341

آدھی عورت………ڈاکٹرشاکرہ نندنی

“کیا میں بڑی ہورہی ہوں؟” وہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی وجود کا حصار کر نے لگی. جیسے جیسے وجود میں آنے والی نئی تبدیلی پہ نظر ڈالتی بڑبڑانے لگتی. وہ عورت کا رُوپ دھارنے کی پہلی سیڑھی پہ کھڑی جسامت میں کچھ بھاری پن سا محسوس کر رہی تھی. بار بار اُس کا ہاتھ بدن کے نرم گوشے کو چھو جاتا جس سے کرنٹ نما جھٹکا محسوس ہوتا، جو لہر کی صورت وجود میں سرائیت کر جانے کا کام کرتا. وجود کے ساتھ ساتھ وہ جذبات میں بھی تبدیلی کے اثرات محسوس کر رہی تھی. بچپن کی منزل اختتام پزیر تھی. جوانی اپنے رنگ بکھیرنے کے لیے دہلیز پہ کھڑی خوش آمدید بول رہی تھی. وہ رنگ جن میں سارے دھنک کے رنگ رچے بسے تو ہوتے ہیں مگر ان سب پر جب محبت کا رنگ چڑھ جائے تو باقی سارے رنگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، سامنے کھڑا منہ چڑا رہا تھا. لباس میں تیز اور شوخ رنگ اُبھرنے لگتے ہیں. جوانی جو جذبات کی سیڑھیاں جلد از جلد چڑھنا چاہتی ہے اُس کے قدموں کو بھی حرکت دیتی ہوئی دیکھائی دے رہی تھی.

ریشمی گوشہ چھونے سے اُس کی سانسیں بے ترتیب سی ہونے لگتیں اور یہ پہلی بار تھا. روزانہ بڑے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے وجود کا معائنہ کرنا اُس کا معمول بن گیا جو بریزیر پہننے تک جاری رہا. وہ خود کو جوانی کے مُنہ زور گھوڑے پہ سواربے قابو ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی. چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتےاپنے وجود پہ نظر رکھتی. رات سونے سے پہلے اُس کی دھڑکنیں لازمی بے ترتیب ہوتیں پھرنہ جانے کب وہ خیالوں کی دُنیا میں کھوئے ہوئے، دور کہیں نکل جاتی. چمکیلی، بھڑکیلی چیزوں میں اُس کی دلچسپی حد درجہ بڑھنے لگی. نظریں بھی رنگوں بھری چیزوں پر جا ٹھہرتی. نگاہوں میں تیکھا پن واضع ٹپکنے لگا. طبیعت شوخ و چنچل جذبات سے لبریز ہونے لگی. زُلفوں میں بناوٹ، آنکھوں میں سجاوٹ، بدن میں نزاکت، چال میں لچک اور انداز میں بدلاؤ آنے لگا.

گھر کی ذمہ داری تھی کہ دن بدن بڑھتی اور سخت ہوتی جارہی تھی. حساب کتاب کا خیال رکھنا، ماں کے ساتھ بیٹھ کر بڑی عورتوں کی طرح گھر کے معاملات پر بات چیت کرنا، گھر میں آنے والی عورتیں جو ماں سے سلائی کروانے آتیں اور عورتوں کے نجی معاملات پر بات چیت کرتی تھیں، وہ پاس بیٹھی چپ چاپ اُنھیں سنتی، دل ہی دل میں انجانی سوچ سوچتی. اب اُس میں بڑا پن پیدا ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا تھا.شائد بڑی عورتوں کے ساتھ بیٹھنے کی وجہ سے اُس میں یہ تبدیلی آنی شروع ہوئی تھی. بات کرنے کا انداز بھی عورت نما سا تھا. وہ بڑے شیشے کے سامنے کھڑی وجود کا معائینہ کر تے ہوئے خود میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کو دیکھ کر حیران ہوئی. پاس رکھے میز پر پڑے عورت کے خزانے کو مضبوط کرنے والے سامان کو ہاتھ میں لیے کھینچ کھینچ کر اُس کی مضبوطی چیک کرنے لگی، جو آج ماں نے اُسے پہننے کی نصیحت کی تھی.

عورت کے خزانے کو مضبوطی سے باندھنے سے اُس کی سانسیس گُھٹی گُھٹی سی محسوس ہونے لگی. اُن کے اُوپر قمیض چڑھائے وہ کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ اُس کا سامنا فیصل بھائی سے ہوا جو دروازے پر کھڑاغالباًاُسےچائے بنانے کا کہنے آیا تھا.

” آ.. آ… آپ ” وہ بوکھلائی، لمبی سانس لی.

“وہ…….میں کہنے آیا تھا کہ چائے بنا دو.” فیصل نے اُس کے چہرے کے زاویے سے ناواقفیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا.

“جی جی…. بنا دیتی ہوں. ” فوزیہ نے جلدی سے سر کو دوپٹے سے ڈھانپا اور ساتھ ہی گُھٹی سانس کو بھی. وہ کچن کی طرف چل پڑی.

کچھ دنوں بعد فیصل بھائی کی شادی کی تیاریاں ہونے لگی جس میں فوزیہ اور اُس کی ماں پیش پیش تھیں. فوزیہ کو تو جیسے کوئی نیا مشغلہ مل گیا ہو. نئے نئے کپڑے سلائی کرنے کو ملے. رات گئے تک ڈھولک کی آواز گونجنے لگی. دُلہن کے کمرے کی آرائیش کی گئی. ضرورت کی ہر چیز کمرے میں رکھی گئی. فوزیہ کو نیا تجربہ ہونے لگا اور وہ شادی کی رسومات سے آگاہ ہونے لگی. اُس کی نظریں دُلہن اور دُلہا پر ہی جمی رہتی جیسے اُسےکوئی دلچسب قصہ کہانی مل گئی ہو. وہ اُن کے چہرے پر بننے والے ہر ہر زاویے سے واقف ہونے کی ٹوہ میں لگی رہتی اور سمجھ بوجھ رکھنے لگی تھی.

دن رات کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتی. عید کے عید تو اچھی خاصی کمائی ہاتھ آجاتی. سلائی مشین چلانے سے اُس کے کندھے چوڑائی اختیار کر گئے تھے جن کی وجہ سے وہ مزید بڑی بڑی سی دکھائی دینے لگی تھی. وہ اپنے اندر کسی نہ معلوم مخالف جنس کی کشش محسوس کرنے لگی تھی اورہر وقت مخالف جنس کے درمیان پیدا ہونے والے تعلق کی ٹوہ میں لگی رہتی.

ٹک…. ٹک….. ٹک…. صبح سویرے دروازے کے کھٹکنے کی آواز سنائی دی تو فیصل کی بیوی بستر پہ پڑے پڑے سوچنے لگی کہ یہ فیصل کی ماں کو آج کیا ہو گیا ہے اتنی صبح دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے. دروازہ کھولا تو سامنے فوزیہ ہاتھ میں بڑا ٹرے اُٹھائےکھڑی تھی.

“ناشتا….. وہ میں نے سوچا آج ناشتا میں دے آتی ہوں… فیصل بھائی کاآج سے دفتر شروع ہے نا …… اس لیے …” وہ شرمائی نظروں کے

اتھ گویا ہوئی.

“مگر…..” مریم بولی.

ابھی وہ اُس کے چہرے کی طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ فیصل گیلے بدن کے ساتھ باتھ روم سےباہر آیا. وہ تولیے سے بدن کو رگڑتے ہوئے  ولا.

” آؤ… آؤ…. فوزیہ…..بیٹھو……یہ تم نے ناشتے کی کیوں زحمت کی.” فیصل نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا.

“پہلے بھی تو میں ہی بناتی تھی نا….. اب بنا دیا تو کیا ہوا.” فوزیہ نے اُس کےچہرے پرنظریں جماتے ہوئےنچلے ہونٹ کو دانتوں سے مسلا

ور شرماتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ اپنے چہرے پہ سجالی.

“سنو!…… اب میری بیوی آگئی ہے وہ میرا خیال رکھ سکتی ہے.” وہ جانے کے لیے مڑی تو فیصل نے آوازدی.

مریم اپنے شوہر کی بات سُن کر مسکرائی. یہ دیکھتے ہوئے فوزیہ کے چہرے پہ غصّے کے آثار پیدا ہوئے، وہ چپ چاپ کمرے سے باہر چلی گئی.       فیصل کو بھی اُس کا اس طرح سے بے دھڑک صبح سویرے کمرے میں آنا اچھا نہیں لگا تھا. چند دن خاموشی سے گزر گئے دونوں گھروں کی طرف سے کوئی آمدورفت نہ ہوئی.                   جاڑے کا موسم شروع ہوتے ہی سارا ماحول دھند کی لپیٹ میں آگیا.    فیصل بڑے شوق سے مریم کے لیے بڑے سائز کی انگیا لایا، تو اُس نے اُسے خود پہنانے کی ضد کی. سرد موسم میں وہ ننگی جسامت لیے فیصل کے سامنے بیٹھی اور وہ اُسے انگیا پہنانے میں مصروف تھا. آج فیصل کے جذبات انگاروں کی مانند دہک رہے تھے، مگر مریم کے مخملی نرم گوشے کو دیکھ کر، اُسے سخت مایوسی ہوئی، جو اُسے پہلی رات بھی ہوئی تھی. وہ جذبات میں گرمی محسوس کرتے ہوئے، مریم کو انگیا پہناکر، اُس پر بوسے لینے لگا. آج کی رات، مریم نے اُسے سخت مایوس کیا اور صبح ہوتے ہی وہ ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی. فیصل کے لیے دفتر جانا اور ماں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا.اب اُسے خود ہی اپنے اور ماں کے لیے ناشتا بنانا پڑتا تھا. اُس کی سوچ میں ایک ہی بات پھنس کررہ گئی، کہ عورت کی خوبصورتی تو اُس کے بڑے مخملی گوشے کی ہی وجہ سے ہوتی ہے. ایک مرد کی دلچسپی کا باعث، وہ تبھی بنتی ہے جب وہ بھاری بھرکم مخملی گوشہ بھنبھوڑنے کے لیے اُسے پیش کرے….، مگر مریم میں یہ خصوصیت ہرگز نہ تھی.

شام سے ہی دھند نے ہر طرف پھیلنا شروع کردیا اور یخ بستہ سردی نے سارے ماحول کو جکڑ لیا. فیصل کادل جدائی کےالاؤ میں جلنے اوربدن کانپتی سردی میں ٹھرنے لگا. اچانک دروازے کی اوٹ سے کوئی سایہ محسوس ہوا اور وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولی.

” آپ کچن میں……”فیصل نے پلٹ کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑی گرم گرم حلوے کی پلیٹ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی.
“یہ آپ کے لیے…..” اُس کی نظریں کسی کی تلاش میں تھیں. فیصل نے آگے بڑھتے ہوئے پلیٹ پکڑی. اُسے اپنے خالی گھر کی طرح نظریں اور دل بھی خالی خالی سا محسوس ہونے لگا.”وہ…. چلی گئی ہے” کانپتے ہونٹوں سے وہ بمشکل بولا.
ہونٹوں پہ صحرائی پیاس مچلنےلگی. نظریں ویران صحرا کی مانند اُجڑی ہوئی دکھائی دے رہی تھی. وجود میں تنہائی رچی بسی ہوئی تھی. گھر میں بکھری چیزوں کے ساتھ سناٹا سائیں سائیں کرنے میں مصروف تھا. ایسا محسوس ہو رہاتھا جیسے یہ منظر صدیوں سے اس گھر میں کالی ناگن کی طرح آن بسا ہو. اُس نے گرم حلوے کے ساتھ اُسے گرما گرم چائے پیش کی اور خود کمرے میں بکھری پڑی چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا. وہ چیزیں سمیٹ کر الماری میں رکھنے لگی تو اُس کی نظر لال دوپٹے پر پڑی جو خوب چمکیلے موتی ستاروں سے جڑا کمرے میں جلنے والے بلب کی روشنی میں جگمگانے لگا. اُس نےنہ جانے کس خیال سے اُسے اُٹھا کر پھیلا دیا. اُس نے دوپٹہ کیا پھیلایا اُس کی تو جیسے دنیا ہی بدل گئی. دوپٹے کی لال رنگت پہ چمکنے والے چاندی جیسے موتی سارے کمرے کو روشن کرنے کے لیے کافی تھے. وہ دوپٹہ اُوڑھے بڑے شیشے کے سامنے کھڑی اپنی خوبصورتی کو جانچنے لگی اور پھر بیڈ پہ پورا دوپٹہ پھیلائے دلہن کی مانند بیٹھ گئی.
وہ کھنگورتے ہوئے جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا، اُسےکمرا کوئی پریوں کی آماہ جگہ محسوس ہوا. ہر چیز سمیٹی پڑی اپنی اپنی متعلقہ جگہ پہ رکھی تھی. مخالف جنس کی آہٹ کوپاتے ہی وہ نئی نویلی دُلہن کی طرح شرماتی ہوئی سمٹ
گئی. کچھ دیر کے لیے اُس کے قدم رُک سے گئے. سوچوں کے انبار میں اُسے مریم کی موجودگی کا احساس ہونے لگا. جیسے دسمبر آج کسی عاشق کو اپنا آپ دکھانے کے لیے بضد ہو. یخ بستہ سردی میں دل محبوب کی یاد میں اُٹھنے والے الاؤ میں گرمانے لگا. وہ آگے کی طرف بڑھا اور بیڈ پر بیٹھ گیا. اُس کے دل کے تار ستار کے تاروں کی طرح نغمہ سرا تھے. دل میں وسوسے کہ شائد وہ میری محبت کو بھول نہیں پائی اور خود چل کر میری دہلیز پر آن پہنچی ہے. وہ دلی فخر محسوس کرتے ہوئے قریب آ بیٹھا. اُس کے دماغ کے پردے پہ وہ چھائی ہوئی تھی. قریب سے قریب تر ہوتا گیا. وہ سیمٹ کر اُس کی باہوں میں آپہنچی.
گھونگھٹ مسلسل چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا, جس کے اندر جذبات نے طوفان مچا رکھا تھا. کانوں سے گرم دھواں دھاری دھار نکل کر سارے وجود میں زہر کی مانند پھیل رہا تھا، جس کی تپش بدن کو بھٹی کی طرح تپانے کے لیے کافی تھی. بدن میں کپکپاہٹ ہونے لگی. وہ پہلی رات کا منظر دل میں بسائے آگے کی طرف بڑھا. اُس کا سر مدہوشی میں مخالف کندھوں کو چھونے لگا. پھر جذبات نے جلدی دکھائی اورتیزدھارکو برداشت نہ کر سکتے ہوئے خود کو مزید قریب کر لیا. گھونگھٹ میں چھپے ارمانوں نےجذبات کی جنگ سے لڑتے لڑتے دل کے قریب پناہ لی. صحرا کی تپتی ریت میں غوطہ کھاتے ہوئے ,قرب کی آخری سیڑھی پر کھڑے جذبات نے اُسے ٹٹولا. اپنے محبوب کی آمد کا سماں سمجھ کر وہ مرغوب ہوگیا تھا، جس سے اُس کے ہاتھ کا لمس اُس کے مرمریں بدن تک پہنچ گیا.اُس نے ہاتھ کو پیچھے کی طرف دھکلیلا تو وہ اُٹھ کر مخملی پنڈلیوں پہ جا گرا، وہ مزید سیمٹ کر قرب کی انتہا کوپہنچ گئی. ہاتھ مرمریں، مخملی گوشے کو ٹٹولتے ہوئے آگے بڑھا اور مکمل گرفت کے ساتھ آسودگی حاصل کرنے لگا. مگرجذبات کی تپش مزید بڑھنے لگی. جس سے وہ متعلقہ حصّے کو بھی کپڑے سے آزاد کرگئے. ہاتھوں کومکمل آسودگی حاصل ہوتے ہی جوان ہوتا وجود چند لمحوں میں مکمل عورت کاروپ دھار گیا…..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں