297

بس دعا کریں…….تحریر:ڈاکٹرشاکرہ نندنی

ضروری سامان اور سبزی لینے کے بعد میری متلاشی نگاہیں بغیر سواری کے رکشہ کی تلاش میں تھیں، سامنے سڑک پر بہت سے رکشے آ جا رہے تھے، کچھ سواریوں کے انتظار میں رک جاتے کچھ مایوس ہوکر چل پڑتے، چند ایک اپنی ہی دھن میں مست چلتے چلے جاتے ایسے رکشے والوں پر مجھے ہمیشہ ہنسی آیا کرتی، بھلے آدمی تم رزق کی تلاش میں نکلے ہو اپنے آس پاس بھی دیکھ لیا کرو، تھوڑے انتظار کے بعد ایک رکشہ عین میرے قریب آکرر کا اور پوچھا ” کہاں جانا ہے ؟” میں نے گھر کا پتہ بتایا ۔

“اچھا سنو وہ سامنے سے سامان بھی رکھوانا ہے” میں نے رکشے پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔

اس نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا سر ہلایا اور رکشے کو مطلوبہ دوکان کے سامنے روک دیا ۔

سامان رکھنے کے بعد بولا ۔” دیکھ لیں پورا ہے”۔

میں نے سامان کا جائزہ لیا ۔ نظروں ہی نظروں میں تعداد کو پورا کیا اوراثبات میں سر ہلادیا ۔ رکشے والے نے کندھے پر پڑے رومال کو اتارا اس سے گرمی میں آئے پسینے کو صاف کیا رومال کو دوبارہ کندھے پر رکھا اور رکشہ چلا دیا ۔

میں نے ساتھ رکھے سامان پر مضبوطی سے ہاتھ جما دیا تاکہ وہ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بری طرح اچھلتے کودتے کہیں گر ہی نہ جائے، جیسے ہی کچھ بہتر سڑک آئی رکشے نے رفتار پکڑ لی اور صحیح معنوں میں ہوا سے باتیں کر نے لگا ۔ چونکہ ٹریفک بھی کچھ خاص نہیں تھی ۔ اس لئے اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ وہ ہارن پر ہارن دیتا اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا جارہا تھا ۔ میں نے اسے کچھ کہنا اور روکنا مناسب نہ سمجھا، بس ایک ہاتھ سے سامان اور دوسرے ہاتھ سے ساتھ بنے ڈنڈے پر اپنی گرفت مضبوط کر دی ۔  چونکہ مجھے خود بھی تھرل اور تیز رفتاری بہت پسندہے ۔اس لئے میں نے اسے رفتا ر آہستہ کرنے کو نا کہا، ایک عجیب سامزہ اور ایکسائیٹمنٹ ہوتی ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ساری دنیا کو شکست دے کر آپ آگے ہی آگے نکلتے جارہے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی آپ کچھ زیادہ ہی آگے نکل جاتے ہیں ۔ جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔

پچیس منٹ کا فاصلہ پلک جھپکتے میں ہی طے ہوگیا ۔

میں رکشے سے اتری گیٹ کا تالا کھولا اس دوران وہ بھی رکشے سے سامان اتار چکا تھا ۔جونہی اس کو پیسے دیئے ساتھ ہی بولا “دعا کریں”۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ میرے لئے اس کا یوں کہنا کچھ عجیب سا لگا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف پہلی بار غور سے دیکھا ۔ سانوالا رنگ دھوپ میں سیاہ ہورہا تھا ۔ آنکھوں میں عجیب طرح کی وحشت تھی ۔ اس کا چہرہ مسکینی صورت بنا میرے سامنے تھا ۔ جوکپڑے اس نے پہن رکھے تھے دھوپ اور پسینے کی وجہ سے اپنا اصل رنگ چھپاتے جارہے تھے ۔

“کیوں کیا ہوا خیریت ہے؟” میں نے تشویش سے پوچھا

” وہ گھر والے بیمار ہیں”  اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا

” کیا مطلب کون گھر والے ۔ کون بیمار ہے ؟ ” میں نے کچھ نا سمجھتے ہوئے دوبارہ پوچھا

” وہ جی میری بیوی بیمار ہے اس کے بچہ ہونے والا ہے۔ بڑا آپریشن ہوگا بہت خرچہ ہے ۔ بس جی آپ دعا کریں ۔” اتنا کہتے کہتے مجھے لگا کہ شاید وہ ابھی رو دے گا ۔

میں اس لمحہ عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوگئی ۔

پرس سے کچھ پیسے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔” اچھا اللہ فضل کرے گا ”

” اسپتال والوں کو بتایا” میں نے مزید جاننے کی کوشش کی ۔

“ہاں جی انہوں نے آدھا خرچہ کم کیا ہے” یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر مکمل اطمینان نہیں تھا ۔

میں خاموش ہوگئی ۔

” اس کی مدد کرنی چاہیے ” اچانک دل سے آواز آئی ۔

” نہیں ان کو عادت ہے مانگنے کی” دماغ نے تنبہیہ کی

” سب ایسے نہیں ہوتے ” دل نے جھنجھوڑا

” تمہیں کیا معلوم ضرورت مند بھی ہے یا نہیں” دماغ نے غصے سے ٹوکا ۔

” اگر پانچ سو ہزار دے دوں گی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا” دل نے سمجھایا

دل و دماغ کی لڑائی میں اچانک رکشہ سٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔

میں نے خیالات کو جھٹکا اور سامان سمیٹنے میں مصروف ہوگئی ۔

آج ایک دفعہ پھر رکشے کی تلاش میں تھی ۔

میں نے محسوس کیا رکشہ کی رفتار بہت کم ہے ۔ جیسے اسے مزید سواریاں لینے کوئی جلدی نہ ہو ۔ گھر کے پاس رکشہ رکا ۔ تالا کھول کے گیٹ کے اندر داخل ہوئی ۔ رکشے والے نے سامان اتارنے کے بعد پیسے لئے نظریں جھکاتے ہوئے تھکی تھکی آواز میں بولا ۔

” وہ جی ابھی پچھلے ہفتے میری بیوی اور بچے کا انتقال ہوگیا ہے”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں