235

انوکھااحتجاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:وقاص احمدایڈوکیٹ


وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کے دوراہ چترال سے چاردن قبل ائرپورٹ روڈکی مرمت کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسہ بھی کیاتھااوراس کوسوشل میڈیامیں بھی شیئرکیاگیاتھااس وجہ سے مجھے یقین تھاکہ وزیراعلیٰ کم ازکم چترال میں سڑکوں کی مدمیں کوئی فنڈریلیزکریں جبکہ ڈی سی چترال نے اپنے بریفنگ میں بتایاتھاکہ تمام سٹرکوں کی پی سی ون بنایاگیاوہ وزیراعلیٰ کے pprovpکی ضرورت تھی اس کام کے لئے ڈی سی چترال کاشکریہ اداکرتاہوں۔
میں نے پروالی ٹوپی کوایک منفرداحتجاج کے طورپرجلایا۔اس وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوامحمودخان چترال کادورہ کررہے تھے۔میرااحتجاج انتہائی موثررہاکیونکہ آجکل سوشل میڈیامیں نوے فیصدلوگ ٹوپی جلانے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔اوربعض میرے اس فعل کی مذمت بھی کرتے ہیں۔لیکن میراانوکھااحتجاج انتہائی کامیاب رہا۔اس کامقصدبھی یہ تھاکہ لوگ کم ازکم پوچھیں گے کہ یہ کیوں ہوا۔یہ بات پاکستا ن اورپاکستان سے باہرہرملک کے کونے کونے تک پہنچ گیااوریہ ارباب اختیارتک بھی پہنچ چکاہوگا۔میرے اس ویڈیوکودیکھنے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ذاتی مقصدکے لئے یہ کام بن کیاہے۔پاکستان کے خزانے میں بوات کوجنت نظیرشہراورموٹروے وشنی وغیرہ کے لئے پیسے موجوہیں۔جبکہ چترال کے خستہ حال روڈوں کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں دیاگیا۔چترالی ٹوپی کوجلاناکسی چترالی کی دل آزاری تونہیں تھی۔بلکہ ایک منفرداحتجاج کرناتھا۔جوکہ کامیاب ہوگیا۔ارندوشیشی کوہ،بمبوریت،گرم چشمہ،بونی مستوج،تورکہواورموڑکہوکے روڑوں کی تعمیرتھی۔جب وزیراعلیٰ صاحب مایوس ہواتومیں نے یہ کہتے ہوئے چترالی ٹوپی کوجلادیاکہ جوشخص چترالی ٹوپی پہنانے کے اہل اوران کی عزت کوپہچانے کااہل نہ ہوتوان کوثقافتی ٹوپی پہنانے کے بجائے اُنکو جلادیاجائے۔اب ہم ایک ٹوپی کوجلانے پرمتحدہوگئے ہیں۔اسی طرح چترال کی ترقی مثلاً ارندوشیشی کوہ،بمبوریت،لٹکوہ،بونی مستوج،تورکھواورموڑکہوکے روڈوں کے لئے متحدکیوں نہیں ہوئے۔ہم چترالی ٹوپی کے بہانے متحدتوہیں۔لیکن چترال میں ترقیاتی کاموں کے لئے متحدکیوں نہیں ہیں۔بس ایک وکیل ہوں میں زندگی میں ایک کونسلربننے کابھی خوہش مندنہیں ہوں۔اورنہ آئندہ کسی بھی الیکشن میں آپ کے سامنے آجاونگا۔میں قوم کی خدمت کے لئے ہرحدتک جاونگا۔چاہیے میری جان بھی چلی جائے۔میں اُن لوگوں کوسلام پیش کرتاہوں جوحدودکے اندررہتے ہوئے مجھ پرتنقیدکی ہے۔تنقیدتعمیری ہوناچاہیے۔تعمیری تنقیدکریں قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں،اوریہ بھی میں عرض کروں کہ اپنے بچوں کی شادی کراتے وقت بھی چترالی ثقافت کاخیال رکھیں۔جوحال ہی میں آپ کے سامنے ہوچکے ہیں اس وقت جب ہم ثقافت کی بات کررہے تھے تویہ لوگ ہمیں گالیاں دے رہے تھے کہ ثقافت کے نام پرچترال کی ترقی میں روڑے اٹکارہے ہیں۔میں مطمئن ہوں اورمیراانوکھااحتجاج سوشل میڈیاکازئنت بنااورآئندہ آنے والے لوگ جن کوہم ٹوپی پہنائیں گے محتاط رہیں گے۔اس کے علاوہ بازارمیں مرغیوں کے جوپرتین سوروپے میں فروخت کرکے چترالی ثقافت کانام لیتے ہیں وہ کبھی چترال کاثقافت نہیں رہا۔میں نے اپنے ویڈیومیں باربارپروالی ٹوپی کاذکرتارہاہوں۔اس کامقصدیہ تھاکہ چترالی ثقافتی ٹوپی سواتی پٹی سے نہیں بنتااورپرہم ٹوپی میں لگاتے تھے اُن میں سے تاتاڑیوجورونی اورمنڈاغ کاچوڑ ہے نہ کہ مرغی کاپر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں