245

زبانِ اہلِ زمیں۔۔اسلامی دنیا کے تعلقات پھندے میں۔۔۔سید شاہد عباس

خطہء عرب اس وقت عالمی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔ 2003 میں عراق جنگ کے بعد سے پورا خطہء عرب ایک دوراہے سے گزر رہا ہے۔ 2001 میں ہونے والے حملوں کو امریکہ نے پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک سنگ میل کی سی حیثیت دی اور 9/11 کی منطق وجود میں آگئی ۔ پوری دنیا نے اس دن اور تاریخ کو ایک حوالے کے بجائے ایک اصطلاح کے طور پہ اپنا لیا۔ آج خطہء عرب کی جو صورت حال ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو یقیناًیہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ عالمی طاقتوں کے مفادت کی جنگ زیادہ اہم رہی ہے۔ عراق ہو یا شام ، لبنان ہو یا مصر ، ہر سُو عالمی طاقتوں کے مفادات بکھرے نظر آتے ہیں۔ اور تمام عالمی گروہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر حد سے آگے جاتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ 2003 کے بعد جب عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ مل پائے تو عجیب ڈھٹائی سے عالمی دنیا نے امریکی مداخلت پر سوال تک اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔ بلکہ حیران کن طور پر امریکہ نے اپنے بنیادی مقصد یعنی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کا ڈھنڈورا اس وقت پیٹنا تک چھوڑ دیا جب اسے معلوم ہو گیا کہ ایسے ہتھیاروں کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد موقف میں تبدیلی کے بعد صدام حکومت کی تبدیلی کواوّلین مقصد بنا لیا۔ اور صدام کا مجسمہ گرانے کے وقت یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے عراق کو واقعی آزادی مل گئی ہے ۔ لیکن یہ آزادی آج تک عراقی عوام کو نہیں مل پائی ۔
اگلے مرحلے میں عالمی طاقتوں نے ” عرب اسپرنگ” کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ جب دسمبر 2010 میں تیونس سے ایک جہدو جہد شروع ہوئی اور جس کو اس انداز سے نام دیاگیا کہ گویا ایک لمبی خزاں کے بعد بہار آئی ہو۔ بے شک اس بہار کی آبیاری لہو سے ہو رہی تھی ۔ لیکن امید کی جا رہی تھی کہ یہ بہار اسلامی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دے گی ۔ لیکن شو مئی قسمت یا شو مئی مفادات ایسا ہو نا پایا اور عرب بہار کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مصر میں اس انقلاب کے بعد اقتدار کو احمد شفیق، البرادے(سابقہ سربراہ IAEA) ، تانتوی اور فوج کے درمیان ویل چیئر کا کھیل بنا دیا گیا۔ جون 2012 میں محمد مرسی نے جب اقتدار سنبھالا تو امید ہوئی کہ مصر بہتری کی طرف جائے گا۔ لیکن عالمی طاقتوں اور ان کے علاقائی حواریوں کو محسوس ہوا کہُ مرسی تو ایک مضبوط حکمران بن کے سامنے آ رہے ہیں۔ لہذا ایک جمہوری حکومت کی حمایت کے بجائے ایک آمر ” السیسی”کی حمایت کی گئی ۔ ایک لمحہ رک کر جائزہ لیں اگر عالمی طاقتیں اور علاقائی ملک واقعی عرب بہارکو عوام کی خواہشات کا منبع سمجھتے تو کیوںُ مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیتے ؟ حالانکہُ مرسی کا تعلق تو اِسی فکر سے تھا جس فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ پورے خطہء عرب میں حکمران تھے۔ لیکن وجہ عالمی طاقتوں کے مفادات پہ قدغن لگنا تھی ۔ اِسی طرح فروری 2011 میں لیبیا میں عوامی خواہشات کے نام پہ جاری ہونے والے کھیل کا عقدہ معمر قذافی کی موت کے وقت کھلا۔ کیوں کہ معمر قذافی اس خطے میں ایک ایسے حکمران کے طور پہ اُبھرے تھے جو عالمی طاقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر رہے تھے۔ یہ عالمی طاقتوں کو گوارہ نہ تھا۔ شام میں بھی حالات 2011 میں خراب ہونا شروع ہوئے لیکن جلد ہی ان حالات نے فرقہ واریت کا رنگ اختیار کر لیا۔ یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ حالات کو فرقہ واریت کا رنگ دے دیا گیا۔ اور نتیجتاً آج شام میں تمام عالمی طاقتیں تجربات کر رہی ہیں۔
عرب بہار کو پچھلے چند سالوں میں فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ہے۔ اوراس کی تازی مثال عرب اتحاد کا یمن جنگ میں کردار ہے۔تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ایران اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے یمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس کردار کو روکنے کے لیے سعودی اتحادی ممالک نے آپریشن کیا ہے۔ لیکن اس میں فائدہ نہ تو سعودی عرب کا ہوا ہے نہ ہی ایران کا۔ تو پھر فائدہ کس کا ہوا؟ فائدہ اس میں ان عالمی طاقتوں کا ہوا ہے جو دونوں ممالک کو آپس میں الجھا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیے ہوئے ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ 34 اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد نے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ایک لمحہ سوچیے کیا عالمی دنیا یہ گوارا کر سکتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں ایسے تعلقات قائم ہو جائیں جو اسلامی دنیا کو ایک پروقار مقام دلا دیں؟
آیت اللہ شیخ النمر کو حالیہ دی گئی پھانسی نے ایک نیا محاذ تشکیل دے دیا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنے کے بجائے اس پھانسی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے اور مخصوص فرقے کے احتجاج کی وجہ سے شیخ النمر کو ایرانی نژاد بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ مکمل طور پر سعودی شہری تھے اور 1959 میں سعودی عرب میں ہی پیدا ہوئے۔ صرف مخصوص تعلق کی بنیاد پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ ایرانی نژاد تھے۔ دونوں ممالک اس معاملے میں نقصان صرف اپنا کر رہے ہیں اور فائدہ عالمی دنیا اٹھا رہی ہے۔تاثر دیا جا رہا ہے کہ یمن تنازعے پر ایران سے جاری مخاصمت کے حوالے سے ہی سعودی عرب نے النمر کو پھانسی دی ۔ حیران کن طور پر ان کو پھانسی تشدد اور حکومت مخالفت میں دی گئی لیکن النمر تو اپنی حیات میں اس بات کے قائل رہے کہ گولی کے بجائے لفظ کو ہتھیار بناؤ۔ انہوں نے اپنے حواریوں کو احتجاج کے لیے ” Roar of Word” کا نعرہ دیا۔ تو پھر کیسے تشدد ان کی تعلیمات میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور ایران اپنے اختلافات میں معاملات کو حل کرنے کے بجائے عالمی طاقتوں کو اپنے مفادات پورے کرنے میں ہی مدد دے رہے ہیں۔ النمر کی رہائی کے لیے اول تو ایران کو عالمی سطح پہ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا ۔ دوئم ایران کو سعودی سفارت خانے کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے تھا۔ سوئم ایران کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ وہ النمر کی حمایت کو عالمی مہم میں بدلتا نہ کہ یہ تاثر دیا جاتا کہ وہ ایرانی نژاد ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجہ سے النمر کو ہر حال میں پھانسی دینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ دیگر خلیجی ملکوں میں بھی عوامی احتجاج کو فقہی رنگ دے دیا گیا تھا۔ النمر کو پھانسی کے بجائے جلا وطن بھی کر دیا جاتا تو سعودی عرب کوکیا کوئی نقصان پہنچتا؟ اگر پھانسی سے اسلامی دنیا میں ایک مزید تنازعہ سر اٹھا رہاتھا تو اس سے بچنے کے لیے کسی حل کی طرف جانے میں کیا قباحت تھی ؟ لیکن بادی النظر میں ایران اور سعودی عرب دونوں اس وقت تنازعات کو انا کا مسلہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اور دونوں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کا ہی سبب بن رہے ہیں۔
حالیہ تنازعے سے بھی یقیناًبچا جا سکتا تھا۔ لیکن مسلکی اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے بدلے لیے جا رہے ہیں۔حالیہ شیخ النمر کی پھانسی اس وقت پوری مسلم امہ کے باہمی تعلقات میں اک پھانس بن چکی ہے۔ ایک ایسی پھانس جس میں نقصان سراسر مسلم اُمہ کا ہو رہا ہے اور فائدہ اسلام دشمن قوتوں کا۔ کیوں کہ مسلم اُمہ میں ثالثی کے بجائے کسی نہ کسی فریق کا ساتھ دینے کا رجحان تقویت پاتا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں حصہ بقدرے جثہ اس پھانس کو مزید گہرا کریں گی بجائے نکالنے کے۔ ایران اور سعودی عرب دونوں اسلامی دنیا کے اہم ملک ہیں۔ ان کی باہمی چپقلش سے نقصان صرف اور صرف اسلامی دنیا کا ہو رہاہے۔ النمر کی پھانسی کے بعد بھی باقی اسلامی ممالک اگر ان دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرنے کی کوشش کریں تو کچھ بعید نہیں کہ مستبقل میں اسلامی دنیا اپنا مقام بلند کر سکتی ہے۔ عالمی طاقتوں نے 57 اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے الگ کر رکھا ہے اور اپنے مفادات کی ترویج کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کے بجائے اجتماعیت کو فروغ دینا ہو گا۔ کیوں کہ اجتماعیت اور اتفاق سے ہی ہم عالمی دنیا کی اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف شر انگیزیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں