چترال ( محکم الدین ) ادارہ برائے فروغ تعلیم و ترقی ( آئی بی ٹی) کے زیر اہتمام مختلف سماجی گروہوں کے لوگوں کی اپنی روایات و ثقافت اور عقائد کے ساتھ ایک مشترک تہذیب کے اندر رہتے ہوئے تکثیری اور صحت مند سماج کے ذریعے سے ترقی کو ممکن بنا نے کے لئے ایک روزہ کانفرنس چترال کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا ۔ جس میں مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں ، محققین و مندوبین نے شرکت کی ۔ چترال کے ممتاز سکالر اور محقق ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ، معروف دانشور پروفیسر ممتاز حسین ، معروف کالاش خاتون میوزیم انچارچ سیدگُل اور شیر عظیم بختاور نے دو نشستوں میں اپنے مقالات پیش کئے ۔ جبکہ پروفیسر شمس النظر فاطمی نے کانفرنس سے اختتامی خطاب کیا ۔ تکثریت کی مثبت پہلووں اور خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز دانشور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے کہا ۔ کہ امریکہ اور یورپی ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے تکثریت کو یکجا کرکے ملکی ترقی کیلئے استعمال کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں مذہب کی بجائے انسانیت کی بنیاد پر باہمی ہم اہنگی پائی جاتی ہے ۔ اور اسے ایک بڑی طاقت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح چین میں ایک سو سے زیادہ قومیتیں اور 46مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ۔ اور وہ ایک چھت کے نیچے اپنے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے نہ صرف سرگرم عمل ہیں ۔ بلکہ اپنی معیشت اور تجارت کو عالمی سطح پر بلندیوں تک پہنچا دیا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال ایک پُر امن ضلع ہے ۔ یہاں ماضی میں بھی مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر کبھی منافرت نہیں پھیلی ۔ جتنے بھی سماجی زلزلے آئے ۔ اُن کی پلاننگ چترال سے باہر کی گئی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ مسلمانوں میں جب بھی عدم برداشت کا عمل بڑا تو وہ برباد ہوئے ۔ پروفیسر ممتاز حسین نے کہا ۔ کہ چترال کے موجودہ کلچر میں یہاں رہنے والے تمام کمیونٹیز کا حصہ ہے ۔ اور چترالی معاشرہ تکثریت پسند معاشرہ ہے ۔ مذہبی اور مسلکی