301

نئے سال کا کیلنڈر………۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

نئے سال کا کیلنڈر کمرے میں لگاتے وقت اُس کی نظریں کیلنڈر کے پہلے صفحے پر بنی ہوئی صبح شروع ہونے والی تصویر پر جم گئیں۔ مشرق سے نکلنے والے سفید دُودھ جیسے روشن سورج کی نرم نرم ریشمیں درختوں کی چوٹیوں پر نیم جاگی کونپلوں کے ساتھ ہنس ہنس کر اُن کو جگانے کی کوشش کر رہیں تھیں۔ نسیم سحر کا یہ خوبصورت منظر کسی عبادت گزار کے چہرے کی طرح سچائی اور اطمینان کے نور سے بھرا بھرا محسوس ہو رہا تھا۔ پرندے اپنے اپنے پروں سے گردنیں باہر نکال کر روشنی کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ کچھ اپنے پیرں کو جھاڑ کر اپنے رزق کی تلاش کے لیے جانے والی سمت کا انتخاب کر رہے تھے اور کچھ اس سفر پر روانہ بھی ہو گئے تھے۔ ندی کا صاف اور شفاف پانی سورج کے اُجالے میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی مصور نے اپنی عمر بھر کی کسی صبح کو اس رنگ میں دیکھنے کی خواہش کو کاغذ پر رنگوں اور لکیروں سے سجا دیا ہو۔

دیوار سے کئی سال پرانا کیلنڈر اُتارتے وقت اُس کا دھیان اچانک جنوری کی آٹھ تاریخ کے گرد سرخ رنگ سے لگے ہوئے نشان پر پڑ گیا۔ اُسے ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اُسے بہت پیارا خواب دیکھتے ہوئے اچانک جگا دیا ہو۔ وہی آٹھ تاریخ دُکھ کی لکیر بن کر اُس کے ماتھے پر دکھائی دینے لگ پڑی ہو۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیس یہ بات ابھی کل کی ہی ہو کہ ہر وقت چپ چاپ رہنے والا اتنا شریف اور شرمیلا بھائی جس نے کبھی بھی کسی کی طرف بُری نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔ جسے غیرت کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔ جب وہ محلے میں ایک لڑکی عزت بچاتے وقت بدمعاشوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا اُس نے لڑکی کا کمزور بازو پکڑ کر لے جاتے ہوئے دیکھ کر بدمعاشوں کو للکارا تو آگے سے انہوں نے فائر کھول کر اُس کی زندگی کا چراغ گُل کر دیا تھا۔ بعد میں اُس کے قتل کی گواہی دینے کے لیے کوئی شخص بھی آگے نہ آیا۔ انہیں وہ بستی چھوڑ کر کسی دوسری نگری جانا پڑ گیا تھا۔ کیوں کہ بدمعاشوں کی طرف سے انہیں قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں تھیں۔ اُس کا باپ ہر وقت اُس کی باتیں کر کے اپنے دُکھی دل کو سکون دے لیا کرتا تھا۔

اُس نے کیلنڈر کا دوسرا صفحہ اُلٹایا تو دوسرا صفحہ مارچ کی پندرہ تاریخ پر اُسی طرح کے ایک اور سُرخ نشان اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جب اُس کا باپ اپنے اکلوتے جوان بیٹے کی جُدائی کی چوٹ کھا کر اپنے بیٹے کے پاس ہی جا پہنچا تھا۔ اُس کو بچھڑتے وقت ذرا بھر بھی خیال نہ آیا کہ میں اپنی رانی بیٹی کو کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اِس موقع پر اُسے اپنی ماں بڑی شدت سے یاد آئی جس کا اُس نے اچھی طرح چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا۔ سال دو سال کی عمر بھی کیا ہوتی ہے۔ لیکن اُس کا باپ بتایا کرتا تھا کہ تیری ماں بالکل تیرے جیسی تھی۔ اتنا ٹوٹ کر پیار کرنے والا باپ جو اُس کی چھوٹی چھوٹی تکلیف پر تڑپ اُٹھتا تھا۔ پتہ نہیں کس حوصلے سے اُسے بھری دُنیا میں اکیلا چھوڑ کر وہاں چلا گیا تھا جہاں سے کبھی کوئی واپس آتے نہیں دیکھا۔

اُس نے اگلہ صفحہ اُلٹایا۔ پھر ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور صفحہ اُلٹانے کے بعد ایک صفحے کی دو تاریخ پر اُسی طرح کا سرخ نشان لگا ہوا تھا۔ اُسے ایسے لگا جیسے اشرف کہیں کھڑا کھڑا ہنس رہا ہو۔ کتنا خوش تھا وہ اُس کے ساتھ شادی کر کے، خوش کیوں ہوتا وہ آخر اُس کی منگیتر اور اُس کے حقیقی ماموں کی بیٹی تھی۔ ا ُس کا باپ مرنے کے بعد پھوپھی اُسے اپنے ہی گھر میں لے آئی تھی تو پھر کچھ مہینوں بعد چار بندے بُلا کر اشرف سے اُس کا نکاح کر دیا گیا۔ اشرف کی ہنس مکھ طبیعت سے سارا گھر ہر وقت مسکراتا دکھائی دیتا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اِس آنگن میں دُکھوں اور پریشانیوں کا داخلہ بالکل بند ہو۔ پھوپھی نے اُسے اُس کے مرے ہوئے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

اشرف اُس کے بہن بھائی اور سکھیاں سہلیاں سب کچھ آپ ہی بن بیٹھا تھا۔ پھر اِس مہکیں بکھیرتے گلشن کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی۔

اشرف بُجھا بُجھا اور پریشان پریشان رہنے لگ پڑا۔ جب بھی کبھی اُس سے اُس کی پریشانی کی وجہ معلوم کی گئی تو وہ مسکرا کر اُسے ٹالنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتا، تجھے تو وہم ہو گیا ہے۔ میں نے کس وجہ سے پریشان ہونا ہے بلکہ تجھے اِس طرح خواہ مخواہ پریشان دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہوں۔ کملی نہ بنا کر، روز روز کے پوچھنے پر ایک دن اشرف نے بتا ہی دیا کہ مکان بنانے کے لیے بنک سے وصول قرضے کی قسطوں کی ادائیگی نہ ہونے پر بنک کی طرف سے سختی شروع ہو گئی ہے۔ تو کوئی معلوم نہیں کہ کس وقت مکان کی قُرقی کا نوٹس وصول ہو جائے۔ میں نے بہت کوشش کی ہے کہ کہیں سے رقم کا کوئی بندوبست ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انہی دنوں میں ایک بار پھر قسمت کا ستارا اُن کے آنگن پر چمکا اور اُن کا چھوٹا سا گھر خوشیوں سے سجنے لگا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں چاند جیسے خوبصورت بیٹے سے نوازا۔ لیکن ابھی انہوں نے دل بھر کر اُسے دیکھا بھی نہ تھا کہ وہ پھر اللہ میاں کے پاس چلا گیا۔

اشرف کے لیے ابھی پہلی پریشانی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن اوپر سے یہ جان لیوا صدمہ آن پڑا۔ اِس کے ساتھ ہی اُس کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا دشوار ہو گیا۔ آہستہ آہستہ وہ ذہنی طور پر بے چین ہوتا چلا گیا۔ اُس نے ذہنی مریضوں کی طرح خود کلامی شروع کر دی، کبھی اکیلا بیٹھا بیٹھا بلاوجہ قہقہے لگانا شروع کر دیتا تو جب رونا شروع کر دیتا تو پھر چپ ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ ہر وقت خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ ایک دن باہر سے کسی نے دروازے پر دستک دی، اُس نے دروازہ کھولا تو دروازے کے سامنے چارپائی پر خون سے لت پت اشرف کی لاش پڑی تھی، لاش لانے والوں نے بتایا کہ وہ سڑک پر جاتے ہوئے ٹرک کے نیچے آ کر لقمہ اجل بن گیا ہے۔ اُس کی جان بچانے کی بڑی کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ لیکن اللہ کو یہی منظور تھا۔ اُس نے بھی اللہ کی رضا سمجھ کرکچھ دن رونے دھونے کے بعد خود حوصلہ کر لیا کیوں کہ اِس کے بغیر وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔

پھر جیسے بھری دُنیا میں اُس کا کچھ نہیں رہا۔ مکان بھی لینے دینے میں ختم ہو گیا ۔ اب وہ اور اُس کی پھوپھی کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں صبح سے شام تک سلائی مشین چلا چلا کر سر سفید کر بیٹھیں ہیں۔ اِن مشینوں کے نہ جانے کتنے کروڑ چکر چل چکے ہیں پر اُن کی اس دکھ بھری زندگی کا سفر ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اُس کا دھیان ایک بار پھر نئے کیلنڈر کے پہلے صفحے پر نکلتے ہوئے سورج والی تصویر کی طرف چلا گیا لیکن اُسے ایسا لگا جیسے ابھی یہ سورج اس کے لیے طلوع نہیں ہو رہا۔ اُس نے نئے کیلنڈر کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور اُسی سرخ نشان سے سجے پرانے کیلنڈر کو جھاڑ کر پھر کلر والی بوسیدہ دیوار کے اُسی کیل سے لگا دیا اور پھر ٹوٹے دل سے سلائی والی مشین پر آ بیٹھی، دُکھ پرانے بھی ہو جائیں تو اُن کا ساتھ تو ختم نہیں ہو جاتا، سلائی والی مشین ایک بار پھر تیزی سے گھومنے لگ پڑی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں