری ٹیکس دیتا ہے جنرل سیلز ٹیکس 1990ءمیں محصو ل چونگی (اکٹرائے ) کی جگہ نا فذ کیا گیا تھا یہ جادو نُما ٹیکس ہے جسے ہر شخص بخو شی ادا کرتا ہے ایک بڑھیا ماچس کی ڈبیہ خرید تی ہے تو اس کی قیمت کے ساتھ جنرل سیلز ٹیکس چُپ کے سے ادا کرتی ہے 3ماہ کے بچے کے لئے چوسنی ، فیڈر یا نیپی خرید نے وا لا جی ایس ٹی ادا کرتا ہے سکول میں داخل ہونے وا لا بچہ پنسل ، ربڑ اور شاپنر خریدتا ہے تو ٹیکس ادا کرتا ہے ایک بیمار کے لئے کینو لا، ڈسپوزیبل سرنج اور ڈسٹیلڈ واٹر خریدا جائے تو ٹیکس ادا کئے بغیر نہیں خریدا جا سکتا آپ کسی بینک کے اے ٹی ایم سے رجوع کرتے ہیں ،فنڈ کسی کو بھیجنا چاہتے ہیںتو جواب ملتا ہے سوری ،یہ سہو لت دستیاب نہیں ، نقد رقم لینا چاہتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ مطلوبہ کیش نہیں مل سکتا آپ بیلنس کی معلومات حا صل کرنا چاہتے ہیں توڈھائی روپے کا ٹیکس کاٹنے کے بعد مشین سے آواز آتی ہے ” تھینکیو فار بیکنگ ود اَس “ ہمارے بینک میں کاروبار کرنے کا شکریہ، آپ مو بائل فون کے لئے کریڈٹ لے رہے ہیں 100روپے کریڈٹ اور 7دنوں کا پیکج دینے کے بعد آپ کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے جو رقم اد ا کی اس میں ٹیکس بھی شا مل تھا اگر یہی حا لت رہی تو وطن عزیز پاکستان میں ایسا وقت بھی آئے گا جب سانس لینے پر ، چھینک آنے پر ،ہنسنے اور رونے پر بھی ٹیکس لیا جائے گا ہوسکتا ہے سر دآہ بھر نے پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے یہ مر زا غا لب کی بیماری تھی اگر مرزا غالب آج زندہ ہوتے تو سرد آہ کا یو ں بر ملا چر چا نہ کرتے
ضعف سے گر یہ مبد ل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں