317

گھبرانا نہیں ۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

ہم 19 وزرائے اعظم بھگت چکے لیکن کوئی ایک بھی ”کوئے اقتدار“ سے سوائے رسوائیوں کے کچھ نہ سمیٹ سکا پھر بھی ”چھٹتی نہیں یہ کافر مُنہ سے لگی ہوئی“۔ مقتدر ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ اُن کے اقتدار کو دوام حاصل ہے لیکن دوام صرف رَبّ ِ لَم یَزل کو۔ ایوب خاں جب ترقی کا 10 سالہ جشن منا رہا تھا، خلقِ خُدا ”ایوب۔۔۔۔۔ ہائے ہائے“ کے نعرے لگا رہی تھی۔ اُس نے اقتدار اپنے ”پیٹی بھائی“ یحیٰی خاں کو سونپا اور گمنامی کے اندھیروں نے اُسے نگل لیا۔ شراب کے ڈرم میں بیٹھ کر بولنے والے یحیٰی خاں کا ایسا دَور کہ گلی گلی میں ”جنرل رانی“ کا شور۔ اُس کے دَور میں کئی کہی اور اَن کہی کہانیاں مشہور ہوئیں۔ پاکستان کو دولخت کرنے کا داغ ماتھے پہ سجائے وہ رسوائیاں سمیٹ کر جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اُس کی موت پر ایک آنکھ بھی پُرنم نہیں ہوئی۔ بھٹو نے کرسی پر ہاتھ مارکر کہا ”میں مضبوط نہیں لیکن یہ کرسی مضبوط ہے“۔ وہ مضبوط کرسی اُسے”تارا مسیح“ سے نہ بچا سکی۔ ضیاء الحق کا دَور آیا تو ہر طرف اسلامی نظام کا غلغلہ اُٹھا۔ کُرتہ، شلوار اور شیروانی کا رواج اُسی کے دَور میں ہوا۔ دوپٹے نہ اُڑھنے والی خواتین کو ”تتلیاں“ کہنے والا اسلام کی آڑ میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کرتا رہا لیکن انجام یہ کہ ہواؤں میں بکھر گیا اور قبر تک نصیب نہ ہوئی۔ اُس کی جَلی ہوئی ٹوپی پر ہی اکتفا کرکے فیصل مسجد میں دفن کرنا پڑا۔ افغان جنگ میں اندھی شرکت کی وجہ سے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر آیا جسے قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ پھر ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آئی۔ 1988 ء سے 99ء تک قوم نے 4 وزرائے اعظم کا اقتدار دیکھا۔ پہلے بینظیر کی حکومت آئی جسے اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خاں نے چلتا کیا۔ پھر میاں نوازشریف وزیرِاعظم بنے تو صدر غلام اسحاق خاں اور میاں نوازشریف، دونوں گئے۔ بینظیر کو دوبارہ اقتدار ملاتو اُس نے اپنی جماعت کے رکن فاروق لغاری کو صدر منتخب کروایا لیکن ”گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“۔ فاروق لغاری نے ہی بینظیر سے اقتدار چھینا۔ تینوں بار منتخب وزارتِ عظمیٰ کا سَر 58-B2 کی تلوار سے کَٹا۔ اِس سانپ سیڑھی کھیل کا انجام اکتوبر 1999ء میں اس وقت ہوا جب آمر پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا۔ میاں نوازشریف جَلاوطن ہوئے اور مُکّے لہراتا پرویز مشرف ہمہ مقتدر بنا۔
جلاوطنی کاٹنے کے بعد جب میاں نوازشریف وطن لوٹے تو ایک دن اُنہوں نے ازراہِ تفنن کہا ”لوگ کہتے تھے ”قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی بھی نہ تھا“۔ میاں صاحب کے اِس بیان پر تب ہمیں یاد آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کہا تھا ”جب میں جاؤں گا تو ہمالیہ بھی روئے گا“ لیکن ہمالیہ تو دور کی بات سندھ میں بھی صفِ ماتم نہ بچھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاء الحق نے جو سلوک نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا، وہ تاریخ کا حصّہ۔ ہمارے ہاں چڑھتے سورج کی پوجا رواج پا چکی۔
آج ہمارے وزیرِاعظم متواتر کہتے رہتے ہیں ”اوئے چورو، اوئے ڈاکوؤ، اوئے مودی کے یارو، اوئے بے شرمو!، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اگر حکومت نے ڈیڑھ سال میں کچھ کرکے دکھایا ہوتا تو شاید قوم بھی اُن کے فرمان پر لبّیک کہتی لیکن اب ہاں میں ہاں ملانے والے صرف چمچے کڑچھے۔ ماسی مصیبتے نے کہا ”عمران خاں کو نیازی ہونے پر فخر ہے، آپ اپنا حسب نسب بتائیں ورنہ میں بتا دوں گی“۔ ماسی مصیبتے بھلا کسی کا حسب نسب کیا بتائے گی، نہ ہم اُس کے حسب نسب تک اُترتے ہیں کہ گنوار عورتوں کی طرح ہمیں کوسنے دینے نہیں آتے۔ وہ اپا وہ دَور یاد کرے جب پیپلزپارٹی سے روتے ہوئے نکلی اور نوازلیگ نے بھی گھاس نہیں ڈالی البتہ تحریکِ انصاف نے گلے لگا لیاکہ اُس کے دَر تو ہر کسی کے لیے وا تھے۔ چڑھتے سورج کی پجارن کی باتوں کا کیا جواب دینا۔۔۔۔۔عثمان بزدار کو شیرشاہ سوری کہنے والے فیاض چوہان کا ماضی بھی گواہ کہ وہ بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے۔ اُس نے کہا ”شہبازشریف اپنے چمچے، کڑچھے چھوڑ گئے جو مسلسل کھڑاک کر رہے ہیں“۔ حقیقت مگر یہ کہ فیاض چوہان کی نوکری اُس کے”بیہودہ کھڑاک“ کے دم قدم سے ہے کیونکہ عمران خاں کو ایسے ہی لوگ مرغوب ہیں۔ اور بھی بہت سے لوگ اِس فہرست میں لیکن ایسے لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا فقط وقت کا زیاں البتہ آجکل جو پرویز مشرف کے حامی چوہے باہر نکل آئے ہیں، اُن کی باتیں قابلِ غور۔
وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے کہا ”مشرف غدار ہے نہ کرپٹ، وہ ہمارا ہیرو ہے“۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر فوادچودھری نے کہا ”ہم پرویزمشرف کے احسان مند ہیں، اُس نے نوازشریف سے ہماری جان چھڑوائی“۔ پرویزمشرف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے وفاقی وزیرِداخلہ بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ نے کہا ”پرویزمشرف پر غداری کا الزام غلط ہے۔ اُس نے ملک کے لیے بہت سی خدمات سرانجام دیں“۔ یہ سارا شور اُس وقت اُٹھا جب انتہائی محترم چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کے خلاف فیصلہ آنے والا ہے۔ اِس بیان کے بعد حکومت خودسنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچی جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ پورا حکمران ٹولہ ڈکٹیٹر کی پشت پر ہے۔ حیرت ہے کہ جسے نومبر 2007ء کی ایمرجنسی لگانے پر سپریم کورٹ نے آئین شکن قرار دیا اورجسے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان آئین توڑنے والا ڈکٹیٹر قرار دے رہے ہیں، اُسے حکومتی ٹولہ محبِ وطن کہہ رہا ہے۔ کیا آئین شکن پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا اور کیا آرٹیکل 6 سنگین غداری نہیں؟۔
کہا گیا کہ پرویزمشرف نے ملک کے لیے بہت خدمات سرانجام دیں۔ حقیقت یہی کہ اُن کی ملکی خدمات کی فہرست بہت طویل مگر اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگانے والا پرویزمشرف ایک امریکی فون پر ”لَم لیٹ“ ہوگیا اور امریکہ کو وہ کچھ بھی دے بیٹھا جس کا اُس نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔ امریکی محبت میں گرفتار پرویز مشرف نے کورکمانڈروں کے علم میں لائے بغیر امریکہ کو فوجی اڈے مہیا کیے اور راہداری کی ہر سہولت فراہم کی۔ محبِ وطن اکبر بگتی کو بمبوں سے اُڑایا اور لال مسجد کے بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا نامزد ملزم پرویزمشرف۔ 12 مئی 2007ء کو کراچی میں 50 سے زائد معصوموں کے خون سے ہاتھ رنگ کر مُکّے لہرانے والا پرویزمشرف بھارتی وزیرِاعظم مَن موہن سنگھ کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت کشمیر کا سودا کرنے کی کوشش کرنے والا پرویز مشرف۔ کشمیر کے انتہائی محترم قائد سیّد علی گیلانی کو ”پاگل بُڈھا“ کہنے والا پرویزمشرف اور پاکستانیوں کا امریکہ سے سودا کرنے والا پرویزمشرف۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے لکھا ”مشرف ہندوستان سے مذاکرات کی آڑ میں کشمیر کو خیرآباد کہنا چاہتا تھا۔ پرویزمشرف کی ملکی خدمات تو اور بھی بہت، لیکن ہم آگے چلتے ہیں۔
وزیرِاعظم صاحب نے ایک دفعہ پھر قوم سے کہا ہے ”گھبرانا نہیں“۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ”5 سال تک آپ مجھ سے یہی سنتے رہیں گے کہ ہمیں کتنا بڑا خسارہ ملا“۔ عرض ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے، یہی شور مچاتی ہے لیکن آپ کا ”رَولا“ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ قوم روٹی کا مطالبہ کرتی ہے تو آپ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے دَور میں لیے گئے قرضوں کا دُکھڑا لے بیٹھتے ہیں۔ سچ مگر یہی کہ جتنے قرضے نوازلیگ نے 5 سالوں میں لیے، آپ کی حکومت نے اُتنے قرضے محض 15 ماہ میں لے لیے۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے 24 ممالک اور اداروں سے 15 ماہ میں ساڑھے 1o ارب ڈالر قرضہ لیا اور مجموعی قرضے میں 9.3 ٹریلین روپے کا اضافہ ہواجو کہ ایک ریکارڈ ہے۔آپ نے فرمایا کہ معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں لیکن زمینی حقائق اِس کی تصدیق کرتے نظر نہیں آتے۔ مکرر عرض ہے کہ غریب کی معیشت پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں پیٹ خالی ہو، وہاں قوم گھبرائے نہیں تو اور کیا کرے؟۔ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ماہِ نومبر میں ٹماٹر436 روپے اور پیاز 159 روپے فی کلو فروخت ہوئے جبکہ آپ کے ایک وزیر باتدبیر یہ فرماتے ہیں کہ ٹماٹروں کی جگہ دہی ڈال لیا کرو۔ چلیں مان لیا لیکن روزمرہ ضرورت کی ہر شے مہنگی ہونے کا کوئی علاج بھی اُس وزیر کے پاس ہے؟۔ گزشتہ ایک سال کے دوران گندم اور آٹا 18 فیصد، خوردنی تیل 15 فیصد، گھی 16 فیصد، دودھ 9 فیصد، مسور کی دال 18 فیصد، مونگ کی دال 57 فیصد، دال ماش 35 فیصد اور دال چنا 15 فیصد مہنگی ہوئی۔ اِن اشیائے خورونوش کے بغیر زندگی کا تصور بھی ناممکن۔ کیا وزیر باتدبیر کے پاس اِس کا کوئی حل بھی ہے یا پھر قوم کفن خرید لے؟۔
نئے پاکستان کے بانی سے قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں جو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہو چکیں۔ اب تو تحریکیئے بھی بَرملا کہتے ہیں کہ اُنہوں نے تحریکِ انصاف کو ووٹ دے کر غلطی کی۔ جب توقع اُٹھ جائے تو تالو سے لگی زبانیں بھی کھُل جاتی ہیں۔ اگر موجودہ حکومت نے کسی بھی شعبے میں بہتری دکھائی ہوتی تو قوم بھی اچھے دنوں کی آس لگا لیتی لیکن یہاں تو یہ عالم کہ سوائے بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ سیاسی ٹیم ورک ناپید، تعلیم اور صحت میں اصلاحات کا دور دور تک پتہ نہیں اور بیوروکریسی کام کرنے کو تیار نہیں (کہہ دیا جاتا ہے کہ شہبازشریف کے دَور کی بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی)۔ چلیں یہ بھی مان لیا لیکن کیا گُڈ گورننس ہے؟۔ کیا پولیس میں اصلاحات ہو چکیں؟، کیا پروٹوکول ختم ہو چکا؟، کیا سادگی اور بچت پر عمل درآمد ہو چکا؟، کیا کسان کے مسائل حل ہو چکے؟، کیا وزیرِاعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز یونیورسٹیوں میں تبدیل ہو چکے؟۔ جو حکومت یہ کہے کہ سردیاں آئیں گی تو ڈینگی خود بخود ختم ہو جائے گا، اُس سے کوئی بھی توقع باندھنا عبث، بیکار۔ اِسی لیے قوم گھبراہٹوں کا شکار۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں