440

باتیں شاہ جی ڈرائیور کی ۔۔۔۔۔۔ظفر اللہ پروازؔ بونی

سید بہادر علی شاہ المعروف شاہ جی ڈرائیور مستوج غورو کے بارے میں کالم ناکافی ہے لیکن اسکی مختصر تعارف فرض ہے ۔ساری عمر ٹکسی ڈرائیور ی میں گزاری لیکن دنیاء داری اورگندی باتیں
ان کو چھوتک نہیں گئی اپنی پیشہ میں زبردست دیانت ،اپنی کام سے بے جا محبت ،جھوٹ بولنے اور سننے والوں کے فطرت سے بے نیاز بہت مخلص انسان ٹکسی ڈرائیور ہونے کے باوجود علم کی متلاشی
قرآن عظیم الشان پڑھنے اور سمجھنے کا ذوق و شوق کی بناء زبان عربی میں کافی دسترس حاصل کی لیکن سکول یا مدرسے کا گیٹ تک نہیں دیکھا۔
1940میں پیدائیش بمقام پر کوسپ غورو ، پرائمری تعلیم اس وقت کے استاذمرحوم شکور رافی سے پرکوسپ گاؤ ں میں ہی پوری کی۔ مذید تعلیم کی کنجائش نہ ہونے پر ذریعہ ء معاش کے لیے پیشہ ڈرائیوری اختیار کی ۔منگلہ اور تر بیلہ میں ڈرائیوری سکھنے کے بعد 1964میں چترال میں ٹکسی جیپ ڈرائیور بنے ۔رقیم شاہ جی مر حوم کو بچپن سے جانتاتھاوہ جب ہمارے سکول کے دوران میرے گاؤں بونی کے معروف کاروباری شخصیت رخمت وزیر صاحب کی جیپ چلایا کر تے تھے اس وقت پوری علاقے میں گنتی کے چند جیپ گاڑیاں اور گنتی کے چند ڈرائیورز ہونے کی بناء پر ہر محفل میں ڈرائیوروں کا ذکر خیر ہوتا رہتا ۔ اور اس وقت شاہ جی ڈرائیو ر کی اُصول پسندی ، دیانت داری کے بارے میں بھی باتیں سننے میں اجاتے ۔ایک بار سننے میں کہ ایک دفعہ وہ لوڈ گاڑی جیپ لیکر بونی سے اپنے گاؤں کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اپنے والدصاحب کاسامنا کیا اسی وقت وہ بھی اسی منزل کی طرف روان تھا جہاں شاہ جی ڈرائیور جارہاتھا ۔یہ وقت شاہ جی کیلیے کڑا امتحان تھا ایک طرف گاڑی میں تھوڑی سی گنجائیش تھی مگر وہ کبھی بھی قانون وزن سے زیادہ گاڑی میں لوڈ ڈالنا یاسفری بٹھانا امانت میں خیانت سمجھتاتھا۔دوسری طرف بوڑھے باپ کی مجبوری اسے گاڑی میں ہمراہ بٹھانا بھی فرض تھا ۔کچھ سوچ کے بعد شاہ جی نے فیصلہ کیا کہ گاڑی میں زیادہ بوجھ امانت میں خیانت ہے اور کسی بھی طرح غیر قانونی ،امانت میں خیانت نہ ہو ولد صاحب سے انتہائی معذرت کے بعد ہاتھ میں پیسہ تھامہ کر سمجھایا کہ اپ کا بیٹا کسی بھی طر ح امانت میں خیانت نہیں کر سکتا ۔ اگر نصیب میں کوئی دوسرا گاڑی میسر ہو جائے تو کرایہ دے کر آجانا ۔اور بھی بہت سے باتین شاہ جی صاحب کے متعلق کانوں سے گزرے۔
شاہ جی صاحب محنت مشققت سے آپنی تنخواہ سے بچا کر اسی وقت سے تاحیات گاڑی ذاتی نہیں خرید سکاایک ٹکسی ڈرائیور وہ بھی دیانت داری میں کھرا ہو تو گاڑی کسی طرح خرید سکتا ہے ۔ پھر بھی کافی زمانہ بعد محنت مشققت کی کچھ رقم ہاتھ رہے گاڑی خریدنے کا منصوبہ نبایا لیکن آپنی ذاتی گاڑی کی نسبت گاؤ ں کو راستہ بنانا مقدم جانااور سارا جمع پونجی گاؤں کے راستے میں خرچ کرکے ٹکسی پرہی اکتفاکیا۔ راستہ بننے کے کئی سال بعد دوبارہ کچھ رقم بقدر خریداری گاڑی جمع کئے لیکن دوران خریداری اسے معلوم ہوا کہ گاؤں میں لوگ سرکاری گودام میں غلے کے قرضدار ہیں انہون نے سارے پیسے گاؤں کا قرضداروں کے قرض اداکئے اس طرح گاؤں کا راستہ اور قر ض داروں کا قرضہ اپنی ساری عمر کے جمع پونجی سے اتارئے اور خو د ٹکسی ڈرائیور ہی رہنا پسند کیا ۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ رُح میں بلیدگی اور عقل میں روشنی صر ف ڈگریوں سے ہی حاصل نہیں ہوتا۔شاہ جی صاحب نے خود مزدوری کی ۔ مفاد عامہ کے لیے سارا جمع پونجی خرچ کئے خود ٹکسی چلانے پر اکتفاکیا اور گاؤں والوں کو قرض سے نجات دلانا اپنا فرض اولین سمجھا ۔شاہ جی صاحب جب بڑھاپے کی دہلیز کو پہنچا تو اسکی دوبیٹیاں بطور اولاد نصیب ہوئی ۔ان کی شادی کے بعداکیلا ہی گھر میں تمام بچوں اور بچیوں کو ہمیشہ قرآن پاک پڑھاتارہااور گھر کو آبادو منور رکھا۔پڑھائی سے فراغت کے بعد قرآن عظیم الشان کاکھوار ترجمہ کے ساتھ مکمل کرنے کے لیے شب وروز محنت کی تقریبا ایک سال پہلے شاہ جی مرحوم مجھ سے ملنے آئے اس کے ہاتھ میں قر آ ن پاک کی خوبصورت تحریر پانچ سپارے یکجا دیکھ کر حیران ہوا کہ اتنے نفیس خطاطی جو کسی بھی خوش نویس خطاط سے کم نہ تھی اور کھوار زبان میں جامع ترجمہ جوکسی بڑے سندیافتہ عالم کے سوا کسی کے بس میں نہ تھی ۔جب میں یہ انمول تحریر خود پڑھااو جن کو دیکھایا تو سب حیران ہوگئے۔واقعی قرآن پاک کو معجزہ ہے جو اسکی جانب بڑھتاہے خو د اس کے قلب میں بستاہے مطالعہ سے البتہ یہ معمولی کمی کی نشاندہی کی کہ ترجمہ میں کھوار الفاظ بہت پرانی طرز تحریر کی تھی جنہیں پڑھنے میں دُشواری ہوتی ہوتی تھی ۔اس لئے رسم الخط جدید میں کچھ کھوار کتابیں اسے دے کر املہ رسم الحط جدید کھوار کے مطابق بنانے کے لئے عر ض کی تو اس نے حامی بھر لی اور مجھ سے ر خصت مانگا میں نے رات گذارنے کے لئے در خواست کی تو انہوں نے یہ کہکر جلدی روانہ ہوا کہ کل کے لیے بچوں کو چھٹی نہیں کیاہوں اور ساتھ ہی یہ نسخہ دوبارہ لکھنا پڑا ۔ابھی بازار سے مار کر پین لیکر دوبارہ کام کا اغاز کروں گا اور جلد ہی راہ لی میں نے بازار تک اسکو رُ خصت کیا اور سٹشنری کی دو کان سے چند مارکر پین اور کچھ کاغذات لے کر رُخصت ہو ئے اور میں نے ان کی معمولی قیمت ادائیگی کے لیے بڑی مشکل سے اسے راضی کیا ۔کیا پتہ اس کے بعد سے یہ اخری ملاقات ثابت ہوئی ۔چند یوم پہلے مجھے معلوم ہوا کہ شاہ جی صاحب خالق حقیقی سے جا ملا ہے اور 4جنوری 2015ء کو فرشتہ آجل کو لبیک کہکر غو رُو میں ابائی قبرستان پر حقیقی نیند سوگیا ہے ۔ میں نے اس کے رشتہ داروں کو تعزیت کرکے مر قد پر حاضری دی ۔فا تحہ خوانی کے بعد خیال ایا کہ ان زندگی کا ہر پہلو خوشگوار اور ملا ئم و شاداب ہونا نعمت ہے ۔
مو صوف محقق نہ تھے سند یافتہ نہ تھے عالمانہ سوچ رکھتے بلکہ عالمانہ شان نہیں رکھتے تھے سادہ سی مبلع اور فتنہ شر سے دور فر قہ پرستی سے نفر ت اور گاؤں کے لیے اسکی حیات رخمت تھی اس کے ترکہ میں چند کتابیں کاغذ اور مار کر کے سوا کچھ نہیں البتہ قر آن پاک کا نسخہ چھپائی کے لیے تیار ہے اور انشائاللہ جلدی ہی سب فیض یاب ہونگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں