207

داد بیداد۔۔۔۔امریکی انتباہ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

خبروں کے مطا بق امریکہ نے خبر دار کیا ہے کہ چین کے اشتراک سے ون بلیٹ ون روڈ کے تحت آنے وا لا منصوبہ چائنا پا کستان اکنا مک کوریڈور (CPEC) پا کستان کے لئے نقصان دہ ہے عوامی جمہوریہ چین نے فوری ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی تر دید کی ہے اور دلا ئل کے ذریعے ثا بت کیا ہے کہ اس منصوبے سے پا کستانی معیشت کو بہت فائدہ ہو گا ادھر پا کستان کی حکومت نے سی پیک اتھارٹی کے لئے لفٹنٹ عاصم سلیم باجوہ کو چیر مین نا مزد کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پا کستان ہر حال میں سی پیک کے منصو بے کو کامیاب کرنا چاہتا ہے اور پا ک فوج اس کی کامیابی کی ضا من ہے مذ کورہ خبروں کا جائزہ لینے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سی پیک میں ضرور ایسی کوئی بات ہے جو امریکہ کو نا گوار گذر تی ہے بھارت کو نا گوارگذر تی ہے اگر ایسی کوئی بات ہے تو پا کستان کے لئے اس منصو بے میں ضرور دلچسپی لینے کی ضرورت ہو گی کیونکہ ہمارے دشمنوں کو جو نا گوار گذر تا ہے وہ ہمارے لئے نا گزیر ہو گا اور بہت مفید ہو گا پا کستان کی معیشت کو اس وقت 4اہم چیزوں کی ضرورت ہے سب سے پہلے بیرونی سر مایہ کاری آنی چاہیئے دوسرے نمبر پر بنیا دی ڈھا نچے کی سکیموں پر تیز رفتاری کے ساتھ کا م ہو نا چاہئیے تیسرے نمبر پر پا کستان کو ٹیکنا لو جی ٹرانسفر ہونی چا ہئیے چوتھے نمبر پر پا کستان کو صارف ملک کی جگہ پیدا واری ملک کا در جہ ملنا چاہئیے اور یہ چاروں باتیں سی پیک میں شا مل ہیں امریکہ کے ساتھ پا کستان کے اشتراک عمل کی تاریخ 1949سے شروع ہوتی ہے 1958ء میں مار شل لا لگنے بعد پا ک امریکہ تعلقات میں گرم جو شی آگئی فیلڈ مارشل ایوب خان کے سکرٹری قدرت اللہ شہاب اپنی سوا نخ عمری شہاب نا مہ میں لکھتے ہیں کہ 1961ء میں امریکی سفارت کاروں نے با قاعدہ شکا یت لگائی کہ را ولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑ کوں پر روسی مصنو عات کے بل بورڈ اور اشتہارات لگے ہوتے ہیں ہماری حکومت کو ایسے اشتہارات سے تشویش ہوتی ہے ان کی اجا زت نہیں ہو نی چاہئیے یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا امریکہ سویت یونین کی طا قت اور تہذیب سے خوف زدہ تھا پا کستان کی سڑکوں پر روسی مصنو عات کے اشتہارات کو بر داشت نہیں کر تا تھا اب سرد جنگ کا زمانہ گزر چکا ہے تا ہم امریکہ اب بھی روس اور چین کی راہ میں رکا وٹیں ڈالنے کے لئے بے تاب ہے یہ معیشت کی جنگ ہے اس جنگ میں امریکہ نے پا کستان کا کندھا استعمال کر کے افغانستان کے قیمتی معدنی ذخائر کا کنٹرول حا صل کر لیا ہے کویت، عراق اور لیبیا کے معدنی وسائل پر امریکہ کا قبضہ ہو چکا ہے پا کستان بھی معدنی وسائل سے ما لا مال ہے اگر بلو چستان میں ریکو ڈک کے معدنی ذخائرامریکہ کے ہاتھ آگئے تو وہ عراقی تیل اور گیس کو بھول جائے گا یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 15سا لوں سے ریکوڈک کو متنا زعہ بنا یا گیا ہے اگر یہاں چینی کمپنی کان کنی کر تی تو اب تک پا کستانی معیشت میں خوشگوار انقلاب آچکا ہوتا گوادر کی بندر گاہ بھی امریکہ کی نظروں میں ٹھٹک رہا ہے اس بندر گاہ کے ذریعے پا کستان کو خطے میں معا شی سر گر میوں کا مر کز ملنے کا قوی امکان ہے یہاں دو طا قتوں کے مفا دات کا ٹکراؤ ہوتا ہے اور پا کستان خواہ مخواہ متا ثر ہور ہا ہے امریکہ کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان معا شی طور پر کمزور ملک ہو امریکہ کا محتاج ہو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا مقروض ہو مغربی ملکوں کا دست نگر ہو اس کے مقابلے میں عوامی جمہوریہ چین چاہتا ہے کہ پا کستان معا شی لحا ظ سے خود کفیل ملک ہو دنیا بھر میں اس کی پیداوار کی مانگ ہو دنیا بھر میں اس کی مصنو عات کی تجا رت ہو صاف ملک کی جگہ پیداواری ملک درجہ حا صل کرے اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکے اور قو موں کی برادری میں سر ُاٹھا کر چل سکے یہ ہے دو طا قتوں کے مفا دات کا ٹکراؤ اب ظاہر ہے چین جو کچھ بھی چاہتا ہے وہ پا کستان کے مفاد میں ہے امریکہ جو کچھ چاہتا ہے وہ پا کستان کے مفاد میں نہیں اب حکومت پا کستان کا امتحا ن ہے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتی ہے ظا ہر ہے ہمیں اپنا وزن چین ہی کے پلڑے میں ڈالنا ہوگا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں