223

   استاد  ایک ”مسیحا………محمد جاوید حیات   

ہر سال کی طرح اس سال بھی سکولوں کے درمیان مختلف صحت مند مقابلے سرکاری سطح پہ شروع ہوئے ہیں۔کھیلوں کے علاوہ ادبی مقابلے ہرسال کرائے جاتے ہیں۔اساتذہ شاگردوں کو تیار کرتے ہیں بڑی دلسوزی سے ان مقابلوں میں آتے ہیں گویا کہ وہ بذات خود مقابلے میں شریک ہیں۔ استاد معاشرے کا وہ فرد ہے جو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بنتا ہے مگر استاد کا کام”مہا کام“ہے اور مسلسل کام ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر استاد اس عظیم کام کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتا اس لئے وہ شاگرد کی دنیا میں مقام پیدا نہیں کرسکتا۔استاد کی دلسوزی شاگرد کی تربیت کا تریاق ہے یہی وہ گر ہے جو شاگرد کو سچ مچ شاہین بناتا ہے۔۔شاگرد کے سامنے استاد سب کچھ ہے اگر استاد اس کی توقعات پہ پورا نہ اترے تو استاد ایک عام سا فرد ہے خواہ شاگرد اس سے نفرت کرے یا محبت۔۔خواہ وہ اس کو یاد رکھے یا بھول جائے۔اگر یاد بھی رکھے تو کس حوالے سے یاد رکھے۔یہاں پہ استاد کو سوچنا چاہیے کہ وہ شاگرد کی یادوں کا وہ شاہکار بنے جس کو وہ کھونا نہ چاہے اس کے ماضی کا وہ کردار بنے جس کو وہ بھولنا نہ چاہے۔البتہ ان یادوں کے شاہکار اساتذہ کی تعداد کم ہوتی ہے یہ گنتی کے چاند دنیا کی خوبصورتی ہیں۔سب کا اس بات پہ اتفا ق ہے کہ ہر شاگرد کی زندگی میں ایک استاد ہوتا ہے جو اس کی زندگی کا ہیرو اور اس کی یادوں کا شاہنشاہ ہوتا ہے۔

اساتذہ اپنے شاگردوں کومختلف مقابلوں کے لئے تیار کر چکے تھے۔شاگرد احترام کے لبادہ اوڑھے ان کے ساتھ تھے۔۔وہ پل پل اپنے اساتذہ کو دیکھ رہے تھے کہ وہ ان کے سپاہی ہیں میدان جنگ میں ان کو اترنا ہے۔ان کو لیس کیا گیا ہے ان کو ہر لحاظ سے لیس کیا گیا ہے۔ مجھے ادبی مقابلوں کی ججمنٹ کے لئے اکثرگو رنمنٹ سنٹینیل سکول چترال بلایا گیا میں نے اکثر مقابلوں کو قریب سے دیکھا اور شریک محفل رہا ہائی سکول کا تاریخی ہال چترال کے مستقبل کے تاروں سے سجا رہتا۔ان کے یونیفارم بتاتے کہ یہ کس سکول کے ہیں۔ان کے چہروں کی چمک بتاتی کہ وہ پر عزم ہیں۔وہ زندگی کی جنگ جیتئیں گے وہ ہارنے کے لئے اس دنیا میں نہیں آئے۔سب مقابلے دیدنی ہوتے۔منصفیں کے لئے اندازہ لگانا مشکل ہوتا کہ کون جیتا کون ہارا؟۔نتیجوں کا اعلان کرتے ہوئے ان کو بتاتے کہ تم سب جیت گئے واقعی وہ سب جیت گئے ہوتے۔وہ سب اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہوتے۔ان کے اساتذہ ان کی جیت پہ چہک اٹھتے۔ان کے رخسار چومتے ان کو شاباشی دیتے۔ان کے چہروں پہ اتری ہوئی روشنی ان کے عظیم ہونے کی دلیل ہوتی۔اس سمے اساتذہ مجھے بہت ”بڑے“نظر آتے۔میری نظر میں دنیا کا کوئی ”بڑا“ اس سمے ان کامقابلہ نہیں کر سکتا۔یہی بچے جب کل ملک کا مستقبل سنواریں گے تو یہی اساتذہ بجا طور پر قوم کے محسن کہلاینگے۔قوم کے یہ محسن کسی انعام و اکرام اور صلہ و ستائیش سے بے نیاز ہیں۔البتہ کبھی کبھی اپنی تحقیر پہ ان کے کان بجتے ہیں۔تو سراپا شکوہ ہو جاتے ہیں۔لیکن نہیں استاد کا مقام یہ ہے کہ اگرایک بھی شاگرد اتنا عظیم بن جائے کہ اس کا مقام سمجھے یہ اس کے لیے کافی ہے۔باقی تو معاشرہ ایک بے ربط اجتماع ہے اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔مجھے ان مقابلوں کے دوران ان تابعدار شاگردوں پہ بھی رشک آرہا تھا جو اپنے اساتذہ کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوتے۔۔اگر کوئی مقابلہ ہارتے تو بھی ان کے سامنے سراپا خجل کھڑے ہوتے مگر یہ ”مسیحا“  ان کی ڈھارس بندھاتے ان کوتسلی دیتے۔بچوں کی صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ان سے امیدیں ہی وابستہ رکھی جا سکتی ہیں۔سائنس اور ٹیکنا لوجی کا یہ دور واقعی مانگتا بھی ایسی صلاحیت ہے ورنہ اس دور کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔بچوں کی صلاحیت دیکھ کر بر ملاکہنا پڑتا ہے کہ واقعی یہ اس جدید دور کی نسل ہے اور ضرور اس دور کے ساتھ چلے گی۔۔البتہ میں بر ملاکہتا ہوں کہ اس نسل کو ایسے اساتذہ ملے ہیں کہ یہ ان کو شاہین بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے۔ان مسیحاوؤں کی مجبوراً قدر کرنی ہوگی خواہ وہ والدیں ہوں،بچے ہوں یا معاشرے کا کوئی سٹیک ہولڈر۔۔ان کے سامنے مجبوراً جھکنا ہو گا۔۔اگر میرا بس چلتا تو ان کے لئے الگ یونیفارم بناتا۔۔اور زمانہ دیکھتا کہ دیکھو  وہ ”مسیحا“آ رہا ہے۔۔۔سلام”مسیحا“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں