294

عدالتوں کا احتساب کب اور کون کرے گا۔۔۔۔ نغمہ حبیب

12 اکتوبر 1999کو پا کستان کی تاریخ کا تیسرامارشل لاء لگا اور اگر اس میں ذوالفقار علی بھٹو کا سول مارشل لاء بھی شامل کیا جائے تو یہ چوتھی بار بنتی ہے۔اس بار یہ مارشل لاء چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے لگایا۔ اس کے محرکات جو بھی تھے بہر حال ملک میں مارشل لاء کا لگ جانا اچھا عمل نہیں گردانا جاسکتا لیکن ملک میں حالات کو اس حد تک پہنچایا جاتا ہے کہ ملک جمہوری حدود سے نکل جائے اور سونے پر سہا گا یہ کہ مارشل لاء لگتے ہی سیاسی کارکنان مٹھایاں بانٹنے لگ جاتے ہیں اور لیڈران مبارکبادیاں دیتے نظر آتے ہیں سوائے اُس پارٹی کے جس کی حکومت جاتی ہے باقی سب کو اُمید ہو جاتی ہے کہ اب حکومت میں اُن کی بھی کوئی نہ کوئی جگہ نکل آئے گی اور بقول شیخ رشید کے اس نرسری سے کوئی اور عظیم ساستدان نکل آئے گا۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ خود کو نظر یاتی سیاست دان کہنے والے اور بڑے لیڈر بن جانے والے کسی نہ کسی مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹرکی دریافت، چہیتا یا منہ بولا بیٹا تھا جس نے اسی عسکری کوچے میں سیاسی تربیت حاصل کی یہ اور بات ہے کہ ”بڑا لیڈر“ بن کر اُس نے اسی فوج کو ہدف تنقید بنانے میں دشمن ملک بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور یوں ان سب نے اپنی سیاست میں زبردست یوٹرن لیا۔ خاص کر نواز شریف کی تو جنرل ضیاالحق کے بعد کسی آرمی چیف سے نہ بنی اور خود اپنے ہی بنائے ہوئے عسکری سپہ سالاروں کی تضحیک و توہین کرتے رہے اور بات مارشل لاء تک پہنچا دی۔یہ لوگ اس بات سے جتنا بھی انکار کریں ہوا ایسا ہی تھا کہ اپنے ہی ملک کے سپہ سالار کو اپنے ہی ملک آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔بہر حال اُس وقت جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور آج میں ان واقعات کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گی اور نہ اُن کا دفاع کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں لیکن اب جو 2019میں ہماری عدلیہ نے کیا اُس پر بہت سارے پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی شدید اعتراض ہے، یہاں میری مراد عام پاکستانی ہیں یعنی کہ سیاستدان دان طبقہ نہیں یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے جو فوج کی مخالفت میں ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ فوج ہماری حفاظت کا حلف لیتی ہے اور ہماری حفاظت پرما مور ہے اور یہ حفاظت وہ اپنے خون کی لکیر کھینچ کر کرتے ہیں اور یوں ہماری عافیت کی ناقابل تسخیر دیوار بن جاتے ہیں اور ایسا ہی یقیناً جنرل پرویز مشرف نے اپنی لفٹینی سے جرنیلی تک کیا اور اس وقت کسی نے اُسے غدار نہ کہا یہاں تک کہ مارشل لاء لگا تو اپنی سیاست اور عدلیہ نے انہیں کلین چٹ دی،اُن کے ہاتھ سے حلف اٹھائے، اُن کے حکم ناموں پر عمل درآمد بھی کیا اور ان کی تعریف وتوصیف بھی کی لیکن آج بالکل یک طرفہ طور پر انہیں غدار قرار دیا اور پھانسی کی سزا سنائی اور انتہائی شرمناک انداز میں سنائی۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہماری یہی عدلیہ اور یہی جج خود کو کسی بھی تنقید سے آزاد اور مبراء سمجھتے ہیں اور اپنے خلاف بولنے والے کو فوراً توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تنقید تو حضرت عمرؓ کے فیصلوں پر بھی ہوئی اور انہوں نے اس تنقید کو سنا بھی اور قبول بھی کیا لیکن آج ہمارے ایک جج صاحب نے اپنے فیصلے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ کسی بھی نکتہء نگاہ سے قابل قبول نہیں اور صاف معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی ذاتی بعض نکالا جارہا ہے۔ یوں تو پرویز مشرف کے خلاف جو فیصلہ دیا گیا یعنی سزائے موت وہ خود حیرت انگیز ہے اور پھر اس فیصلے کی تفصیلات اور مندرجات سے صاف طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہ فیصلہ ایک شخص نہیں ایک ادارے کے خلاف دیا گیا ہو جس میں کسی دوسرے شریک کار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ میں جنرل پرویز مشرف کی وکیل نہیں بلکہ میں نے ہمیشہ ان کے کئی فیصلوں کی مخالفت بھی کی ہے اور کھل کر کی ہے لیکن مخالفت کا مطلب تضحیک نہیں ہونا چاہیے۔انہی خیالات کا اظہار میں نے عدلیہ کے بارے میں اُس وقت کیا جب ورجینیاکے ایک اخبار نے اُنہیں Bitches of the Richesلکھا لیکن آج مجھے افسوس ہے کہ ہماری عدالتوں نے انتہائی منفی کردار ادا کیا اور اختلاف سے آگے بڑھ کر تضحیک اور اس سے بھی آگے بڑھ کر توہین تک پہنچیں۔اس فیصلے کا پیرا66ہی ہماری قومی توہین کے لیے کا فی ہے جب خصوصی عدالت کے بینچ کے سر براہ اور بد قسمتی سے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے انتہائی سفاکانہ الفاظ فیصلے میں شامل کیے اور لکھا کہ اگر جنرل مشرف پھانسی سے پہلے وفات پا جائیں تو اُن کی لاش کو ڈی چوک پر تین دن کے لیے لٹکا یا جائے یہ مکمل طور پر فضل اللہ سے متاثر فیصلہ نظر آتا ہے جو سوات کے نشاط چوک پر اپنے مخالفین کے سر لٹکاتا تھا شاید اُس نے بھی لاشوں کو پھانسی نہ دی ہولیکن ایک پڑھے لکھے قانون دان نے یہ سفاکانہ اور جاہلانہ فیصلہ کیا اور لکھا، اور ایک ایسے جُرم کے لیے لکھا جو بقول عدالت کے ہوا 2007میں اور جُرم ہونے کے تین سال بعد اس جُرم کے لیے قانون بنا یا گیا اور پھر اسی قانون کے تحت ایک ایسے شخص کو غدار قرار دیا گیا جس کی ساری عمر پاکستان کی حفاظت کرتے گزری لیکن اس کے بر خلاف ہمارے تمام سیاستدانوں کو ایک ایک کر کے بَری کیا جاتا رہا، سو یہ ہے ہمارا اعلیٰ عدالتی نظام جو خود کو امیر اور غریب کے لیے یکساں سمجھ رہا ہے اور یہ ہے اُس کی مساوات۔اگر ایسا ہوتا تو جنرل مشرف کے ساتھ ساتھ اُن تمام سیاستدانوں، اراکین پارلیمنٹ اور ججوں کو بھی سزا دینا انتہائی ضروری تھا جنہوں نے نہ صرف جنرل مشرف کو سپورٹ کیا بلکہ اُن کے فیصلے پر خوب خوب تالیاں بجائیں۔ یہ بھی ہوا کہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اپنی پوزیشن کا خیال رکھے بغیر جنرل مشرف کی نقل اتارتے ہوئے مکے ہوا میں لہرائے اور اعلان کیا کہ ان کے مقدمے کا فیصلہ آنے والا ہے اور یہ انہوں نے اس فیصلے کو عدالت کا کارنامہ بنا کر پیش کرنے کے لیے کیاجس نے اس فیصلے کو مشکوک بنا دیا اور مزید مشکوک یوں ہوا کہ فیصلہ انتہائی جلد بازی میں کیا گیا تاکہ اس ”بہادرانہ“ فیصلے کا اعزاز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے حصے میں آ سکے۔اس کے مشکوک ہونے کے لیے جسٹس وقار احمد سیٹھ کا ریکارڈ بھی کافی ہے کہ جس طرح انہوں نے ملٹری کورٹس سے سزا پانے والے ستّرسے زیادہ دہشت گردوں کی سزاؤں کو حسب معمول ناکافی ثبوتوں کی بنا پر معاف کرکے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جس پر افواج پاکستان نے سپریم کورٹ سے سٹے آرڈر لیا ورنہ اب تک دہشت گردی کی مزید بے شمار وارداتیں ہو چکی ہوتیں۔ہماری عدالتیں اگر اسی طرح قومی سلامتی کے اداروں اور خاص کر فوج کے خلاف فیصلے کرتی رہیں اور ججز ان کے خلاف اپنا بغض نکالتے رہے اور یہ کوشش کرتے رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی کارکردگی کو داغ دار کریں تو ایسا کر کے وہ کوئی خدمت سر انجام نہیں دے رہیں بلکہ خود ان کے خلاف عوام میں غم و غصہ بڑھے گا اور وہ اداروں میں خلیج ہی پیدا کریں گے۔اب ہماری یہ عدالتیں نظریہ ضرورت کو ناجائز قرار دے رہی ہیں اور آئین کی پامالی کو سزائے موت کے قابل سمجھ رہی ہیں تواُس وقت ججوں سمیت تمام شریک سیاستدانوں اور دیگر سہولت کاروں کو قابلِ سزا کیوں نہیں سمجھا گیا۔ انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ ایک پورے ایسے ادارے کوغدار قرار دیا جائے جو خود ملک کے دفاع اور حفاظت کا ضامن ہے اور جو اپنے خون سے اس کی حفاظت کے لیے ہمہ تن حاضر ہے۔غدار غدار کا یہ کھیل اب بند ہو جانا چاہیے، اپنے محافظوں پر شک کر کے اور ان پر یوں الزامات لگا کر ہم ملک کی نہیں ملک دشمنوں کی خدمت کر کے انہیں خوش کر رہے ہیں۔اُس وقت کے حکمران نے اپنے ہی سپہ سالار کو دشمن کے حوالے کرنے کی کوشش کی اور آج کے عادل نے پوری فوج کو سمیت اس کے لیڈر غدار قرار دے کر جگ ہنسائی کا پورا بندوبست کر ہی لیا لیکن مزید کسی ایسے اقدام سے پہلے اس کے قومی اور بین الاقوامی دونوں قسم کے اثرات پر غور ضروری ہے اور یہ سوچنا بھی کہ ہم اپنے دفاع میں خود ہی دراڑ ڈالنے کے مُجرم ہو رہے ہیں اور یہ بھی کہ آخر عدالتوں کا محاسبہ کب اور کون کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں