295

پیرس حملہ اور سازشی نظریات……کریم اللہ

گزشتہ سال کے اختتامی مہینوں میں فرانس کے تاریخی شہر پیرس میں تباہ کن دہشتگرد حملوں کے بعد علمی حلقوں میں ملاجلا ردِعمل سامنے آیاجو کہ تاہنوذ جاری ہے۔سازشی نظریات ہم پاکستانیوں کا دل پسند اور محبوب مشغلہ ہے۔اپنی کمزوریوں،کوتاہیوں اور نالائقیوں کو سمجھنے اور انکے تدارک کی بجائے ان کا الزام یہود وہنود،امریکہ،برطانیہ،اسرائیل اوربھارت وروس پر عائد کرکے خود کو بری الزمہ ٹہرانے کی کوشش کوئی نیا مظہر نہیں،بلکہ یہ بیماری روزِ ازل سے ہماری رگوں میں جاری گردشِ خون کے ساتھ رواں دواں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر قابوپانے کی بجائے سازشی نظریات سے دل بہلانے کراگلے کسی ناخوش گوار سانحے کے لئے رختِ سفر باندھتے ہیں۔آفسوس اس بات کی نہیں کہ اس ساری تذبذب،ذہنی انتشار اور ارضی حقائق سے عدم واقفیت میں کم تعلیم یافتہ یا بے تعلیم پاکستانی ملوث ہے،بلکہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس عظیم فلسفہ وادب(سازشی نظریات) کی تخلیق وترویج میں متوسط طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ایسالگتاہے کہ ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی بلکہ خودرونمائی نے ہماری قوم کو ایسا”تہذیبی نرگسیت”کا مریض بنادیاہے جو اپنی نام نہاد عظمت اور بنی بنائی حسنِ ماضی کی اسیر بن کے رہ گئے ہیں۔اور یہ کہ ہر غیر روایتی بیانئے کواپنے خلاف گہری سازش تصورکرتے ہوئے ان سے متعلق جارحانہ اور متشددانہ ردِعمل پیش کرتے ہیں۔داغش کے آغاز وارتقاء کو سمجھنے کے لئے ہمیں سن 2002ء سے لیکر آج تک کے مشرقی وسطیٰ کی سیاسی اتارچڑھاؤ اور خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہرائی کے ساتھ تاریخی سیاق وسباق کے مطابق محققانہ اور عالمانہ انداز سے روشنی ڈالتے ہوئے ان چودہ برسوں کی سماجی،سیاسی،اقتصادی اور مذہبی مظاہر کا بغورِ خاص مطالعہ کئے جانے کی ضرورت ہے،کہ جس کی کوکھ سے اس ‘کالی آندھی’کا ظہور ہواجنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے بین الاقوامی برادری کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔داغش سے متعلق تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وباء کی پیدائش وافزائش میں امریکہ ویورپ کی مشرقی وسطیٰ کے سیاسی حالات پر غیر سنجیدہ اور حقائق سے عاری حکمتِ عملی اپنے مفادات کی خاطر اس خطے کے مستحکم ممالک جیسے عراق،لیبیا اور شام وغیرہ کے سیاسی وسماجی نظاموں کو تہس نہس کرنے کی وجہ ہے۔لیکن یہ کہنا کہ داغش کا اسلام اور مسلمانوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور یہ کہ امریکہ ویورپ نے اسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے خود تیار کرکے ان کی مالی معاونت کررہے ہیں میں شائد حقیقت نہ ہو۔اگر اس قسم کے مفروضے کسی دیسی بندے یا گاؤں کے کسی اناڑی دہقان یا ڈرائیور کی ہوتی تو ہم ہلکی مسکراہٹ کے بعد اس بات کو ٹال دیتے۔لیکن اس قسم کے خیالات ملک کے بہترین تعلیمی ادارے یعنی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہء ‘قدیم تہذیبوں’یعنی ارکیالوجی کے قابل طالب علم کے ہے تو یقیناَان کے خیالات کو پڑھنے اور پھر ان کا جواب لکھنابھی ضروری سمجھتا۔سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جذبات کے لگام گھوڑے پر بیٹھ کر سر پٹ دوڑکرننگے زمینی حقائق کو جھٹلانادانشمندی نہیں۔ہمیں کبوتر کی طرح حقائق سے آنکھیں موند لینے بلکہ آنکھیں بند کرنے کی بجائے گزشتہ پندرہ سوبرسوں کی تعصبات اور جنگ وجدل سے بھرپور خون آلود تاریخ کو ٹھنڈے دل ودماغ سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار ودولت کی ہوس میں ایکدوسرے کے خون سے ہولی کھیلنے کی روایات کوئی نئی نہیں بلکہ یہ پہلی نسل سے ورثے میں ہمیں ملی ہے۔ہماراالمیہ یہ ہے کہ اپنے آباء واجدادکے علمی ورثے کو تو کب کے دیس نکال چکے ہیں،البتہ ان کے نفرتوں سے بھرپور یادگاروں کو گزشتہ پندرہ سوسالوں سے گلے سے لگائے آرہے ہیں۔کیا ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جنگِ صفین اور پھر جنگِ جمل جسمیں مسلمانوں کی اولین نسل بلکہ عشرہ مبشرہ ایکدوسرے کی گردنین اڑارہے تھےاس کے پیچھے کونسی سازش کارفرماتھی؟میدانِ کربلامیں لگنے والی اس خونی سرکس کو کس نقطہء نظر سے دیکھیں گے،جبکہ اہلِ بیت رسولﷺ کے 72نہتے افراد کو ان کے اپنے ہم مذہبوں (خاندانِ بنو امیہ کے حکومت کی بنیادرکھنے والے یزیدغیر مسلم یا یہودی ونصرانی نہیں بلکہ کلمہ گومسلمان تھے)کی جانب سے پہلے دشتِ کربلا میں کئی دنوں تک پانی کی ایک ایک بوندوں کے لئے ترسایا گیاپھر ایک ایک کرکے انہیں ابدی نیند سلادی گئی،جبکہ محرم الحرام کی دس تاریخ کو نواسہء رسولامام حسین کو قتل/شہید کرکے انکے سرسے فٹ بال کھیلنے والوں سے متعلق ہمارے جذبات سے سرشار دوستون کاکیاخیال ہے؟اگر آج امریکہ وبرطانیہ،یہودوہنود مسلمانوں کولڑارہے ہیں تو انتہائی اخترام کے ساتھ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ خلیفہء چہارم پیغمبرِ اسلام کے چچا ذات بھائی اورداماد حضرت علی اور شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ کے درمیان صفین کے مقام پر لڑائی کروانے والے کیا کوئی تیسرافریق تھا؟ اس جنب میں ایک لاکھ 20ہزار مسلمان حضرت امیر معاویہ کے ساتھ جبکہ 90ہزارکا مسلمان لشکرخلیفہ چہارم حضرت علی کی قیادت میں میدان میں کود پڑے جبکہ مسلمان مورخین کے مطابق اس جنگ میں 70ہزار مسلمان ناکردہ گناہوں کے جرم میں لقمہء اجل بن گئے کیا خیال ہے کہ خلیفہ چہارم حضرت علی اور زوجہء رسول ام المومنین حضت عائشہ صدیقہ کے درمیان لڑی جانے والی جنگِ جمل میں کس کی سازش کارفرما تھی؟تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں سلطان محمود غزنوی سترہ مرتبہ ہندوستان پرحملے کرکے صرف سومنات کی مندرنہیں ڈھائی بلکہ ملتان ومنصورے(موجودہ سندھ)سے عرب مسلمانوں کی حکومت وتہذیب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے برباد کردیا،جبکہ آج ہم اسی محمودغزنوی کو بت شکن کے نام سے یاد کرتے ہیں۔حالانکہ یہی بت شکن ہندوستان اور وسطیٰ ایشیاء کے علاقوں پر اپنے حملوں کے لئے موسموں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے،اگرموسمِ بہارمیں ہندوستان کارخ کرتے تو موسمِ گرما میں وسطی ایشیائی مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے تھے۔غزنویوں کے بعدسلجوقیوں نے بھی ایران وشام کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی کیا وہ بھی امریکہ واسرائیل یا یورپ کی سازش تھی؟اگر اس دلیل کو چند ساعتوں کے لئے درست بھی تسلیم کیاجائے کہ داغش مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے امریکہ ویورپ کابنایاہواغیر اسلامی تنظیم ہے توپھر سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس غیر اسلامی تنظیم کی مالی معاونت سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور کویت کے امیرطبقات کیوں کررہے تھے؟اور اس غیر اسلامی تنظیم کی جانب کھینچے چلے جانے والے متوسط طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے بارے میں کیا خیال ہیں؟مشرقی وسطیٰ کے کیچڑ کو”تہذیبوں کا تصادم”سمجھنے کی بجائے اسے خطے میں امریکہ واسرائیل،روس سعودی عرب اورایران کے اقتصادی وعسکری مفادات کی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ تیل کی دولت سے مالامال اس خطے میں نہ صرف سپر پاؤر امریکہ اور متوقع نئے ابھرنے والی سپر پاؤر روس کے مفادات کا ٹکراؤجاری ہے بلکہ وہابی سلفی نظریات کے محافظ سعودی عرب اور اثناعشری شعیت کے داعی ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی گزشتہ کئی برسوں سے جاری باالفاظِ دیگر ایک جانب امریکہ ویورپ واسرائیل مشرقی وسطیٰ کی چودراہٹ سعودی عرب کے سپرد کرناچاہتے ہیں تو دوسری جانب چین وروس خطے کی سربراہی کافریضہ ایران کے حوالے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔یہی نظریاتی جنگ اس خطے کی تباہی وبربادی کا باعث رہاہے۔رہی داغش تو سن 2003ء میں جمہوری وشخصی آزادیوں کے خودساختہ محافظ امریکہ ویورپ نے اپنی گمراہ کن پالیسیوں اور صدام حسین کے مستحکم فوج وسویلین بیروکریسی اور سیاسی اداروں کوتباہ کردیاجس کی وجہ سے پہلے القاعدہ کووہاں پنپنے کا موقع ملاجوبالآخر البغدادی کی قیادت میں اس’کالی آندھی’یعنی داغش کے قیام میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔رہ گئی امریکہ ویورپ کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کے دعوے تو پھر اس سازشی نظریات کے پرچار کرنے والون کے منہ پر اس وقت طمانچہ لگاجب عراق،شام لیبیا،افغانستان اورپاکستان سے تقریباَ20لاکھ بے گوروکفن مسلمان تارکینِ وطن غیر قانونی طورپر یورپ پہنچ گئے۔اسلامی اخوت وبھائی چارگی کے دعوے دارامیرعرب ممالک نے اپنے دروازے ان لٹے پٹے مسلمانوں کے لئے بند کردیاتو اکیلے جرمنی نے دس لاکھ مہاجرین کو پناہ دے کر مسلمانوں کے خلاف سازش کے  مفروضوں کی دھجیاں بکھیر دی۔آخر میں اپنے مخترم دوست کی طویل تحریر سے یہ جملہ نقل کرنامناسب سمجھتاہوں”کاش امتِ مسلمہ دشمنوں کے چال کو سمجھتے ہوئے اپنی باہمی اختلافات بھول کراتحادویکجہتی کا مظاہرہ کرتے ایک مرتبہ پھر متحد ہوجائیں اور دنیا کا سپر پاؤر بن جائیں”۔لیکن تاریخ اور زمینی حقائق ایسی کسی اتفاق ویکجہتی اور اتحادِ امت کی مثالوں سے عاری سے پھربقولِ حضرت غالب کے

جب تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خداکیاہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں