211

فکر آخرت ……تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ شہادت والی انگلی اور اس کے برابر والی انگلی ملا کر فرمایا کہ میری بعثت میں اور قیامت میں اتنا قرب اور اتصال ہے جتنا کہ ان دو انگلیوں میں ہے۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے جتنے دور یعنی زمانے مقرر کئے تھے وہ سب ختم ہوگئے ہیں اب یہ آخری دور ہے جو میری بعثت سے شروع ہوا ہے اور قیامت پر ختم ہوگا، میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نیا نبی نہیں آئے گا نہ کوئی اُمت پیدا ہوگی۔ قیامت کا دن جسے روزِ آخر کہتے ہیں اس کا آنا حق ہے اور وہ ضرور آنے والا ہے وہ دنیا کا آخری دن ہے اس دن تمام آسمان اور ستارے پارہ پارہ ہو جائیں گے اور زمین اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النّبیین تک تمام پیغمبروں نے توحید کے بعد روز آخرت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ایک دن یہ عالم فنا ہوجائے گا اور پھر مخلوق کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا وہاں ان کے اعمال کی جزا و سزا ملے گی۔ بلاشبہ یہ دنیا چند روزہ ہے، یہ عالم ایک دن فنا ہونے والا ہے اور اس کے بعد ایک عالم آنے والا ہے جہاں فنایا زوال نہیں۔ قارئین کرام ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا سے آخرت کی طرف روانہ ہونے سے پہلے اس عالم جاودانی کا کچھ سامان کر لیں۔ اور قیام قیامت کی صورت یہ ہوگی کہ اس روز صور پھونکا جائے گا جس سے تمام جاندار مر جائیں گے اور ہلاک ہو جائیں گے پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے سب مردے زندہ ہو جائیں گے اور قبروں سے اُٹھ کر میدان حشر کی طرف دوڑیں گے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ سو تمام آسمان و زمین والے گھبرا جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے۔ (سورۃالنمل)
اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جسم کی بوسیدہ ہڈیوں اور خاک میں ملے ہوئے ریزوں کو ہر جگہ سے جمع کرے گا خواہ وہ آگ میں جلا ہو یا پانی میں غرق ہوا ہو یا ہوا میں اُڑ گیا ہو یا دھوپ میں خشک ہو گیا یا گل سڑ کر خاک میں مل گیا ہو یا شکم حیوانات میں ہضم ہوگیا ہو جسم کے تمام اجزاء کو جمع کرے گا۔ حتیٰ کہ کوئی ذرّہ اس میں سے باقی نہ رہے گا پھر اس کو اسی وضع اور ہیئت اور اسی صورت و شکل پر جو دنیا میں اس کو حاصل تھی ترکیب و ترتیب دے کر زندہ کر دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اگر دنیا میں اس کے جسم کا کوئی حصہ یا کوئی عضو قطع ہوگیا ہو تو وہ بھی اس کے ہمراہ اعادہ کر دیا جائے گا۔ پہلی مرتبہ کے صور پھونکنے میں سارا عالم مر جائے گا،اور جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو جائیں گے۔ارواح سب کی سب صوراسرافیل میں جمع ہوں گی۔ نفخ صور کے ساتھ ہی تمام رُوحیں نکل پڑیں گی اور اپنے اپنے قالب میں داخل ہو جائیں گی اور بحکم خداوندی سب زندہ ہوجائیں گے۔ اگر نظر عبرت سے دیکھا جائے تو ہر روز اس کا نمونہ ہم لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا ہے مگر لوگ قیامت سے غافل ہیں اور جب ان کو قیامت کی کوئی آیت یا حدیث سنائی جاتی ہے، تو شک اور تردّ کے کان سے اس کو سنتے ہیں،مثلاً جب شام ہوتی ہے اور اندھیرا ہو جاتا ہے اور نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو تمام لوگ اپنے گھروں میں اور تمام پرندے اپنے گھونسلوں میں گھس جاتے ہیں اور رات کو سو جاتے ہیں اور بے حس و حرکت ہو جاتے ہیں گویا کہ مر گئے۔پھر جب صبح ہوتی ہے تو دفعتہ بے اختیار سب بیدار ہو جاتے ہیں اور ادھر ادھر منتشر ہو جاتے ہیں۔ جس طرح اب نیند سے جاگے ہو اور بستروں سے اُٹھ کر منتشر ہو رہے ہو اسی طرح قیامت کے دن قبروں سے اُٹھائے جائیں گے۔باشندگان عالم اپنے کاروبار میں مشغول ہوں گے اور روئے زمین پر کوئی اللہ کا نام لینے والا باقی نہ رہے گا، وہ جمعہ کا دن ہوگا اور محرم الحرام کی دسویں تاریخ روز عاشورہ ہوگا کہ یکایک علی الصباح لوگوں کے کانوں میں ایک باریک آواز آنا شروع ہوگی اور بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ تمام لوگ مرجائیں گے اور زمین و آسمان پھٹ جائیں گے، پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا جس سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے اور حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ اور اگر کسی نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کے اجر کا حق دار ہو گا اور اگر کسی نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ سزا کا مستحق ہو گا۔
اسلام نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ دنیا کی زندگی کے بعد انسان کو ایک اور زندگی ملے گی جسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں۔ اس لئے انسان کو دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے آخرت کی زندگی خراب ہو اور ایسے کام قرآن حکیم میں صاف طور پر بتا دیئے گئے ہیں۔ جن کا اثر آخرت کی زندگی پر پڑتا ہے اور وہ کام بھی اچھی طرح کھول کر سمجھا دیئے ہیں جن کے کرنے سے آخرت کی زندگی سنورتی ہے۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کاموں کے کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے جو قرآن کریم کی رو سے آخرت کی زندگی کے لئے مفید ہیں۔ ہادی برحق سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود عملاً ان کاموں سے بچ کر بھی دکھا دیا اور زبانی نصیحتیں بھی کر دیں جن سے آخرت کی زندگی خراب ہوتی ہے۔ اور وہ اصول بھی اچھی طرح سمجھا دیئے ہیں جن پر چل کر دنیا اور آخرت دونوں درست ہو جاتے ہیں۔
احادیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ ہر کام کو ٹھہر کر اور سوچ سمجھ کر کیا کرو۔ جلد بازی سے کام خراب ہو جاتا ہے اور جلد باز آدمی کو بعد میں پچھتانا پڑتا ہے اسی لئے ہر کام میں مشورہ ضروری ہوتا ہے، ٹھہرنے سے یہ فائدہ ہے کہ خود سوچنے سے یا جاننے والوں کے مشورہ سے اس کام کا انجام سامنے آجاتا ہے لیکن ان کاموں کو جنہیں قرآن و حدیث میں نیک قرار دیا گیا ہے ان کا انجام معلوم کرنے کے لئے نہ سوچنے کی ضرورت ہے نہ کسی اور کے مشورہ کی حاجت ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی سوچ بچار کی حاجت نہیں رہتی۔ انہیں جلدی کر ڈالو اور اس بات کو غنیمت جانو کہ ان کے کرنے کا موقع تمہیں حاصل ہے جن کاموں کو قرآن حکیم نے نیک قرار دیا ہے۔ ان کے کرنے میں دیر کی اور سوچنے کی ضرورت نہیں اور جن کاموں کو برا کہا ہے ان کے چھوڑنے میں بھی ٹھہرنے اور سوچنے کی حاجت نہیں کیونکہ ان کی بابت صاف فیصلہ موجود ہے کہ یہ کرو یہ نہ کرو۔ حضرت عثمانؓ جس وقت قبر کے پاس ٹھہرتے تو اس قدر روتے کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی، ان سے کہا گیا کہ جب بہشت و دوزخ کا ذکر کرتے ہو تو نہیں روتے اور جب اس جگہ کھڑے ہوتے ہو تو روتے ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ آخرت کی منزلوں میں سے قبر سب سے پہلی منزل ہے پس اگر کسی نے اس سے نجات پائی تو جو چیز اس کے پیچھے ہے وہ اس سے آسان تر ہے اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو جو چیز اس کے پیچھے ہے وہ اس سے سخت تر ہے اورسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں دیکھی جو قبر سے سخت تر ہو۔اس حدیث سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ موت کے بعد انسان کو اپنے آخری ٹھکانے پر پہنچنے سے پہلے آخرت کی کئی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ان میں سب سے پہلی منزل قبر کی ہے یعنی انسان کو مرنے کے فوراً بعد قبر میں ڈالا جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے اس کے معبود اس کے رسول اور اس کے دین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، مردے کو ان تمام سوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔حضرت عثمان غنی ؓ فرماتے ہیں کہ یہ باز پرس سب سے پہلی جواب دہی ہے اگر آدمی اس میں کامیاب ہو جائے اور فرشتوں کے سوالوں کا صحیح جواب دیدے تو وہ قبر کی منزل سے گزر جاتا ہے اور اس کے بعد باقی جتنی منزلیں آتی ہیں ان سب کو وہ بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے اس کے برعکس اگر کوئی شخص فرشتوں کے سوالات کا صحیح جواب نہ دے سکے اور قبر کی منزل سے نجات نہ پا سکے تو اس کے بعد کی آنیوالی منزلیں اس منزل سے بھی سخت تر ہوتی ہیں۔
قبر کی منزل اس لئے سخت تر ہے کہ یہاں مردے کے اعتقاد و عمل کے بارے میں بنیادی سوالات کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر پکا مسلمان رہا، اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم رہا،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ارشادات پر عمل کرتا رہا، دین کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہا تو اسے قبر میں بھی صحیح جواب دینے میں جھجک نہ آئے گی وہ بڑی بے باکی جرأت اور صحت کے ساتھ جواب دے سکے گا۔ اور اسی طرح آخرت کی باقی منزلیں بھی بڑی آسانی کے ساتھ طے کرتا چلا جائے گا۔ اس کے برعکس جو شخص دنیا میں بے عقیدہ رہا، سچے دین پر قائم نہ رہ سکا، اسے قبر میں بھی فرشتوں کے سوالات کا صحیح جواب نہ آئے گا۔ باقی منزلیں بھی اس کے لئے سخت تر ہو جائیں گی۔حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں دنیا پیٹھ موڑ کر جارہی ہے اور آخرت سامنے سے آرہی ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کے اختیار کرنے والے لوگ ہیں۔ تم آخرت کے اختیار کرنیوالے بنو، دنیا کے چاہنے والوں میں سے نہ ہو۔ آج کا دن کام کا ہے حساب کا نہیں اور کل کا دن حساب کا ہوگا کام کا نہیں۔ (مشکوٰۃ شریف) یعنی وہ کام کرو جو آخرت میں حساب کے وقت قابل انعام ثابت ہوں جو چیز رہنے والی نہیں اس سے جی لگانا ٹھیک نہیں بس اس سے تو یہی کام لو کہ اس میں جہاں تک ہو سکے وہی کام کرے جن پر آخرت میں اچھا بدلا اور نیک انعام ملے۔ غرض اس قول کے مضمون پر غور کرنے سے دنیا اور آخرت کی حقیقت صاف صاف واضح ہو جاتی ہے اور اس کو پڑھ کر عقلمند کبھی دنیا کو ترجیح نہیں دے سکتا وہ اس کو فقط آخرت کے لئے کام کرنیکا ایک ٹھکانا سمجھتا ہے اس لئے کہ دنیا و آخرت دونوں چل رہی ہیں فرق یہ ہے کہ ایک کی رفتار فنا کی طرف ہے اور ایک کی رفتار بقاء کی جانب ہے اب عقل کا تقاضا ہے کہ انسان فنا کی راہ چھوڑ کر بقاء کی راہ اختیار کرے،کہ آج تو عمل کی مہلت ہے جو کل نہ رہے گی، آج جو کچھ کیا ہوگا کل اس کے بارے میں باز پرس ہوگی، اور اس کے مطابق جزا و سزا ملے گی۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں احتساب کا تصور موجود ہے چاہے دنیا میں ہو یا آخرت میں،اللہ پا ک ہمیں فکر آخرت اور اپنے پسندیدہ اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں