203

کچھ لوکچھ دو کی پالیسی اور حکومتی بیوپار۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغر

جہاں مختلف شعبوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی ذات سے بہت متاثراوراس قدر خودنمائی کے شکارہوتے ہیںکہ ہمہ وقت شہرت کے حصول اور خود کوپارساثابت کرنے میں ہی لگے ہوتے ہیں وہیں قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں میں بھی یہ عنصر بدرجہ اَتم موجود ہوتاہے،خودنمائی کے شکاراوراپنی ذات کے خول میں بندبیشتر لکھاری مشکل ترین الفاظ پر مشتمل محاوراتی،مفکراتی اور تصوراتی طرز تحریر کاسہارہ لیکر خود کو قابل،ذہین اور بہت پڑھے لکھے ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیںاورتاریخ کے حوالے،مختلف اقوام اورتہذیب وثقافت کے تذکرے اورقومی وبین الاقوامی اہم واقعات کی مثالیں بطور دلیل پیش کرکے کہ وہ باخبراوردانشور بھی ہیں جبکہ مستقبل بارے پیشگوئیاں کرکے دوراندیش ہونے کابھی تاثر دیتے ہیں،ایسے لکھاریوں کی مثال اس جعلی پیر سے مختلف نہیں جسے برتن میں پڑے چاول کے چند دانوں کے نیچے پڑی مرغی تو دکھائی نہیں دیتی مگر ہزاروں میل دور مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتے کتے اسے نظرآجاتے ہیں،نرگسی¾ت پرمبنی طرز تحریر کے حامل لکھاریوں کو نظروں سے اوجھل بہت دور تلک چیزیں تو نظر آجاتی ہیں مگر اپنے اردگرد بلکہ ناک کے نیچے رونماءہونے والے واقعات اور معاملات انہیں دکھائی نہیں دیتے سو دوسروں کی غربت اور مفلسی کاروناروتے شخص کے اپنے بچے فاقہ کشی سے مرجاتے ہیں کے مصداق بڑے بڑے لکھاریوں کے آبائی علاقے پسماندگی کے شکار ہوتے ہیںجنہیں دیکھ شائد یہ کہنامناسب ہوگاکہ موچی کے جوتے اور درزی کے کپڑے ہمیشہ پھٹے پرانے ہوتے ہیں،آج میں اپنے کالم میں جس ایشو کو موضوع تحریر لانے کی کوشش کررہاہوں وہ میرے ہوم ٹاون چکدرہ لوئر دیر میں قائم گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی منتقلی کامعاملہ ہے جو ایک عرصے سے عوامی حلقوں کے اندر زیربحث چلاآرہاہے ،دو دھائی پہلے تک یہاں کوئی زنانہ کالج نہیں تھاجس کے سبب سکول سے فارغ ہونے والی بیشتر طالبات مزید حصول تعلیم سے محروم جبکہ بعض طالبات تھانہ،بٹ خیلہ،سوات اور پشاور کے کالجوں میں پڑھنے جاتی تھیں تاہم سال 2002میں اس وقت کے گورنرلیفٹننٹ جنرل(ر) سید افتخارحسین شاہ نے دورہ چکدرہ لوئر دیر کے موقع پر عوامی حلقوں کے پرزور مطالبہ کے پیش نظریہاں گرلز ڈگری کالج کے قیام کی منظوری دی ،گورنر کے اعلان کے بعد یہاں گرلز ڈگری کالج قائم کیاگیا،ابتدائی سالوں کے دوران یہ کالج فرنٹیئر ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے زیرانتظام چلتا رہاتاہم بعد میں اسے ڈائریکٹوریٹ آف کالجز محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کے حوالے کیا گیا، مذکورہ کالج کاقیام یہاں کے تعلیمی ماحول میں ایک خوشگواراضافہ ثابت ہوا جہاں چکدرہ سمیت آدینزئی بھر کی سینکڑوںطالبات زیرتعلیم ہیں مگر گزشتہ ایک عرصے سے اس کالج کاتدریسی عملہ گل آباد آدینزئی میں گرلز ڈگری کالج کی نوتعمیرشدہ عمارت میں منتقل کروانے کی باز گشت ہورہی ہے جس کی تعمیر کی منظوری پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں دی گئی تھی،گوکہ کالج کی منتقلی محض افواہ بھی ہوسکتی ہے مگر تادم تحریریہاںکے عوام بالخصوص والدین اور زیرتعلیم طالبات کے لئے یہ معاملہ باعث تشویش بناہواہے، پچھلے دودہائیوں کے دوران چکدرہ میں اداروں کے قیام اور ردوبدل کی تاریخ پر نظردوڑائی جائے تو والدین ،زیرتعلیم طالبات اور عوام علاقہ کی تشویش بجا بھی ہے کیونکہ یہاں شہریوں کیساتھ بیوپارکیاجاتارہاہے یعنی انہیں ایک سہولت دی جاتی ہے تو بدلے میں پہلے سے موجودسہولت ان سے چھین لی جاتی ہے، چکدرہ میں سابق ریاست دیر کے نوابی دور کاایک رہائشی بنگلہ تھاجسے ایک تاریخی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ رکھنا حکومت اور متعلقہ سرکاری اداروں کی ذمہ داری تھی مگر سالوں قبل وہاں اورسیزپاکستانی فاﺅنڈیشن (اوپی ایف)کے زیرانتظام سکول قائم کرکے اس عمارت کی تاریخی حیثیت ختم کردی گئی جبکہ وہاں قائم کردہ سکول میں جہاں سالوں تک علاقہ کے بچے سینکڑوں کی تعداد میں پڑھائی کرتے رہے وہیں دفتری عملہ سمیت دودرجن سے زائدخواتین اساتذہ برسرروزگار بھی رہیںمگر ایم ایم اے کے دور حکومت میں یہاں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی تعمیر کی منظوری دے دی گئی توسکول کی چھٹی کرواکر اس عمارت میں ہسپتال قائم کیاگیااگرچہ ہسپتال کی اہمیت سے کوئی انکارنہیں اس سے علاقہ بھر کے شہری طبی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں مگر سکول کاخاتمہ کرکے قوم کے بچوں کو معیاری تعلیم کے حصول جبکہ تدریسی عملہ اور دیگر ملازمین کو روزگارسے محروم کردیاگیا ،اسی طرح چکدرہ ہی میں ملاکنڈ یونیورسٹی قائم کردی گئی ہے جس کی منظوری بھی سابق گورنر لیفٹننٹ جنرل(ر)سید افتخارحسین شاہ نے دی تھی ،یونیورسٹی کاقیام یہاں کے عوام کاپرزور دیرینہ مطالبہ تھااور اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے حوالے سے ملاکنڈ یونیورسٹی نہایت ہی اہم کرداراداکررہی ہے مگر المیے کی بات ہے کہ یونیورسٹی کے بدلے ایک اور منصوبہ دم توڑگیا کیونکہ جس جگہ یونیورسٹی قائم کی گئی ہے یہاں اس سے قبل پاکستان انڈسٹریزکارپوریشن(پی آئی ڈی سی)کاکارخانہ تھا ،کارخانہ ختم ہونے سے 14سوملازمین بیروزگارہوگئے جبکہ کروڑوں روپے کی غیرملکی مشینری بھی اونے پونے داموں فروخت کی گئی،انسان اور جانور کے ہاتھ پیرتونظر آتے ہیں مگر بظاہر دکھائی نہ دینے والے ہاتھ پیر درحقیقت وہ وسائل ہوتے ہیں جن کے استعمال کااختیارصرف حکومت کو حاصل ہوتاہے انہی وسائل کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبوں کوقابل عمل بناناحکومت وقت کے لئے کوئی مسئلہ نہیںہوتااور کسی ایک منصوبے کے لئے دوسرامنصوبہ ختم کراناکسی طورمناسب نہیں جبکہ ایساکرناکسی دو ممالک کے مابین کچھ لوکچھ دو کے معاہدے کی پالیسی تو کہلاتی ہے مگر حکومت اور شہریوں کے مابین ایسابیوپار نہیں کیاجاتا، کسی ادارے کا قیام اور عمارت کی تعمیرسمیت وہاں عملہ کی تعیناتی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ پہلے سے موجود اداروں کاعملہ اٹھاکر انہیں بند کیاجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں