304

ایکسپوز نہ ہوتواچھاہے۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

کبھی کھبار آپ سمجھ نہیں پاتے کہ کوئی آپ کی تعریف کررہاہے یاتعریف کے اندازمیں بے عزتی ایسی کہ آپ کے پاؤں تلے زمین کسک جائے اورشرم کے مارے اوپر دیکھناتک محال ہو مگر موقع محل اور کمال گفتگوکے سبب چاہتے ہوئے بھی آپ اسے منع کرنے یاجواب دینے سے قاصراور صرف خاموشی پرہی اکتفانہیں بلکہ اپنی بے بسی چھپانے کے لئے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ بھی آپ کی مجبوری بنے،یہ مسکراہٹ بھی عجیب چیز ہے خوشی کالمحہ ہویا مجبور شخص کے غصے کاعالم مسکراہٹ ہی انسان کے اندرونی کیفیت کی ترجمانی کرتی ہے،پشتومیں کہاوت ہے’دکم عقل دوست نہ اوخیاردشمن غورہ وی‘ بے وقوف دوست سے ہوشیار دشمن اچھاہوتاہے،ہوشیار دشمن کسی کے سامنے آپ کی بے عزتی نہیں کرے گاجبکہ بے وقوف دوست بھری محفل میں آپ کو رسواکریگا کیونکہ موقع محل کیاہے اور کیاہے بات کرنے کاڈھنگ اور سلیقہ اس کو اس کی کوئی سمجھ نہیں ہوتی،درست ہے کہ تعلیم انسان کو بدل دیتی ہے مگر محض ڈگری تعلیم نہیں کہلاتی نہ ہی تعلیم صرف کتابوں اور تعلیمی اداروں کی چاردیواری میں ملتی ہے اصل تعلیم معاشرتی روایات اوراخلاقی اقدارسمجھنے اور انسانی معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرانے کے رموز جاننے اورروزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے،شادی بیاہ اور خوشی کے موقع پر فرط جذبات کے آنسوآنکھ سے ٹپکناتو ٹھیک مگر رویانہیں کرتے ٹھیک اسی طرح کسی ماتم میں ہنسنا بھی اچھانہیں لگتا،کوئی ڈاکٹر،وکیل،صحافی،سکول ٹیچر،ماہر معاشیات، بیورو کریٹ یاکوئی مکینک جسمانی ساخت کے لحاظ سے نہیں اپنے پیشے کے اعتبار سے چھوٹابڑاہوتا ہے مگر ہماری نظرمیں چھوٹے بڑے کامعیار کچھ اور ہوتاہے،پشتومیں کہاوت ہے’ڈیروایہ سڑے کلہ کلہ پہ خبروکی غلط شی‘ باتونی شخص اکثرگفتگومیں غلط ہوجاتاہے،اگر آپ کسی شعبے میں سینئر بھی ہیں تب بھی آپ کو پریزنٹیشن کے لئے تیاری کرنی ہوگی بغیر تیاری کے اگر آپ ایکسپوز ہوں گے تو آپ کی شخصیت اور فن ِمہارت متاثر ہوں گے،سکول ٹیچر کو کلاس روم میں، سرجری کے ڈاکٹرکوآپریشن تھیٹرمیں،وکیل کو عدالت میں پوری تیاری کیساتھ جاناچاہیئے مگر بدقسمتی سے ایساہوتانہیں، اسی طرح صحافی کو بھی ذہنی طور پر تیار اورمکمل پیشہ وارانہ اوزار کیساتھ صحافتی سرگرمی میں جانا چاہیئے مگربدقسمتی سے ایساہوتانہیں،وائی د زلیخے کتاب می ختم کواو تہ وائے چی نروو کہ خزہ،یعنی زلیخہ کی کتاب پڑھ لی مگر عورت تھی کہ مرد پتہ نہیں چلاصحافی کوئی بھی سرگرمی سے واپس آکر پھر پوچھتا ہے پروگرام کس حوالے سے تھااور مقررین کے نام کیاتھے،پشتو میں کہاوت ہے پہ تڑلی جنگ کی اسونہ نہ سربیگی یعنی جاری جنگ میں گھوڑوں کو چارہ نہیں ڈالاجاتا،خودنمائی اور نرگسیئت کے شکار صحافی اپنے منہ میاں مٹھوکے مصداق خود ہی تعریفوں کے پل باندھ کر خود کو سینئر اوردوسروں کو جونیئرزکے ترازومیں تولتے ہیں اور تو اور ایسے اوٹ پٹانگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگلا متاثرہونہ ہومگر ان کے اپنے وزن کاپتہ ضرور چل جاتاہے کیونکہ وہ ایکسپوز ہوجاتے ہیں، اپنی ذات کوایکسپوز کرنے والے اگر پہلے سے نتائج پر غورکریں توان کی اپنی سبکی کبھی نہیں ہوگی،خاتون کی تعزیت کے موقع پر اگر آپ کہیں گے کہ اللہ بخشے مرحوم انتہائی اچھاآ دمی تھا توحقیقت جاننے پرتعزیتی محفل نہیں آپ ہی شرمسار ہوں گے،صحافی کی مثال تو آئینہ کی ہے وہ سب کچھ دکھاتاہے آئینے کاشیشہ ہمیشہ صاف ہوناچاہئے تاکہ اس میں دیکھنے والوں کو اپنی شکل ٹھیک اور واضح دکھائی دے مگر شیشہ گرد آلود ہوتو اسے اپنے بارے میں کچھ بھی بولنے اور خیالات رکھنے کاجواز ہوتاہے ایساکیوں ہوتاہے کیونکہ ہماری تیاری نہیں ہوتی،اپنے پیشے کے لحاظ سے کمال مہارت تک پہنچنابہت بڑی بات ہوتی ہے مگر اس کے لئے سیکھنے کے عمل سے گزرناپڑتاہے پیشہ وارانہ مہارت کے حصول میں خامیوں اور کمزوریوں کاہونانااہلی نہیں مگر انہیں دور کرنے کی کوشش نہ کرنانااہلی ہوتی ہے،ہم ہرلمحہ سیکھنے کے عمل گزرتے ہیں بشرطیکہ کہ ہم میں سیکھنے کی ہمت کریں مگر بدقسمتی سے ایساہوتانہیں،ہم سیکھنے کی نہیں دوسروں پر انگلی اٹھاکر اپنی نااہلی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اوردوسروں کو بے وقوف سمجھتے ہوئے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ بے وقوف نہیں ہوشیار لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں ہمیں بھری محفل میں شرمندہ نہیں کرناچاہتے ورنہ ہم کتنے میں پانی میں ہیں اور کتناہے ہماراوزن یہ وہ اچھی طرح جان چکے ہوتے ہیں کہ گدھے پر کتابیں لادھنے سے گدھاعالم نہیں بنتاہے،کہاوت ہے ’چی نہ پوھیگی نو غلے کینہ‘یعنی کچھ نہیں آتا تو خاموش رہنابہتر ہے،پشتومیں کہاوت ہے’لگی وریجی او ڈیری ڈمامی‘یعنی چاول کم اور ڈول پیٹنازیادہ ہماری سبکی کب ہوتی ہے جب ہمیں آتاکچھ نہیں اور باتیں بہت بناتے ہیں ہمیں سیکھناچاہئے وہ بھی خاموشی کیساتھ اور یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے وزن کاپتہ تب نہیں لگے گاجب تک ہم خاموش رہیں گے مگر کچھ آتاہے نہ سیکھتے ہیں اور دعوے بڑے بڑے تو ہم ایکسپوزہوں گے، شاعر کہتاہے کہ ’زمادشخصیت حدونہ گوری،زمافن زمادفکر ترجمان دی‘ہمیں چھوٹے بڑے کی دوڑ میں کودنے کی بجائے اپنے کام اور پیشہ وارانہ فرائض پر توجہ دیناہوگی،ہماراکام ہی ہماری شخصیت کاوزن سامنے لائے گا،ماحول کو سمجھ کر بات کریں گے توماحول ہمارے زیراثر رہے گاورنہ بری طرح متاثرہم ہی ہوں گے کیونکہ ہم ایکسپوز ہوں گے،ہمیں سوال تب کرناچاہئے جب جواب خود آتاہے،اپنے کام اور فن میں مہارت کے بغیر دوسروں کی سرزنش کریں گے تو بے عزتی ہماری ہوگی کیونکہ ہم ایکسپوز ہوں گے،اگر معاملے کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے اس میں مداخلت کریں گے تو شرمندہ ہم ہی ہوں گے کیونکہ ہم ایکسپوز ہوں گے،آپ کاچہرہ خوبصور اور منہ اچھاہے تو کیاکہنے مگر منہ کھول کر گندے دانت دکھائیں گے تو ایکسپوز ہوں گے۔دوسروں کو نیکی اور اچھی باتوں کی نصیحت اچھاعمل ہے مگر خود عمل نہیں کریں گے تو ایکسپوز ہوں گے۔
سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں