234

پرو فیسر محمد ساعدکی یاد میں۔۔۔۔پر فیسر اسرار الدین

ڈاکٹر محمد سا عد ایک نا بعہ روز گار شخصیت تھے آپ کا تعلق زیا رت کا کا صاحب سے تھا۔ وہاں کی ایک مشہور شخصیت حکیم محمد حا مد کے ہاں 1937ء میں پیدا ہوئے تعلیم و تعلم سے تعلق رکھا پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ جعرافیہ میں 35سالوں تک علم کی روشنی پھیلا ئی 1997ء میں ملا زمت سے ریٹائر ہوئے 18جون 2019کو ہمیشہ کے لئے ہم سے جد ا ہوئے۔آپ نے یو نیور سٹی ملا زمت کے دوران نہا یت بھر پور زندگی گزاری۔ در س تدریس کے علا وہ یو نیور سٹی انتظا میہ سے متعلق دیگر مختلف امور کے سلسلے میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کئے۔ آپ یو نیور سٹی سنڈیکیٹ کے دو دفعہ رکن منتخب ہوئے۔یونیور سٹی فنا نس کمیٹی کے ممبر رہے۔ دودفعہ فیکلٹی آف سائنس کے ڈین رہے۔ قائم مقام وائس چانسلربھی رہے۔ شعبہ جعرافیہ کے چیر مین کی حیثیت سے خد مات انجام دیتے رہے۔
تعلیم و تربیت
ڈا کٹر سا عد نے ابتدا ئی تعلیم مقا می اداروں میں حا صل کی۔ میٹرک کے بعد 1954ء میں اسلا میہ کا لج پشا ور سے انٹر ارٹس میں دا خل ہوئے 1956ء میں اعلیٰ پو زیشن میں ایف اے پا س کیا اور کرا چی چلے گئے۔ ان کا ارادہ جیا لو جی پڑ ھنے کا تھا۔ لیکن وہاں پر ان کو بی۔اے آنرز میں دا خل کیا گیا جسمیں ایک مضمون جغرافیہ کا لیا اور اس میں 1960ء میں ایم اے پا س کیا اور یو نیور سٹی میں اول پو زیشن حا صل کی۔ ایک سال تک سندھ یو نیور سٹی میں ملا زمت حا صل کی پھرپشاور یونیورسٹی میں ان کو ملا زمت ملی۔ اور اخیر تک یہاں رہے۔ ڈاکٹر صا حب کی فیملی ایک ذکی (Talented)فیملی کے طور پر پہچانی جا تی ہے یہ آٹھ بھا ئی تھے۔ ان میں سے چار بھائی باہر مما لک سے اعلےٰ ڈگری لے کے مختلف یو نیور سٹیوں میں اعلے ٰ عہدوں پر فائز رہے۔ یہ دلچسپ با ت ہے کہ چاروں بھائی تین یو نیور سٹیوں میں مختلف فیکلٹیوں کے ڈین بھی رہے۔ اور ایک وقت یہ چار بھائی مختلف شعبوں کے صدر بھی رہے۔ ان کا ایک بھائی نیورو ڈاکٹر، باہر سے سپیشلائزیشن کر کے فوج کے ساتھ منسلک تھے۔ اورصدر پا کستان کا معالج بھی رہے۔ ایک اور بھائی مکینکل انجینئرکی حیثیت سے فوج کے ساتھ منسلک رہا اور باہر سے اعلیٰ تر بیت کے بعد ارمرڈ انڈسٹر ی کیساتھ وا بستہ رہے تھے۔ دو بھائی مختلف اہم فر موں کے ساتھ اعلےٰ پو زیشن پر تھے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا۔ اس کا بھی اہم پس منظر ہے۔
اگر بچوں کی زندگی میں والد کی تر بیت کے کر دار کو دیکھنا ہو تو ان کے والد کی مثال بہتر مثال ہو سکتی ہے۔ والد مر حوم کے ان فر مانبر دار بیٹوں کے نا م تقریباً 200خطوط ان کے پاس جمع ہیں۔ جن میں وقتاً فو قتا ً والد نے تعلیمی زند گی کے مختلف مرا حل میں ان سے رابطہ رکھا اور ان کو گائیڈ کر تا رہا۔ کہ زند گی کیسی گذار نی ہے۔ زندگی میں کامیابی کے گُر کیا ہیں۔ وقت کو قیمتی کیسے بنا یا جا سکتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر ایک کی ذمہ داری کیا ہے؟ اور ان بچوں نے پورے صدق دل سے والد کی باتوں پر عمل کیا۔ اور زندگی کے سفر میں کامیابیوں اور کامرا نیوں سے سر فراز ہوئے۔
ڈا اکٹر ساعد صا حب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد شاہد کا ایک واقعہ ہے۔ وہ تیسری یا چوتھی جما عت میں گاوں سے با ہر ایک سکول میں دا خل کئے گئے تھے اور ان کو ھاسٹل میں رکھا گیا تھا۔ اور جب سہ ما ہی امتحا ن ہوا توتیسری پو زیشن میں کامیاب ہوا والد کو خط لکھ کر خوش خبری سنا ئی والد صاحب نے جواب میں خوشی کا اظہار کیا ساتھ یہ بھی لکھا۔ آئندہ امتحا ن دیتے ہوئے یہ ضرور دیکھنا۔ کہ تمہارے جس کلا س فیلو نے پچھلے امتحان میں اول پو زیشن لی تھی۔اس کی تین آنکھیں ہیں۔یاتین کان ہیں۔ یا دوسرہیں۔ وہ کس طرح تم سے ار فع ہے۔ کہ تم سے آگے نکل جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد صاحب اسکے بعد ایم ایس سی تک سب سے آگے ہی آتے رہے۔ اور زر عی یو نیور سٹی کے ڈین فکلٹی اور ایکٹنگ وائس چانسلر کے عہدوں پر رہے۔ساتھ ساتھ دینی لحا ظ سے تبلیغ کے ساتھ زندگی بھر منسلک رہے۔ آج کل پشاور مر کز کے شوریٰ کے امیر ہیں۔ ڈاکٹر ساعد صاحب جب پی ایچ ڈی کے لئے انگلینڈ جارہے تھے۔ ڈیپارٹمنٹ سے اس کے ساتھی اور ان کے والد صاحب اُن کو ائیر پورٹ پر رخصت کرنے کے لئے گئے ایک دوست نے اُن کے والد صاحب سے کہا آپ خوش قسمت ہیں۔ آپ کا بیٹا Ph.Dکے لئے جا رہا ہے۔حکیم صاحب نے جواب دیا۔ شکر الحمد اللہ لیکن میں اپنے آپ کو خو ش قسمت اس وقت سمجھوں گا۔ جب میرا بیٹا Ph.Dکر کے بہ حیثیت مسلمان واپس آجائے۔ اور واقعی ہوا ایسا ڈاکٹر ساعد انگلینڈ سے واپس آیا تو پہلے سے زیا دہ دیندار اور دین کے لئے زیادہ فکر مند بن کے آیا تھا۔
ایک آئیڈیل استاد:
ڈاکٹر محمد ساعد نے ً پشاور میں 35سال بحیثیت استاد کے زندگی گزاری۔اور بے شمار طلبہ ان سے مستفید ہوئے۔ آج ان کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگرد ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں، ڈکٹر صاحب میں ایک آئیڈیل استاد کی تما م صفات بدر اتم مو جود تھیں ۔ وہ اپنے مضمون علم جغرافیہ(بالخصوص جیو مارفالو جی جسے شکلی جغر ا فیہ کا نا م دیا جا تا ہے۔ جو سطح زمین کے ارتقاء اورسطحی خدو خال کی خصو صیات کا علم ہے) پر زبردست عبور رکھتا تھا۔ اپنے علم کو تازہ (یاupdate )رکھنے کے لئے دنیا میں ہونے والے نئے معلومات سے اپنے کو با خبر رکھتے تھے اس طرح وقتاً وقتاً ان کے نئے آنے والے شاگر د دوسروں کی بہ نسبت اپنے مضمون میں نئے معلو مات سے مزین ہوتے رہتے۔ شروع کے زمانے میں قا ضی حسین احمدنے بھی ان سے جعرافیہ پڑھا تھا۔ وہ کہا کر تے تھے۔ کہ ڈاکٹر ساعد سے پڑھ کر ایک تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ صحیح انداز میں پڑھا نا کیا ہوتا ہے۔ دوسرا مجھے علم جغرا فیہ کی صحیح سمجھ اور اس کا ادراک نصیب ہوا۔ ڈاکٹر ساعد وقت کے پا بند (پنکچول) او با قاعدگی سے (ریگو لر) فرض انجام دینے والے استاد تھے۔ ان کے ایک ہو نہار طا لبعلم ڈکٹر محمود الحسن پہلے MScبعد میں Ph.Dمیں ان کے شا گرد رہے تھے۔ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو کبھی غیر حا ضر ہوتے ہوئے یا وقت سے دیر کرکے کلا س میں آتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ اپنی والدہ مر حومہ اور اپنی ایک ہمشیر ہ کی وفات کے دنوں میں حسب معمول کلا س لینے کے بعد ان کی تجہیز و تکفین میں شر کت کے لئے چلے گئے تھے۔ ٹھیک ٹائم پر کلاس روم میں دا خل ہو نا اور ٹھیک ٹائم پر کلا س روم چھوڑ نا ان کا مستقل دستور تھا۔
ڈاکٹر مر حوم اپنی چال ڈھال، گفتار، کر دارہر لحاظ سے اعلےٰ صفات والے انسان تھے۔ نہایت نفیس طبیعت والے فضول باتوں سے اجتناب کرنے والے،نہا یت محتاط، ایک ایک بات نپی تلی،سلیقہ اداب (decorum) کا خیال رکھنے والے تھے غصہ ان کو کم آتا تھا۔ لیکن اگر غصہ کر تے بھی تو ایک خا ص درجہ سے کبھی تجاوزنہ کر تے۔ ڈیکو رم کے اندر رہ کے اپنے غصے کا اظہار کر تے جس کا سننے والے پر اچھا اثر ہو تا۔ لباس پو شاک کا بہت زیا دہ خیال رکھتے۔ یو نیور سٹی کے چند خوش لباس شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ مشہور سکالر و کا لم نو یس ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی کے مطا بق ڈاکٹر ساعد اسلا می تشخص اور مغربی کلچر کا امتزاج لگتے تھے۔ طا لب علموں کے ساتھ ان کا سلوک نہایت شفیقانہ اورمربیانہ ہو تا تھا۔ ان کے تعلیمی اور دیگر مسا ئل کو حل کرنے کئے بغیرحیل و حجت ہر وقت تیا ر رہتے تھے۔ ان کا یہ نظریہ تھا کہ ہم نے صرف خا لی خو لی جغرافیہ دان پیدا نہیں کرنا۔ بلکہ صحیح انسان، صحیح مسلمان اور صحیح پا کستانی بھی پیدا کرنے ہیں۔ اسی بات کے پیش نظر ہفتے میں ایک کلا س سیرت کلا س کے نا م سے شروع کرایا جسمیں اہم شخصیات آکرنبی کریم ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلووں پرلکچر دیتے۔ یہ سلسلہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعدبھی چلتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے یو نیور سٹی کی طرف سے ایک لکچر فورم بھی قا ئم کیا تھا۔ جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر کے

سکا لر ز کو بلا کر وقتاً فو قتاً یو نیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب کرایا جا تا۔ اس فورم میں ایک دفعہ مشہور اسلامی سکا لر ذاکر حمید اللہ بھی مہمان مقرر کے طور پر تشریف لائے تھے۔
ایک دقیق محقق:
ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کا میدان جیو مارفا لو جی تھا۔ اس سلسلے میں بر طانیہ میں پنائین (Penine) پہاڑ یوں پر ان کا کام اور پا کستان کے شما لی علا قوں میں مو جود گلیشرز (glaciers) اور ان علا قوں کے قدرتی آفات (Natural Hazards)پر ان کا کام بین الاقوامی طور پر سرا ہا گیا ہے۔ 1980ء میں آپ کیمبر ج پاکستان ایکسپی ڈیشن کے ممبر کے طور پر چینی اور بر طانوی ما ہرین کے ساتھ گلیشر ز کے مطا لعے اور تحقیق میں شامل تھے۔ جنکے نتا ئج اسی ایکسپی ڈیشن کی کتا بوں میں شائع ہوئے ہیں 1990ء کے عشرے جر من پاکستان انٹر نیشنل اکیسپی ڈیشن کلچر ایرایا قراقرم (CAK) کے ساتھ ہنزہ کے علاقے میں قدرتی آفات یا خطرات (Natural Hazards) پر تفصیلی کام کیا جس پر ان کے مضا مین CAKکی کتابوں میں چھپی ہیں۔1960کے عشرے میں پشاور میں سر حد گورنمنٹ کا ایک تحقیقی ادارہ ہوتا تھا جسکا نا م ریجنل ڈیو لپمنٹ پر اجیکٹ تھا۔ اس ادارے میں ڈاکٹر ساعد کی سر برا ہی میں پشاور یو نیور سٹی کے شعبہ جعرافیہ کی ٹیم کے ذریعے چترال سے کو ہاٹ تک تمام اضلاع اور قبائیلی ایجنسیوں کے(land use planning) مو جودہ استعمال اراضی اور مستقبل کے استعمال اراضی پر کام کرا یا جسکی بنیا دپر ان تمام اضلاع اور قبائلی علا قوں کے الگ الگ ایک انچ چار میل کے پیمانے والے نقشوں پر تفصیلات مختلف رنگوں میں دکھائے ہیں۔ ہر ایک ضلع /ایجنسی کے لئے دو نقشے مو جو د ہ اور مستقبل کے استعمال اراضی کے حوا لے سے تیار کئے گئے تھے۔ مستقبل کی منصوبہ بندیوں کے لئے یہ نہایت مفید کام تھا۔ لیکن بعد میں حکومتیں بدل گئیں اور ملک میں کیا کیاانقلابات آئے۔ تحقیقی ادارے کوبھی ختم کیاگیا۔ اور نہ معلوم ان نقشوں اور ان سے متعلق رپورٹوں کا کیا حشر ہوا ہوگا۔
ایک زیرک مہتم:
ڈاکٹر ساعد ڈیپارٹمنٹ کے چیر مین کے علاوہ دو دفعہ ڈین فیکلٹی آف سائنس اور دو دفعہ سڈیکیٹ کے ممبر رہے ہر لحا ظ سے اپنا لو ہا منوا یا۔ ان کی خاص صفات میں اصول پسندی اور کام کو کام سمجھ کے بہترین انداز میں اسکی انجام دہی ہوتی تھی ان کی کوششوں سے پشاور یو نیور سٹی کا شعبہ جغرافیہ تمام پاکستان کی یو نیور سٹیوں کے جغرافیہ کے شعبوں میں اولین حیثیت کا ما لک بن گیا۔ ڈین کی حیثیت سے فیکلٹی کی تر قی میں بھی اہم کردار کیا نیز یونیور سٹی سنڈیکیٹ کے ممبر کی حیثیت سے اور فینانس کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے ان کے کردار کو ہمیشہ وائس چانسلر صاحبان سراہتے رہتے تھے۔
ڈاکٹر ساعد کی اصول پسندی کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر بے محل نہ ہو گاایک طا لب علم کا داخلہ کم نمبروں کی وجہ سے نہیں ہو سکتا تھاوہ ڈاکٹر ساعد کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ اس زمانے کے وزیر تعلیم حفیظ پیرزادہ سے سفارش بھی لے کے آیا عبد العلی خان وائس چانسلر تھے۔ انہوں نے وزیر تعلیم کی سفارش کے ساتھ اس لڑکے کی درخواست، ڈیپارٹمنٹ بھیجدی۔ چونکہ وی سی صاحب نے خود میرٹ پر داخلے پر زور دیا تھا۔ اور ڈیپارٹمنٹ میں داخل شدہ آخری طالبعلم کے بعد اس طالبعلم کانام 26 ویں نمبرپر آتا تھا ڈاکٹر صاحب نے وی سی کو لکھا کہ اس لڑ کے سے پہلے 25اور لڑ کے ہیں اگر آپ اجا زت دیں تو ان سب کو اورپھر اس لڑکے کو بھی داخلے دیدیں۔ V.Cصاحب نے معاملے کو سمجھا اور کیس واپس لے لیا اور جو جواب پیر زادہ صاحب کو دیناتھا دیا ہوگا۔ اس واقعے کے کئی ماہ بعدقائد اعظم یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سنٹر میں ایک نیشنل کانفرنس تھی اس پر ہم گئے ہوئے تھے۔ وہاں یہ لڑ کا ملا۔ اور ہماری خدمت اور ہمارا بہت زیادہ خا طر توا ضع کرنے لگا۔ ہم نے اسکو کہا۔ کہ تمہیں تو ہم سے بھاگنا چاہئے کیونکہ ہم نے آپ کو داخلہ نہیں دیاتھا۔ اس لڑکے نے بہت مودبانہ انداز میں کہا نہیں سر: آپ لو گوں نے تومیری زندگی کا رخ ہی بدل دیا آپ نے جب داخلہ نہ دیا تو میں نے سمجھا کہ میں تو بے کار انسان ہوں میری تو زندگی اسطرح بے کار گزر سکتی ہے۔ پھر پیر زادہ صاحب نے اسکو پا کستان سٹڈی سنٹر میں داخلہ دیا تو اس نے مصمم ارادہ کیا کہ اب وہ محنت کرکے اپنے اندر سے یہ خا می دور کرے گا۔ چنا نچہ اس نے ایسا کیا اور اب وہ کلا س میں بہت اچھی پو زیشن میں امتحا نا ت پاس کر رہا ہے۔ نیز یونیورسٹی میں نقل کی لعنت کو ختم کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر ساعد اور کئی دوسرے اساتذہ نے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالمتین کی بھر پور مدد کی جسکی وجہ سے یہ لعنت ختم ہو گئی۔
کما لیت پسند:
ڈاکٹر صاحب ایک کما لیت پسند (Perfectionist) انسان تھے کوئی بھی کام بہترین تیا ری کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اور تو چھوڑیں ڈیپارٹمنٹ کی روٹین میں مختصر میٹنگ کے لئے بھی پوری تیاری کرکے آتے۔ ایک اچھے مقرر ہونے کی حیثیت سے ان کو مختلف فورمز (Forums) میں جو تقریریں کرنی ہوتی۔ ان کے نکات (Hints) تیار کرکے ایک ایک لفظ چن چن کرلاتے۔اپنی اس کما لیت پسندی کی صفت کو بعد میں نے بہ حیثیت سینیٹر انہوں نے بدرجہ اتم کام میں لا یا اور جس کمیٹی کے ممبر ہوئے پوری طرح تیاری کرکے میٹنگز میں شامل ہوئے اور اپنا بھر پوکردارادا کیا۔ ڈاکٹر فیضی بتاتے ہیں ایک دفعہ قاضی حسین احمد چترال تشریف لائے تھے۔ان سے ایک نشست کے دوران جسمیں جماعت اسلامی کے مر کزی و صو بائی دیگر زعما ء مو جود تھے۔ سوا ل کیا کہ ڈاکٹر ساعد صاحب جوآب کی جما عت کی طرف سے سینیٹ کے7سال تک ممبر رہے۔ ان کا وہاں کردار کیسے رہا۔ قاضی مر حوم نے فر ما یا کہ ڈاکٹر صاحب نے توسینیٹ میں ہماری جما عت کا نام روشن کیا۔ اس دوران کئی کمیٹیوں کے ممبر رہے تھے۔ جن میں سے ایک کشمیر کمیٹی بھی تھی۔ اس حوالے سے آپ نے برٹش پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ میں بھی خطاب کیا تھا۔
ڈاکٹر صا حب نے جیا گرا فیکل انفارمیشن سنٹر کے نام سے اپنا ایک ادارہ بھی بنا یاتھا اس سنٹر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اہم جغرافیائی معلوما ت کا ذخیرہ جمع کیا جائے۔ اس سلسلے میں پا کستان، افغانستان اورکئی اضلاع کے نقشے بنواتے اور شائع کرتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے افغانستان کا نقشہ بنوا کے چھپوایا تھا۔ اور اس وقت کے گورنر فضل حق کو پیش کیا تھا۔ جنہوں نے اس کام کو بہت سراہا تھا۔ اخیر میں زیارت کا کا صاحب کا ایک گائیڈ میپ بنوانے میں لگے تھے۔
دینی خدمات:
دینوی لحا ظ سے ڈاکٹر مو صوف کی خدمات کے ساتھ اگران کے اور ان کے بھائیوں کی دینی خد مات کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔ڈاکٹر صاحب خودصوم صلوۃ کے نہا یت پا بند تھے۔ اوران کا دوسرے بھائی ڈاکٹر محمد شاہد تعلیمی فرائض کے ساتھ دعوت تبلیغ کے مشہور بین الاقوامی ادارے کے اہم رکن رہے۔ اس سلسلے میں کئی مما لک کے سفر کئے۔ ملک کے اندر کئی علا قوں میں دین کی اشاعت میں وقت گزارا اور آج کل پشاور مر کز کے شوریٰ کے امیر اور مر کزی شوریٰ کے ممبر ہیں۔ ڈاکٹر ما جد حا فظ قران تھے۔ یونیور سٹی میں پرو فیسر اور ڈین ہونے کے علاوہ آپ نے یو نیورسٹی کی ایک مسجد میں 27سالوں تک رمضان المبارک کی تراویح میں ختم القرآن کرنے کا شرف حا صل کیا۔ درمیاں میں جب Ph.Dکے لئے مانچسٹر گئے تھے وہاں بھی نزدیکی شہر کی مسجد میں قرآن سنانے کا اعزاز حا صل کیا ۔ انہوں نے اپنے مضمون جیا لو جی میں تحقیقی کتابیں لکھنے کے

علا وہ ایک دینی کتاب بھی تصنیف کی ہے۔ جسے ڈاکٹر سا عد نے ان کی وفات کے بعد شائع کیا تھا۔ ان کے ایک اور بھائی پروفیسر محمد قائد انجینئر نگ میں پروفیسراور ڈین تھے دعوت تبلیغ سے تمام زندگی وابستہ رہے۔ان کے ایک اور بھائی ڈاکٹر گل باد شاہ نیور و سر جن ہیں۔فوج سے بریگیڈ یئر ریٹائرڈ ہیں۔ عمر بھر تبلیغ سے بھی تعلق رہا۔ اب رائیوینڈ مر کزکے مقیمین میں شامل ہیں ۔ ؎این سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشدخدائے بخشندہ
سیاحت:
ڈاکٹر ساعد ایک سفر چشیدہ (Widely travelled) شخصیت تھے۔ انہوں نے بر طانیہ کے علاوہ مغربی یورپ کے کئی ممالک،افریقہ میں مصر، ایشاء میں پاکستان کے تما م علا قوں کے ساتھ ہندوستان، افغانستان، حجاز مقدس، جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک،ترکی امریکہ میں شمالی امریکہ تمام وسطی امریکہ اور لا طینی امریکہ کے بعض شما لی مما لک کا دورہ کیا تھا۔ آپ ایک ما ہر فوٹو گرافر تھے جہاں بھی جا تے۔ اہم مقا مات کی تصاویر کا مجمو عہ سلائیڈ ز کی شکل میں تیا رکرلیتے اور بعد میں لکچر ز میں ان کو استعمال کرتے۔ ڈاکٹر مر حوم کی باتیں بہت ہیں راقم اور وہ پہلے 1954ء ہم جماعت کے طور پر بعدمیں بہ حیثیت شریک کار (Colleague) ان کی ریٹائر منٹ تک ساتھ رہے۔ اور ان کی مو ت تک یہ تعلق بر قرار رہا۔ اس لئے ان پر جتنا بھی لکھو ں دل سیر نہیں ہوگا پشتو میں کسی نے خوب کہا ہے ”استا دے خوایست گلو نہ ڈیر دی زما لمن تنگہ زے بہ کوم کوم ٹو لومہ“ یہاں پر اس تذکرے کو اپنے ایک چترالی شعر پر ختم کر تاہوں۔ ؎
ہنون مہ ہم جماعت، ای پرانو یار شوخسیرو + ایگان بیتی واریہ بیسی، یا کا وا کوس وسیرو
ترجمہ: (آج میر ا ہم جما عت ایک پر انا ساتھی وفات پا گیا ہے۔پھر اپنی باری پر ہم سب بھی چلے جائینگے یہاں کوئی کسی کا انتظار نہیں کرتا)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں