259

پی ٹی آئی کاانٹراپارٹی الیکشن مگر۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

تحریک انصاف ملک میں تبدیلی لانے کی علمبردارسیاسی جماعت ہے جوویسے توعمران خان کی قیادت میں پچھلے لگ بھگ دودہائیوں سے سیاسی دوڑ دھوپ کرتی چلی آرہی ہے تاہم گزشتہ چارپانچ سالوں کے دوران تحریک انصاف کوغیرمعمولی عوامی پذیرائی ملی ہے جس میں عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگررہنماؤں کی محنت کوبلاشبہ رد نہیں کیاجاسکتاتاہم اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہے کہ عوام اس فرسودہ نظام سے تنگ آچکے ہیں جس نے اداروں کوکھوکھلاکردیاہے ،جس میں انصاف کاملنا ناپید ہوچکاہے، جس میں میرٹ کی دھجیاں سرعام اڑائی جاتی ہیں، جس میں غریب غریب تر اور امیر امیرتر بنتاجارہاہے،جس میں وی آئی پی کلچرقیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کاسبب بن رہاہے،جس میں قومی خزانے کودونوں ہاتھوں سے لوٹاجاتاہے اورجس میں طبقاتی تقسیم کے باعث غریب عوام گھمبیرمعاشرتی مسائل اور سنگین مشکلات سے دوچار اور زندگی کے بنیادی ضروریات کی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔اور انہی عوامل کوبنیاد بناکر عوام نے نہ صرف پچھلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کوخاطرخواہ کامیابی سے ہمکنارکیاتھابلکہ ضمنی اوربلدیاتی انتخابات میں بھی اس کاواضح عکس دکھائی دیتارہاہے ۔ بہرحال یہ دیکھنا دلچسپ اور اہمیت کاحامل ہوگاکہ ملک بھر میں تبدیلی لانے کی علمبرداراور خواہاں تحریک انصاف کی اندرونی صورتحال کیاہے کیونکہ جائزہ لیاجائے توعام انتخابات 2013 سے قبل بھی پی ٹی آئی کاانٹراپارٹی الیکشن ہواتھاجس کے شفاف ہونے کے دعوے تو بہت کئے جارہے تھے مگربعد میں زمینی حقائق کچھ اور سامنے آئے تھے جوضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی،واضح گروپ بندی،مالی اور سیاسی لحاظ سے انتخابی عمل پر اثراندازہونے سے متعلق تھے اورجھوٹ یاسچ پر مبنی یہ الزامات مخالفین نہیں لگارہے تھے بلکہ یہ ساری باتیں پی ٹی آئی کے اندرون خانہ زبان زد عام تھیں اورمذکورہ انٹراپارٹی الیکشن میں مبینہ دھاندلی اور بے ضابطگی و بے قاعدگی کی تحقیقات کے لئے جسٹس (ر) وجیہ الدین کی سربراہی میں جوکمیشن تشکیل دیاگیاتھااس میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کابھی تعین کیاگیاتھا مذکورہ رپورٹ پر پارٹی کے چیئرمین کاردعمل کیاسامنے آیاتھااور کیاکچھ ہواتھاجسٹس (ر)وجیہ الدین کے ساتھ وہ ایک الگ کہانی ہے جوکسی سے ڈھکی چھپی نہیں تاہم اب ایک بارپھرچیئرمین اور مالیاتی امور سمیت ایک اور عہدے کواستثنیٰ دے کر15 جنوری سے پاکستان تحریک انصاف کے ملک بھر کے تمام تنظیمی عہدوں بشمول کسی بھی ونگ کوتحلیل کرکے اگلے انٹراپارٹی الیکشن کے لئے ممبران کے رجسٹریشن کے عمل کاباقاعدہ آغازکردیاگیاہے اور پی ٹی آئی کی قیادت کاکہنایہ ہے کہ یہ سب کچھ جسٹس(ر) وجیہ الدین کی رپورٹ کی روشنی میں کیاجارہاہے ۔تسنیم نورانی کومرکزی الیکشن کمشنر مقرر کیاگیاہے جبکہ رجسٹریشن کا عمل بذریعہ سم کچھ یوں ہے کہ کوئی بھی ممبراپنانام اورقومی شناختی کارڈکانمبر پارٹی کے الیکشن کمیشن کی جانب سے دیئے گئے مخصوص نمبر پر بذریعہ ایس ایم ایس بھیج کر انٹراپارٹی کے انتخابی عمل میں شریک ہونے کااہل ہوگا۔اگرچہ انٹراپارٹی الیکشن کے لئے پی ٹی آئی کی جانب سے تاریخ تومقررنہیں کی گئی ہے تاہم بعض ذرائع مطابق تین مرحلوں پرمشتمل اس الیکشن کا ممکنہ طورپر 25اپریل سے آغازہوگااورپہلے مرحلے میں خیبرپختونخوامیں جبکہ بسلسلہ دیگرصوبوں میں یہ عمل پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔اب کی بار ضابطہ اخلاق کیاہوگااور اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے کیا حکمت عملی سامنے آئے گی یہ تورجسٹریشن کاعمل پوراہونے کے بعد ہی پتہ چلے گاتاہم رجسٹریشن کاعمل بھی مبہم سادکھائی دیتاہے کیونکہ کسی بھی شخص کے نام سے رجسٹرڈ سم سے کوئی بھی بندہ اپنے کوائف بھیج سکتاہے اور اگر کسی کے پاس ایک سے زائد رجسٹرڈ فون سمزہوتووہ کئی لوگوں کے کوائف بھیج کرانہیں انتخابی عمل میں شریک بناسکتاہے چاہے اس کاتعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہومگروضع کردہ قواعد کے مطابق بحیثیت ممبروہ من پسند امیدوار کوووٹ دینے کاحقدارہوگا ایسے میں یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ یہ رجسٹرڈووٹ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن میں تونظرآئے گامگرعام اوربلدیاتی انتخابات میں اس کاکوئی وجود دکھائی نہیں دے گاجیساکہ پچھلے عام اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں یہ حقیقت واضح طورپر سامنے آئی ہے کہ پی ٹی آئی وہ ووٹ حاصل کرنے سے قاصررہی جوانٹراپارٹی الیکشن میں رجسٹرڈ ممبرشپ کے لحاظ سے اس کا ووٹ بینک تھا۔ذرائع کے مطابق پارٹی نے انٹراپارٹی الیکشن کے لئے ضلع کی سطح پر الیکشن کوارڈینیٹراور دوممبران کی تعیناتی عمل میں لائی ہے جواس عمل کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں ذمہ دارکردار اداکریں گے اور یہ بھی پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے شفافیت پر مبنی اقدامات کاحصہ ہے مگر اس کے باوجودانتخابی امیدوار الیکشن کس طرح لڑیں گے،کس امیدوار نے کتناووٹ لیااورووٹوں کی دوبارہ گنتی کاعمل کیاہوگایہ ابھی تک واضح نہیں ہے جب کہ اگرموبائل فون سم کے ذریعے ووٹ کااستعمال ہوتواس امر کو کس طرح یقینی بنایاجائے گاکہ ماضی کی طرح پارٹی کابااثرطبقہ ورکرزپر اثراندازنہیں ہوگا۔ اگرچہ عمران خان کے اقدامات سے کوئی اختلاف ہے نہ ہی اس کے کردارپر کوئی شک مگرپی ٹی آئی کی قیادت کو بہرحال اٹھتے سوالوں کا جواب دیناہوگابصورت دیگر وہی روائتی حربے استعمال ہوں گے جودیگر روائتی سیاسی جماعتوں کے اندرون خانہ آزمائے جاتے ہیں اور ایسے میں پھرکوئی بھی واضح فرق نظرنہیں آئے گاپی ٹی آئی اور دیگرسیاسی جماعتوں میں جب کہ وجود رکھتے اس حقیقت کو رد کیاجاسکتاہے نہ نظراندازکہ جب تک پی ٹی آئی کے اندرونی صفوں میں تبدیلی نہیں آتی تب تک پی ٹی آئی ملک کے نظام میں تبدیلی لانے کے دعوے اور وعدے توکرسکتی ہے مگریہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں نہ ہی تبدیلی کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں