238

دَم مست قلندر دے دھرنا۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

سچ تو یہی کہ ارضِ وطن میں دھرنوں کی ایسی ”رسمِ بَد“ چل نکلی ہے جس میں کسی کا بھلا نہیں ہوتا۔ جس کا جی چاہتا ہے دھرنے جیسا نامعقول ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔سیاستدانوں کے دھرنے تو کبھی کبھار نظر آتے ہیںالبتہ ہرشعبہ¿ زندگی میں دھرنوں کا رواج عام ہو چکا ہے۔ کبھی ڈاکٹر سڑکوں پر آلتی پالتی مارے نظر آتے ہیں تو کبھی پیرامیڈیکل سٹاف۔ کبھی کسان سڑکیں بند کرتے ہیں تو کبھی کلرک آتشِ شکم کی سیری کے لیے اونچے ایوانوں کے باہر بیٹھ رہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اگر کوئی مریض ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو لواحقین اُس کی لاش بیچ سڑک رکھ کر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ مخاصمت حکومت اور دھرنا دینے والوں کے درمیان ہوتی ہے لیکن پِستے ہیں بیچارے بے قصور عوام۔ اور تو اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور وکلاءبھی اِس سے مبرا نہیں۔ اُن کا بھی جب جی چاہتا ہے، سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اِس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دھرنا خواہ کوئی بھی دے، اُس کی مذمت کرنی چاہیے۔یہ بھی عین حقیقت کہ” لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“۔ جو بھی عنانِ حکومت سنبھالتا ہے، وہی اپنے آپ کو ہمہ مقتدر سمجھ کر مَن مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ الگ بات کہ بالآخر جھکنا بھی اُسی کو پڑتا ہے۔ اگر عوام کو تین روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھانے کی تلقین کی جائے، اگر 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرنے والے یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیں کہ عوام میں صبر نہیں، ابھی تو صرف 400 دن ہوئے ہیں تو پھر دھرنا تو بنتا ہے کہ عوام اب اتنے با شعور ہو چکے کہ اُنہیں کسی ”لولی پاپ“ پہ نہیں ٹرخایا جا سکتا۔ وہ دَور لَد چکا جب عوام کو غلام ابنِ غلام تصور کیا جاتا تھا۔ اب یہ سوچنا حکومت کا کام ہے کہ2018ءکے انتخابات میں صرف اڑھائی فیصد ووٹ لینے والا، انسانوں کا سمندر لے کر اسلام آباد میں براجمان کیسے ہو گیا؟۔
گلگت میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا ”سارے سیاسی یتیم جمع ہو گئے ہیں اور سیاست کا بارھواں کھلاڑی اُنہیں اُکسا رہا ہے کہ استعفےٰ لے کر جائے گا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ لبرل بلاول بھٹو زرداری بھی پہنچ گیا ہے۔ لبرل ازم اُسے چھو کر بھی نہیں گزرا۔ بلوچستان سے جے یو آئی کا مخالف محمودخاں اچکزئی بھی آیا ہوا ہے۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے عمران خاں نے تمہیں نہیں چھوڑنا۔ چاہے حکومت چلی جائے، تمہیں جیلوں میں ڈالنا ہے“۔ دست بستہ عرض ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بارھویں کھلاڑی نہیںبلکہ سیاسی کھیل کے کپتان ہیں۔ وہ تو اُس وقت سے سیاست میں ہیں جب وزیرِاعظم خود کرکٹ کے بارھویں کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن پارلیمنٹ میںقائدِحزبِ اختلاف رہ چکے، خیبر پختونخوا حکومت کے بلاشرکتِ غیرے مالک اور بلوچستان حکومت میں اتحادی بھی اُن کی جے یو آئی ہی تھی۔ سیاسی پیچیدگیوں کو جتنا مولانا صاحب سمجھتے ہیں، کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ اُنہوں نے آزادی مارچ کی صورت میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندراسلام آباد میں لا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ جو کہتے ہیں، کرکے بھی دکھاتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ یہ تو مکافاتِ عمل ہے۔ کل انوکھے لاڈلے کپتان صاحب کھیلن کو چاند مانگتے تھے حالانکہ اُن کے پاس کوئی پلان ہی نہیں تھا۔ اِسی لیے 126 روزہ دھرنا بھی اُن کے کام نہ آیا۔ دوسری دفعہ اُنہوں نے پھر دھرنے کی کوشش کی تو نوازلیگ کی حکومت نے اُنہیں بنی گالہ ہی سے باہر نہیں نکلنے دیااور وہ وہیں ”پُش اَپس“ لگاتے رہ گئے۔ خیبر پختونخوا سے اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک بڑے دھوم دھڑکے سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے لیکن برہان انٹرچینج پر ہی اُن کی ریلی کو ایسی ”گیدڑکُٹ“ لگی کہ وہ واپس ”دُڑکی“ لگا گئے۔ اگر پانامہ کا ہنگامہ نہ ہوتا تو کپتان آج بھی چراغِ رُخِ زیبا لے کر ”شیروانی“ ڈھونڈتے پھرتے۔
دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن بڑی شان سے کراچی سے نکلے اور پانچ روزہ سفر کے بعد عوام کا جمِ غفیر لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ اسلام آباد میں ایسا اجتماع پہلے کبھی کسی نے دیکھا اور شایدنہ آئندہ دیکھ سکے گا۔ ہزاروں گاڑیوں اور لاکھوں انسانوں کے ساتھ اتنے طویل سفر میں کوئی پتہ ہلا، نہ گملا ٹوٹا۔ یہی نہیں بلکہ مولانا کے ہمراہی اتنے منظم تھے کہ سڑکیں بند ہوئیں نہ ایمبولینسز رُکیں۔ کیا مولانا کے آزادی مارچ اور ”سیاسی کزنز“ کے دھرنے کا کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے؟۔ سیاسی کزنز تو امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے انتظار میں تھک بلکہ ”ہَپھ“ گئے اور بالآخر مولانا اپنا ”پاندان“ اُٹھا کراپنے دیس سدھارے البتہ ضدی اور ہَٹ دھرم کپتان 126 روز تک ڈٹا رہا۔ اُس وقت دھرنے کی حالت یہ تھی کہ جتنے لوگ کنٹینر پر کھڑے ہوتے، لگ بھگ اُتنے ہی سامعین ہوتے۔ اُس دھرنے میں صرف ڈی جے بٹ ہی کا بِل کروڑوں روپے بنا(بعد ازاں بِل کی ادائیگی پر پھڈا بھی پڑا)۔ اگر کپتان کو سانحہ اے پی ایس کا بہانہ نہ ملتا تو اُن کے لیے فرار کی کوئی راہ ہی نہیں تھی۔
وزیرِاعظم نے فرمایا ہے ”لبرل بلاول بھٹو زرداری بھی پہنچ گیااور جے یو آئی کا شدید مخالف اچکزئی بھی“۔ ہم مولانا کی اِسی خوبی کے تو معترف ہیں۔ پتہ نہیں اُن کے پاس کون سی ”گیدڑسنگھی“ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا حصّہ رہے اور نوازلیگ کی حکومت کا بھی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو مشرفی دَورِ آمریت میں قومی اسمبلی میں قائدِحزبِ اختلاف بھی تھے۔ اُن کی یہی خوبی ایک دفعہ پھر کام آئی اور لبرل بلاول مولانا کے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ بلاول کی موجودگی میں ہی مولانا نے مذہب کارڈ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب تو آئین کا حصّہ ہے، اُنہیں مذہب کارڈ کا طعنہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ ویسے حیرت ہے کہ ”لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ ونام ہے“۔ پہلی بات تو یہ کہ تحریکِ انصاف بھان متی کا ایسا کنبہ ہے جس میں سارے ”پنچھی“ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے (ہمیں یقین کہ بادِمخالف چلنے پر سبھی ”پھُر“ ہو جائیں گے)۔ دوسری بات یہ کہ کپتان ماضی میں جن کے خلاف آگ اُگلتے رہے، آج وہی اُن کے اتحادی ہیں۔ کپتان نے تو سینٹ کے انتخاب میں پیپلزپارٹی سے بھی ہاتھ ملاتے ہوئے اُس کے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ جسے وہ چوکیدار تک رکھنے کو تیار نہ تھے، آج وہ اُن کی کابینہ کا وزیرِریلوے ہے؟۔ جس ایم کیو ایم کے خلاف وہ ثبوت اکٹھے کرتے رہتے تھے، آج وہی اُن کی کابینہ کا قابلِ ذکر حصّہ ہے۔ جنہیں چور اور ڈاکو قرار دیتے کپتان کی زبان نہیں تھکتی تھی، آج اُنہیں مرکز میں وزارتوں اور پنجاب کی سپیکرشپ سے نوازا گیا ہے۔ پھر اُنہیں بلاول اور محمود اچکزئی کے مولانا کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی وزیرِاعظم کے نزدیک یہ ”سیاسی یتیموں“ کا اجتماع ہے اِس لیے اُن سے کیا ڈرنا۔
تحریکِ انصاف کے طویل دھرنے کے ایام میں ہم نے متعدد بار مکافاتِ عمل کا ذکر کیااور لکھا کہ عمران نیازی آج جو بول رہا ہے، کل وہی کاٹنا پڑے گا لیکن تب طاقت کا نشہ سَر چڑھ کے بول رہا تھااور امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا زعم بھی لیکن امپائر نے تو ایک لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کا حکم دیا تھاجبکہ تحریکِ انصاف کے ہمراہ پانچ ہزار کا مجمع بھی نہیں تھا۔ اگر عمران نیازی کا سیاسی کزن مولانا کینیڈوی پچیس، تیس ہزار اپنے سکولوں کے اساتذہ، اُن کے خاندان اور مریدین کے ساتھ اسلام آباد نہ پہنچتا تو عمران نیازی کا احتجاج اُسی دن ”ٹائیں ٹائیں فِش“ ہو جاتا۔ تحریکِ انصاف اور مولانا کینیڈوی، دونوں نے اُس وقت کے وزیرِداخلہ چودھری نثار کو لکھ کر دیا تھا کہ وہ ڈی چوک میں داخل نہیں ہوںگے لیکن محض تین دنوں بعد ہی وہ ڈی چوک میں داخل ہوگئے اور پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ ہے۔
آج مولانا فضل الرحمٰن تحریکِ انصاف کے دھرنے سے کئی گُنا بڑا مجمع لے کر پشاور موڑ پہنچ چکے۔ اُنہوں نے وزیرِاعظم کو مستعفی ہونے کا صرف 2 دن کا وقت دیا ہے۔ ڈی چوک بھی اُن سے دور نہیں۔ اگر اُنہوں نے لاکھوں انسانوں کے سمندر کو ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کا حکم دے دیا تو پھر وہ ”دمادم مست قلندر“ ہوگا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا ہو گا کہ اِس سَیلِ بے پناہ کے آگے ہر رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہوگی۔ رہی پاک آرمی کی بات تو فوج اپنوں پہ کبھی گولی نہیں چلایا کرتی۔ محترم چیف آف آرمی سٹاف گہری نظر سے حالات کامشاہدہ کر رہے ہیں۔ اُنہیں ایک قدم آگے بڑھ کر مفاہمت کی کوئی راہ ڈھونڈنی ہوگی۔ ہمیں یہ یقین کہ وزیرِاعظم کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے اور مولانا فضل الرحمٰن کچھ نہ کچھ حاصل کیے بغیر لوٹنے والے نہیں۔ چیف صاحب یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عمران نیازی کے دھرنے اور مولانافضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خاں کے ساتھ وہ غیرملکی شہری تھا جس نے 2018ءکے انتخابات میں حصّہ ہی نہیں لیا تھا جب کہ اُس وقت میاں نوازشریف کے ساتھ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کندھے سے کندھا ملائے کھڑی تھیں۔ آج صورتِ حال یکسر اُلٹ۔ آج ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اور مہنگائی کا مارا سیلِ تُندخو ہر شے کو خس وخاشاک کی طرح بہا دینے کو تیار۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں