267

حسینؓ عالم انسانیت کے ہیرو۔۔۔ تحریر؛ شہزادہ مبشرالملک

٭ یزید کی مظلومیت کا رونا۔
فیس بک اور دیگر میڈیا میں آج کل جناب مولانا تقی عثمانی صاحب کے ایک ارٹیکل کا بڑا چرچا ہے۔( جو حقیقتاََ مولانا صاحب کا ہے بھی یا نہیں ) جس میں یزید کی مظلمومیت کا بڑا رونا رویا گیا ہے ۔ اسے حسن وکردار کا اعلیٰ نمونہ بناکر پیش کیا گیا ہے کہ ایسے تراشے ہوئے ہرے کی مخالفت میں حسین ؓ کا علم بغاوت بلند کرنا عجیب سا لگ رہا ہے۔ کربلا کے خون چکان واقع سے یزید کے دور تک تعلق نہ ہونا جدید اسلامی تاریخ کا ایک سیاہ ترین اضافہ ہے۔ آج تک اسلامی تاریخ کے تمام مکتبہ فکر کے کتب میں یزید کو کربلا کے سانحہ عظیم کا مجرم ثابت کیا گیا ہے ۔اب پندرہ سو سال بعد ایران اور سعودی دشمنی جس کے سبب حضرت علیؓ سے لیکر تمام اہل بیت کو شعیہ ، بریلی اور اسماعلیہ برادری کے کھاتے میں ڈال کر سنی علماءکے ذریعے یزید کے لیے نرم گوشہ بنایا جارہا ہے۔ اور یہ کھیل مدتوں سے جاری ہے۔ سعودیہ اور ایران کے رسہ کشی نے آج تک امت مسلمہ کو دو فرقوں میں تقسیم کرکے دنیا بھر کے سامنے ہمیشہ کمزور اور رسوا کیا ہے اب ایک نئے انداز میں عرب کو خوش کرنے کے لیے حسینؓ اور حسینیت پر منظم حملے ہورہے ہیں جو امت مسلمہ کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ یزید کی مظلومیت کا رونا رونے والواپنے اسلاف کے ان تاریخی کتب کا کیا کرو گے جو صدیوں تک بنو امیہ کی اہل بیت کے ساتھ تعصب ،بغض اور عناد کا تذکرہ لاکھوں نہیں کڑوروں کتب میں کرتے رہے ہیں؟ یزید کو بے گناہ ثابت کرنے والو شامی فوج کے اس ظلم و بربریت کا کیا جواب دو گے جو واقع کربلا کے بعد بھی یزید کے تخت کے استحکام کے لیے قتل عا م کی صورت حرم کعبہ ، مکہ اور حرم مدینہ میں ڈھا دی گئیں اور ہزاروں پاک باز بیٹیوں کی عزت و ناموس کو مال غنیمت کے نام پر تار تار کیا گیا؟ کیا یہ سب فضلتوں کے مجموعہ یزید کی مرضی اور علم کے بغیر ہورہا تھا خدا را چند ریال کی خاطر عالم انسانیت کی واحد محبت حسینؓ کے ساتھ یہ ظلم نہ کیجیے۔کہ جن کے نانا نے فرمایا تھا” حسینؓ سے محبت ایمان کی نشانی ہے۔“” حسینؓ سے بغض رکھنے والا اصل میں مجھ سے بغض رکھتا ہے۔“
٭اعلیٰ نسبی۔
جن کی قسمت پر ہمشہ دنیا رشک کرتی رہے گی جو خود سیدالشہدا اور جننت کے جوانوں کے سردار باپ کعبہ میں جنم لینے والے، رسول خداﷺ کے کندھے پہ چڑھ کر بُت گرانے والے اسداللہ ، خلیفتہ المسلمین، شہرعلوم وہدایت کے دروازے اور شہید مسجد ماں جگر گوشہ رسولﷺ ، مسلمانوں کی سب سے بڑی اورعظیم محسن ماں حضرت خدیجہ ؓ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھائی حضرت امام حسنؓ جیسے جلیل القدر مصلح صحابی رسول بہین تاریخ انسانی پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی اور یزید کے محلات پر لرزاں تاری کرنے والی بے باک شعلہ بیاںحضرت زینبؓ بیٹا جسے دنیا امام زین العابدین ؓ کے گرامی سے پکارتا ہے دادا حضرت ابو طالب جس نے پوری زندگی چراغ ہدایتکی نگہبانی کی اور جس کی وفات کو آپﷺ نے غم کا سال قرار دیا نانی حضرت خدیجہؓ جس نے سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی اور اپنی ساری مال و متاع دین اسلام کی آبیاری کے لیے وقف کردی اور نانا وہ جس کے لیے یہ دنیا سجائی گئی ، جس کے دم سے یہ کارخانہ حیات قائم و دائم ہے ، جو محسن انسانیت، اور رحمت اللعلمین ہیں۔
٭ ولادت سے جوانی۔
۴ ھ مدینہ منورہ میں پیدا ہوے حضرت فاطمہؓ حضرت علی ؓ اور حضور ﷺ کی گود میں پرورش پائی آپ ﷺ نے حسینؓ نام رکھا اور فرمایا ” حسین ؓ مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ ائے اللہ جو حسین کو دوست رکھتا ہے تُوبھی اسے دوست رکھ کیونکہ حسینؓ مرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ۔“حضور انہیں اپنے مبارک کندوں پر سورا کرتے ہوے گھر سے نکلے تو ایک صحابی نے حیرت سے کہا کیا مبارک سواری ہے ؟ تو حضورﷺ نے فوراٰٰ فرمایا سوار بھی بہت ہی مبارک ہےایک دن حضورﷺ نے حسن سے کہا کہ وہ حسین کو پکڑے اور کشتی لڑے اور حضرت حسنؓ سے کہا کہ حسین ؓ کو پکڑے حضرت فاطمہؓ بولیں یا رسول ﷺ آپ بڑے کو کہتے ہیں کہ چھوٹے کو پکڑلے؟ حضور ﷺ نے فرمایا حضرت جبرائیل ؑ بھی تو حسینؓ سے کہہ رہے ہیں کہ حسنؓ کو پکڑ۔ ایک دن آپ ﷺ حضرت حسینؓ کو دائیں اور اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کو بائیںبازو پر بیٹھائے ہوے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور کہا اللہ تعالیٰ ان دونوں کوآپ کے پاس یکجا نہ رہنے دے گا آپ جسے چاہیں پسند کرلیں
آپﷺ نے فرمایا اگر حسینؓ رخصت ہوجائیں تو ان کے فراق میں حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ اور مجھے دکھ ہوگا اور ابراہیم ؓ کے جانے کا صرف مجھے صدمہ ملے گا اس لیے مجھے اپنا غم ہی پسند ہے۔ حضرت حسین ابھی سات سال کے ہوے تھے کہ آپ ﷺ اس جہان فانی سے رخصت فرماگئے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہؑ جیسی شفیق ترین ماں سے بھی محرم ہوگئے لیکن علی مرتضیٰ ؓ جسے مشفق والد نے آپ کی پرورش احسن طریقے سے کی آپ حافظ قران، احادیث نبوی اور قران پر زبردست عبور رکھتے تھے ۔دور صدیقی اور فاروقی میں آپ نوخیز تھےخلافت فاروقی میں کسی بات پر عبداللہ ابن عمر ؓ کو غصے سے اپنا غلام کہا تو عبداللہ برا مان گئے اور اپنے والد امیرالمومنین فاروق اعظمؓ سے شکایت کی کہ حضرت حسین ؓ نے مجھے طعنہ دیا ہے باب نے بیٹے سے کہا واقعی حسین ؓ نے یہ کہا ہے کہ تم اس کے نانا کے غلام کے بیٹے ہو فورا جاو اور یہ بات لکھ کر لاوحضرت حسینؓ نے لکھ کر دی تو حضرت عمر ؓ نے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد یہ پرچی میرے کفن کے ساتھ لپیٹ دینا تاکہ میرے لیے حسین ؓ کی طرف سے سند بن جاے کہ میں ان کے نانا ﷺ کا غلام ہوں دور عثمانی میں جوان ہوے اور کئی جنگوں میں حصہ لیا جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فسادیوں نے حملہ کیا تو حسنینؓ در عثمانی کی حفاظت پر مامور تھےدور حیدری میں اپنے والد کے ہمیشہ دست بازو رہے حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بعیت کی جب چھ ماہ بعد حضرت حسن ؓ نے ملت اسلامیہ کو متحد رکھنے کےلیے حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہوئے تو آپ نہ چاہتے ہوئے تھی بڑے بھائی کے رائے کا احترام کیا۔جب حضرت امیر معاویہؓ اپنے بیٹے یزید کے لیے اپنی زندگی ہی میں بزور بیعت لینے کا اغاز کیا تو آپ نے کہا امیر ؓ نے طاقت کے زور پر حکومت حاصل کرکے خلافت کو ملوکیت کی جانب ایک قدم آگے برھایا تھا اب بیٹے کو ولی عہد بنا کر خلافت کو ہرقل کی شہنشاہی بنارہا ہے۔۔۔آپ کے ہم آواز ہوکے دینی بصیرت رکھنے والے چند حق گو سامنے آئے اور برملا حضرت امیر معاویہؓ کے فیصلے کی مخالفت کیادھر معاویہ ؓ بزور تلوار بیعت لینے کے احکامات دیے اور یزید کے ولی عہدی کا اعلان کردیا لیکن اپنے منصوبے کو عملی جامعہ نہ پہنائے تھے کہ اچانک انتقال پا گئےیزید نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی حضرت حسینؓ اور حضرت زبیر ؓ سے زبردستی بیعت لینے یا قتل کرنے کے احکامات جاری کیے یہ دو نوں حضرت اپنا پیچھا چھڑا کر مدینہ سے مکہ پہنچ گئے۔
٭عاشور کی چاندنی۔
امام حسینؓ چار ماہ تک مدینہ میں کوشش کی کہ یزید کے خلاف ان کا ساتھ دیا جائے اور اسی طرح کی جستجو آپ نے حج کے دوران مکہ میں کیں لیکن یزیدی فوج کے خوف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی تیار نہ تھا سب جانتے تھے امام کا ساتھ دینا موت کو گلے لگانا ہے۔ حضرت حسین ؓ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح خلافت کے نظام کو ملوکیت میں بدل دیا گیا ہے جو نظام آپ ﷺ کی مسلسل محنت اور خلفا راشدین کی بھر پور کوشیشوں کے بعدوجود میں آیا تھا۔ اب شخصی حکومت کی مرضی کے مطالق چل رہا تھا اور خدائی نظام کا مینارہ نور گر چکا تھا ۔ افسوس اس وقت خلافت کا دم بھرنے والے سنی مسلمانوں نے اس کا احساس کیا اور نہ امامت کے دعویٰ داروں نے اور یہ کھیل آج بھی دونوں طرف بے حسی سے جاری ہے۔
ایام حج تھے مگر حضرت حسینؓ کے پیچھے یزیدی غنڈے یہاں بھی آپ کی جاسوسی کرنے لگے تو آپ نے حج کو عمرے سے بدل دیا اور سوئے مقتل یعنی عراق جانے کا فیصلہ کیا عراق سے سینکڑوں خطوط موصول ہوچکے تھے اور آپ کے نمائدہ حضرت ابن عقیلؓ کی طرف سے بھی کوفہ آنے اور حالات بہتر ہونے کا مشورہ مل چکا تھا مخلص صحابہ کرام نے عراقیوں پر شک و شبے کا اظہار کیا کچھ نے یمن اور مدینہ واپس جانے کے مشورے دیے کوفیوں کی بے وفائی اور غداری کا حوالہ دیے مگر امام حسین ؓ سب باتوں کے جواب میں فرمایا ”حضورﷺ نے
مجھے ایک بات کا حکم دیا ہے اور میں جان لوٹا کے بھی اسے ضرور پورا کرونگا۔“ عراق میں داخل ہوے تو مسلم بن عقیلؓ کے قتل اور کوفیوںکی تلواریں یزید کے ساتھ ہونے کی دلخراش خبریں موصول ہوئیں ادھر عبداللہ ابن زیاد کی فوج نے آپ ؓ کو گھیر لیا اور رفتہ رفتہ وہ مقام اگیا جسے کربلا کے نام سے جاتا ہے
یہاں انسانی تاریخ کا وہ درد ناک باب رقم کیا گیا کہ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے آج بھی آنکھیں بھیک جاتی ہیںاگرچہ محرم کو اور بھی بہت سے حوالوں سے عزت و منزلت حاصل ہے مگر10 محرم شب عاشور کی چاندنی فقط اور فقط قربانی حسینؓ کے دم سے ہی ہے اور حسین ؓ اپنا سب کچھ لوٹا کے مسلمانوں ہی کے نہیں پورے عالم انسانیت کے ہیرو بن گئے۔
٭ خاک کربلا۔

حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں” ایک رات حضور ﷺ گھر سے باہر گئے اور بڑی دیر بعد تشریف لائے آپ ﷺ کے بال پریشان اور غبار الود تھے میں نے پوچھا آپ کو یہ کس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا آج حضرت جبرائیل مجھے ایک اسی جگہ لے گئے جو عراق میں ہے اور حضرت حسینؓ کی جائے شہادت ہے اور اسے کربلا کہتے ہیں جہاں میں اپنی اولاد کا مشاہدہ کیا اور ان کے خون کو زمین سے اٹھالیا جو میرے ہاتھ میں ہے حضور ﷺ نے مٹھی کھولی اور فرمایا اسے پکڑ اور حفاظت سے رکھ میں نے اس سرخ مٹھی کو ایک بوتل میں رکھ لیاجب حضرت حسینؓ عراق کا سفر کیا تو میں روز اس شیشی کو باہر لاکر دیکھتی رہی اس میں مٹھی اسی طرح موجود تھی جب میں نے عاشور کے روز اسے دیکھا تو اس میں خون تازہ ہوچکا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ حسینؓ شہید ہوگئے
٭ پیام کربلا۔
حضرت امام حسینؓ پوری دنیا کے مظلوموں کو یہ پیام دے گئے کہ کہ حق کے لے اپنا سب کچھ لوٹا دینا ناکامی نہیں بلکہ دائمی کامیابی ہے آج حسین کے چاہنے والے مسلمان ہی نہیں غیر مذاہیب بھی کڑوروں کی تعداد میں ہیں اور یذید کا کوئی نام لیوا نہیں۔
اس وقت علماءسو یزید کو خوش کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے حسینؓ کو باغی بناکے پیش کررہے تھے اور علماءحق بھی یزیدی تلوار کے خوف سے کھل کر امام کا ساتھ نہ دے سکے اور آج کے حالات بھی وہی ہیں۔ لیکن فریق بدل گئے ہیں جہاد کے نام پر ایک فساد برپاہے اور خوف کے سائے ہیں اہل علم ۔ صاحبان عقل شعور کھل کر ریاست اور فوج کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں اور علماءسو دہشت گردوں کے لیے راستے بنانےکے لیے حیلے حوالوں سے کام لے رہے ہیں۔
خود حضرت امام کا عمل بھی اسلام اور جہاد کے دعویدوروں کے لیے بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاد کی شرایط اور حدود کیا کیا ہیں کہ کیا آج کے جہادی حسینؓ کے قافلے کے ساتھی ہیں یا چنگیزو ہلاکو خان کے متوالے کہ ان کے ہاتھوں سے لوگوں کی عزت ناموس، عبادت خانے ، بازار ، بچے بوڑھے ، مرد خواتین کوئی بھی محفوظ نہیں یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے خصوصا سنی علماءکرام کے لیے کہ وہ آگے اکے رسم شبیری ادا کرتے ہوئے کم از کم دس محرم کو ہی صحی حسینؓ اور کربلا کا تذکرہ ہی کریںکیا حسینؓ صرف شیعوں کے لیے اپناپورہ خاندان نچھاور کرگئے تھے کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں؟
٭منقبت۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں