273

زندگی یک برده۔۔۔۔۔۔۔تحریر:ڈاکٹرشاکرہ نندنی

یہ مضمون میری مرحومہ ماں سیتا کاویری (سابقہ تبسُم حُسین) کے نام جس نے ساری زندگی نرس بن کر لاہور چٹاگانگ اور منیلا میں انسانوں کی خدمت کی۔

“تعلیم زندگی ہے ،اور جہالت موت، تعلیم سے زندگی سنورتی ہے اور جہالت سے امور بگڑتے ہیں ، جہاں تعلیم ہے وہاں روشنی ہے ،اور جہاں جہالت ہے وہ ایک اندھیرنگری ہے ،تعلیم ایک فطری چیز ہے اور جس قوم نے اس فطرت کو قبول کیا وہ ترقی کرتی چلی گئی، اسی لئے کہتے ہیں : قوموں کی ترقی کا پہلا زینہ تعلیم ہے۔” ڈاکٹر شاکرہ نندنی

برصغیرکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس خطہِ ارض نے جب سے معاشرت قائم کی ہے اس وقت سے اب تک یہاں پر آریاؤں، مسلمانوں، منگولوں اور انگریزوں نے حکومت کی ہے جسکی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں رنگ و نسل، عقیدے و سوچ میں باہم بڑا گہرا اور بنیادی قسم کااختلاف پایا جاتا ہے پھر اِنہوں نے تہذیبی علوم کے پہلوؤں پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت بلکل محسوس نہیں کی اور نہ ہی معاشرتی اقدار اور رہن سہن کے حوالے سے دوسرے علاقوں کے علوم اپنے طورپر ترتیب دیے جو معاشرے میں علوم کے کچھاؤ کا سبب بنیں جبکہ ان علوم کی جڑیں اُنہی لوگوں کے پاس رہیں جو انکے ماخذ ہیں جس میں وقت اور ضرورت کے لحاظ سے اضافے کرتے جارہے ہیں پھر ترقی کا سہرا انہی لوگوں کے سر بندھے گا۔ اور یہاں لوگوں کی اندھی تقلید اور پھر اس تقلید پر عقلی دلائل ، بلکہ اس تقلیدی مواد پر عمل درامد کیلئے قوانین بھی تقلیدی یعنی ہر ایک بچہ پیدائشی غلام ہے جسکے تمام معاملات اسکی اپنی سوچ پر نہیں بلکہ اجتماعی لا شعوریت پر منحصر ہوتے ہیں۔

کسی بھی معا شرے کی ترقی کا راز اسکے نظام تعلیم پر منحصر ہوتا ہے، اولاً پاکستان میں سارا نظام تعلیم کاپی پیسٹ ہے جسکی بنیادیں، زبان اور اصطلاحات ان معاشروں کی ہیں جہاں کے بنیادی مسائل کا تعلق ہمارے پاکستان کے مسائل سے دُور دُورتک نہیں ہے بس ڈگریوں کا حصول باقی ہے مشکل ترین اصطلاحا ت اور لباس سے علم جھاڑنے کی کو شش میں عام لوگوں اور ان میں خلیج قائم ہے۔ کسی طالبہ یا طالبِ علم   جو اپنے شعبے میں ماہر تصور کیا جاتا ہو اس کے پاس مشکل انگریزی کے الفاظ موجود ہونگے اس علم  کا اطلاق نہ انکی اپنی زندگیوں میں کسی حد تک ممکن ہے نہ معاشرتی۔ کیونکہ جن لوگوں کی فلاح کیلئے استعمال کرنا ہے ان لوگوں اور ماہرین میں ایک خلیج قائم ہے جس سے معاشرتی ترقی ناممکن ہے کیونکہ ماہرین کا تخصیصی رٹا ہوتا ہے

غلام کی زندگی تماشائی کی طرح ہے جو جہاں لگا دے، جبکہ باشعور انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی صلاحیتوں کا بھر پورمالک ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں