294

اس ملک پر ایک احسان کرو….. ،تحریر: ناہید سیف ایڈوکیٹ

دونوں باڈرز پر ملکی حالات تشویشناک ہے کشمیر کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے مودی سرکار نے اپنی جنتا سے بھاری اکثریت لے لی سلوگن یہی تھا کہ کشمیر کی الگ شناخت ختم کر دی جائے گی اور پاکستان کو سبق سیکھایا جا ئے گا ادھورا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا اور زبردستی سے کسی کو محکوم کبھی بنایا نہیں جا سکتا مسلمانوں کی تاریخ ہی یہی ہے کہ وہ جہاں بھی رہے کبھی غلامی قبول نہیں کی یہی وجہ ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی قوم اور 50 سے زائد ملکوں میں ان کی حکومت ہے یہ غلامی کے خلاف ہے اور ان کی مذہب کا فلسفہ علاقہ قوم ملک نہیں بلکہ مسلم امہ ہے، اس لیے وہ غیر مسلم ممالک کے لیے دوست اور مسلم ممالک کے لیے برادر اسلامی ملک کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس کے برعکس سارے ہندو بھارت میں جمع ہیں یہی ایک ملک ہے اگر کچھ ہو گیا تو ملک کے ساتھ دھرم کا رکھوالا بھی کوئی نہیں بچے گا،خیر یہ ایک الگ بحث ہے، دشمن مشرقی اور مغربی باڈر پہ منہ پھیلا کہ کھڑا ہے کہ کسی طرح اس ملک میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جائے اور اس کی ڈوبتی معیشت کو اور بھی دھچکا لگے اس صورتحال میں مولانا صاحب سیاسی افراتفری پھیلانے اپنے لائو لشکر کے ساتھ اسلام آباد داخل ہو چکے ہیں اس الیکشن میں ہار اور پھر دس سال بعد اقتدار سے دوری مولانا صاحب کو چین سے بھیٹے ہی نہیں دے رہی ،آزادی مارچ کی وجہ ابھی تک کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ کس وجہ سے ہو رہی ہے عوام نے تو ان سے آزادی کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا تھا، کیا ہی اچھا ہوتا اگر مولانا صاحب سکھر سے سیدھا کراچی جاتے کسی زمانے میں روشنیوں کے شہر کے نام سے مشہور اس شہر کی اب شناخت کچرا ہے جہاں چوہوں جتنے سائز کے مچھر مکھی آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنے اور خون چوسنے کے لیے آئو بھگت کر رہے ہوتےہیں کچرا کنڈی میں تبدیل ہونے والے کسی زمانے میں روشنیوں کے اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں اور شاید یہ اس شہر کے باسیوں کی سزا بھی ہے جن کو الیکشن میں کراچی کو دنیا کے صاف ستھرے شہر میں لانے والے مصطفے کمال اور دنیا کے گندی ترین شہر میں نام لانے والوں میں فرق نظر نہیں آیا، دس سالوں سے مسلسل حکومت کرنے والے جمہوریت کے چمپئن اور پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کے سربراہ کے اس صوبے میں کتے کے ویکسین نہ ملنے پر بلک بلک کر ماں کی گود میں موت کا گھونٹ پینے والا وہ بچہ اور غلط انجکشن سے موت کی اغوش میں چلے جانے والے سینکڑوں نشوا وہاں کی صحت کے ناقص انتظامات کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور زرداری کی بہن وہاں ہیلتھ منسٹر ہیں اتنی بدترین بیڈ گورنس شاید پاکستان کے کسی صوبے میں ہو ، کندگی کے ڈھیر زدہ لیاری کے بعد اب ایڈ زدہ لاڑکانہ نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا کہ بٹھو کے نام پر کالک ملنے والوں کا اب ان علاقوں میں کوئی کنجائش نہیں اب بات ہو گی کارکردگی پر ،بھٹو صاحب نے عوام کے لیے جو کچھ کیا تھا عوام نے سود سمیت انہیں وہ واپس کر دیا کہ ان کے داماد تک کو بھی صدر بنا دیا جن کی عوام تو دور کی بات بٹھو کے اپنے جیالوں نے کبھی پزیرائی نہیں دی نہ کبھی دل سے قبول کیا جن کی تقریر بلاول ہائوس بنانے اور الیکٹیبل سے آگے جا کہ کبھی کارکن تک نہیں پہنچی وڈیرہ ذہنیت رکھنے والے زرداری صاحب اپنے دور اقتدار میں بھٹو کے غریب کارکن کو تو کبھی نہیں پوچھا البتہ الیٹیبلز کو خوب نوازا اور اسطرح اپنی مفاہمتی سیاست 5 سال کی اقتدار کے لیے بھٹو کی پارٹی کو بھلی چڑھا دیا ،تو اب بٹھو کے نام کا غلط استعمال کرنے والوں کو عوام حلقوں کے بعد گھروں سے بھی چلتا کر رہے ہیں تو میں بات کر رہی تھی کہ مولانا صاحب کو چاہیے تھا کہ اس آزادی مارچ کا آغاز کراچی سے کر کے آتے اور وہاں کی نقیب آللہ سمیت کتنوں کی بے دردی سے پولیس کے ہاتھوں موت سمیت سیلیکٹڈ حکومت کی ناکامیوں کو بھی ایک مذہبی رہنما کی حیثیت سے سچائی کے ساتھ عوام کے سامنے لاتے تو بندہ یقین بھی کر لیتا کہ واقعی ان کی نیت ٹھیک ہے اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ کبھی بھی اس ملک کو صحیح لیڈر نہیں ملے جس نے کچھ کیا بھی ہے وہ اس ملک پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر،اپنی قابلیت اور اہلیت کبھی نہیں دیکھائی ترکی کا طیب اردگان 3 سال کے اندر ملک کونہ صرف قرضوں کے بوجھ سے آزاد کیا بلکہ اب وہ اقوام متحدہ کو ڈونیشن دیتا ہے اس طرح ڈاکٹرعلی احمد ابی نے اپنے قرضوں سے جکھڑے ملک کو اپنی صلاحیت اور دانشمندی سے قرضوں کے بوجھ سے نکال دیا ،ہمارے ملک میں سیاست کو کچھ لوگوں نےمال کمانے کا ذریعہ بنا دیا اور ملک کو دیوانہ ،جب بڑے لیڈروں کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ سیاست میں اصول کو مقدم سمجھتے تھے چاہئے وہ جناح صاحب ہو یا گاندھی جی اصول ان کی سیاست کا محور تھا ہمارے ملک کے سیاست دان کے اصول ان کے ذاتی مفادات ہیں ملکی مفادات سے لے کہ ملکی ادارے ان کے مفادات کے گرد گھومتے ہیں جب انکا دل کرے خود کو اسٹیبلش کرنے کے لیے اداروں کا سہارا لے جب دل کرے ان پہ لعن طعن شروع کرے اس ملک کی ترقی کا راز کرپشن فری پاکستان ہے جب تک کرپٹ لوگ اس ملک کی سیاست میں رہیں گے اس ملک کی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ہیں وہ بابائے قوم کی تو ہین کر رہے ہیں جب ان سے کہا گیا کہ اپنے علاج کے لیے باہر چلے چاہیے تو قائداعظم نے فرمایا میرا نیا ملک یہ ایفورڈ نہیں کر سکتا جن کی بیماری ہی اس ملک کو آزاد کرنے کے لیے ان تھک کوشش کی وجہ سے ہوئی تھی وہ یہ کہہ رہے ہیں اب ان کے ملک کے ساتھ یہ معاشی دہشت گرد جو کھڑوار کر رہے ہیں ،وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہئے، پتہ نہیں یہ کہاں سے ائے اور ہمارے اوپر مسلط کر دیئے گئے جو ہمارے ووٹ کی بھیگ مانگ کر ہمارے ساتھ غلط کرتے گئے جو ووٹ سے اتا ہے وہ بادشاہت کرنے نہیں اتا وہ عوام کا غلام بنے اتا ہے جو فتح کر کے اتا ہے وہ بادشاہت کے لیے اتا ہے یہ بات یاد رکھنی چاہیے ،مولانا کی حلیف جماعت کی حکومت میں ناموس رسالت پر جب ڈھاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اس وقت ایک لفظ بھی ان کی زبان سے نہیں نکلا آج آزادی مارچ کے کنٹینر میں ان کے ساتھ مل کر وہ ناموس رسالت پر جب تقریر کر رہے ہوتے ہیں تو بات بڑی مضحکہ خیز لگتی ہے،اور جب یہ ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں تو اور بھی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ ان کے جماعت کے اندر ذرا جھانک کہ دیکھے پیاز کے چلکھوں کی طرح ان کے منافقانہ رویے اور جمہوریت پر لگی کاری ضربیں تہہ در تہہ کھلتی نظر آئیں گی چالیس سال سے پنتیس سال سے وہی خاندان کا پرپوتا پر پوتی آپ کو نظر آئیں گے جن کے باپ دادا 1970ء سے اس پارٹی میں تھا یہی قابلیت ہے اور یہی میرٹ، موروثیت کی یہ برترین شکل آمریت کی پیداوار آمریت کے پیروکار ذہنیت کی عکاس ہے جو ملک کو کھا گئی اس موروثیت کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کو میں بار بار کہوں گی کہ کسی کو بھی دو سے زیادہ بار ممبر نہ بننے دے کہ ہر دفعہ اسمبلی کا ممبر بننا ان کی جاگیر اور ان کی موروثی سیٹ ہر گز نہیں اگر وہ کسی پارٹی کے ساتھ اتنے مخلص ہیں تو ویسے بھی بغیر ٹکٹ کے کسی اور کے لیے کام کر کے اپنی وفاداری ثابت کرے ورنہ مل کہ ان کو ہرا دے ، پرانی سیاسی پارٹیز کا مسئلہ یہ ہے کہ انکا اسٹیبلشمنٹ والا چورن اب ایکسپائر ہوچکا ہے امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی پالیسز پینٹاگون کی اجازت کے بغیر نہیں بن سکتی توحرج ہی کیا ہے ویسے بھی ملک کی بہتری کے لیے سارے اداروں کو مل کہ کام کرنا چاہیے ،لوگ کو پتہ چل چکا ہے کہ یہ مفاد پرست لوگوں کا نہ کوئی دین ایمان ہے نہ ہی اصول ،ان کو تکلیف اس بات کی ہے کہ یہ اکھٹے مل بیٹھ کہ مزے سے کھا رہے تھے ایک تیسرا بندہ لوگوں ۔میں شعور جگانے کیوں آگیا کیونکہ ان کو یقین تھا کہ وہ اس عوام کو بےوقوف بنا کر اس ملک کو لوٹتے رہیں گے اور سارے ملکوں میں اپنی دولت جمع کر کہ دس روپے کے ٹماٹر اور پندرہ روپے کے آلو سے اس قوم کو ٹرخا دینگے پر ایسا ہوا نہیں اس ملک کے باشعور عوام نے انکا چورن ان کے منہ پر دے مارا اور اس ملک کو اس مافیا سے آدھا تو نکال لیا پر ابھی بھی ان کے کچھ چیلے مختلف اداروں پر بھیٹے ہوئے ان کے ادھورے کام مکمل کرنے اور اس حکومت کو ناکام اور بدنام کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت بلکہ ورکرز کو ان کرپٹ مافیاز سے خبردار رہنے کئ ضرورت ہیں کے پی کے میں کچھ محکموں میں ڈنکے کی چوٹ پر چھوٹے لیول کی ملازمتوں کے لیے رشوتیں مانگی جا رہی ہے اور یہ عام سی بات ہو گئی ہے ایسے کرپٹ عناصر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں موجودہ حکومت کا جو ایک امیج ہے وہ متاثر نہ ہو ، اس امیج کو برقرار رکھنے میں ہم سب نے اس حکومت کا ساتھ دیا ہے مجھے یاد ہے پچلے سال ایک تقریب میں ایک امریکن پولیٹیکل افسر نے مجھ سے پی ٹی آئی کی جیت کی وجہ پوچھی تھی تو میں نے کے پی کے میں ان کی میرٹ سسٹم پولیسنگ میں بہتری، اور کرپشن پر کافی حد تک قابو پانے کی وجہ بتائی اور یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے تو وہ کافی متاثر نظر ائے ، ایک محب وطن پاکستانی کی طرح مجھے بھی اچھا لگتا ہے جب میرا وزیر اعظم باہر جا کر نہ صرف میرا ملک بلکہ میرے مذہب کا بھی صحیح تشخص اجاگر کرتا ہے بے لاگ اور بہادری سے بات کرتا ہے لوگ توجہ سے ان کی بات سنتے ہیں اچھا لگتا ہے جب ان کے آگے پیچھے خاندان اور دوستوں اور صحافیوں کی فوج نہیں ہوتی جن کو صرف اس وجہ سے میرے ملک کے پیسوں سے نواز دیا جاتا تھا کہ وہ میڈیا میں انکی حکومت کی تعریف کریں گے اور ان صحافیوں کے سیر سپاٹے اور شاپنگ ہمارے ملک کے خزانے سے ادا ہوتی تھی اب وہ صحافی عمران خان کو کیسے برداشت کرے جنکا حج بھی سرکاری خرچ سے ہوتا تھا مجھے لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم اس ملک کے لیے درد دل رکھتے ہیں وہ آپنے خاندان کو یا چند لوگوں کو نہیں نواز رہے بلکہ کم سے کم اخراجات اور اس ملک پر کم سے کم بوجھ ڈالنا چاہ رہے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم ہو اور ملک کی عزت ہو بین لاقوامی سطح پر ہمیں کوئی چھپ نہ کرائے کہ تمہارے ملک کی معیشت خراب ہے ان سب کے لیے یہ ضروری ہے کہ آزمائے ہوئے کو آزمائے وقت یہ حدیث ذہن میں رکھے کہ مسلمان ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا،چالیس چالیس سال اور پنتیس پنتیس سال اس ملک کےسرخ سفید کے مالک رہنے والے مافیا سے اگر آپ یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ دوبارہ ا کر آپ کے لیے آپ کے ملک کے لیے کچھ کریں گے تو آپ کی یہ بھول بھی ہے اور آپ بےوقوف بھی ہو ان کے گھر باہر ان کی آولادیں باہر ، وقت ا نے پر باہر کی نیشنیلٹی، اقامہ ہولڈر آنکھیں کھولنے کے لیے یہ کافی ہیں مولانا صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ ن لیگ کے پنتیس سالہ اقتدار جو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کی مرہوں منت تھی اس کو بھی جائز، ناجائز کا کوئی نام دیتے ،پی پی پی کی بلوچستان حکومت کے خاتمے میں جو کردار ادا کیا سینٹ الیکشن کی خرید،فروخت کو بھی کوئی نام دیتے اور تو اور سنجرانی کیسے دوبارہ منتخب ہوئی ان کے جو کردار تھے جو اپوزیشن کو سبکی ہوئی ان کو بھی کوئی نام دیتے خود مشرف صاحب کے ساتھ کے پی کے میں جو حکومت کی تھی مولانا نے اس پہ بھی کچھ فتوی دیتے اور پھر دس سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کوئی کارنامہ بتاتے، لیکن نہیں کیونکہ یہ بات لکھ لیں اگر آج ہی طاقتور ادارے انہیں کہیں کہ عمران خان کی حکومت ختم کرتے ہیں تو ان کو اداروں سے کوئی شکایت نہیں ہو گی نواز شریف کو کہے کہ آپ کو کچھ حصہ دیا جائیگا تو ایسے ہاتھ ملائیں کہ کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو زرداری سے کہے کہ اپ کو چند ایک وزارتین دی جائیں گی تو رات ہی جی ایچ کیو کے گیٹ پہ جا کہ بیٹھ جائے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جمہوریت کا چورن ان چیزوں کی مار ہے ،عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑاچیلنچ مہنگائی ہے جس نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے مولانا صاحب کو شہہ بھی اسی وجہ سے ہی ملی ہے ورنہ شاید وہ نو جماعتوں کے ساتھ بھی لوگ جمع نہ کر پاتے، ایک سال اور چند ماہ کی حکومت سے استعفی لینے پر بضد مولانا کو مہنگائی سے کچھ لینا دینا ہو نہ ہو پر عوام جو پس رہی ہے وہ اپنا ری ایکشن کسی نہ کسی صورت میں ظاہر تو کرے گی اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کو سب سے پہلے مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،عمران خان کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ان کے سامنے دشمن اخلاقی پستی کا شکار ،بے ایمانی اور کرپشن میں لت پت ہے جن کو چپ کرانے کے لیے اتنے کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ کرپٹ لوگ ،آگے سے یہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہتے ، خان صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ سارے ملک کو لے کہ چل رہے ہیں چاہے وہاں سے انہیں ووٹ ملے ہو یا نہ ملے ہو عوام کی سہولت کے لیے وہ نئے ضلع بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کے مسائل آسانی سے حل ہو سکے ان کی سوچ چھوٹی نہیں کہ یہاں سے چار ووٹ ملے ہیں تو کچھ کر لیے تاکہ وہ کم نہ پڑے وہ باہر جب جاتے ہیں یا ملک میں جب کوئی معزز مہمان آتے ہیں تو سیاحت کا ذکر کر کے اس ملک کے دورافتادہ علاقوں کے اونچے پہاڑوں کو کبھی نہیں بھولتے بہت ہی خوبصورت انداز میں ان کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں جب ہزہائنس تشریف لائے جب سیاحت کی بات ہوئی ہزہائنس نے کہا کہ سعودی عرب سیاحت میں اتنے زیادہ آگے ہیں تو خان صاحب نے کہا کہ آپ زیادہ وقت کے لیے آئیں میں اپ کو لے کر شمالی علاقہ جات جائو نگا وہاں اونچے پہاڑ ہیں اور سیاحت کے لیے بہترین لوکیشن ہیں ،اور یہ کہہ کہ مہمانوں کو ہنسایا اور سیاحت میں سعودیہ آگے ہو گا لیکن اونچے پہاڑوں میں ہم آگے ہیں ، اسی طرح سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بھی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھا اقدام ہے اور پہلے بدقسمتی سے اس طرف سنجیدگی سے کسی کی توجہ نہیں گئی ،اس ملک کی معاشی بہتری ہی اس ملک کا مستقبل ہے افسوس کی بات ہے ہم سے جدا ہوا ملک بنگلہ دیش بھارت سے بھی معیشت میں آگے ہیں جہاں کی ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر خاتون وزیراعظم ہیں ان نے بھی سب سے پہلے کرپٹ مافیا کو اندر گیا اور معیشت پر توجہ دی ،مولانا اس ملک کی معیشت دوبارہ الیکشن کے متحمل نہیں ہو سکتا جو خرچہ الیکشن پہ آتا ہے وہ اگر آپ کے دوست سابقہ حکمران جو قرضے اس ملک پر چڑھائے ہیں ان کے سود ادا کیا جائے تو کیا اچھا نہیں ہے آپ سے اور آپ کے آگے پیچھے کھڑے ہونے والے سابقہ حکمرانوں سے اس ملک کے عوام کی طرف سے ایک گزارش ہے کہ اس ملک سے بہت کمایا کھایا اب خدارا اس ملک پر ایک احسان کرو کہ اس ملک پر کوئی احسان نہ کرو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں