325

حضرت موسیٰ کا خدا سے سوال۔۔۔۔تحریر:تقدیرہ خان

حضرت موسیٰ ؑکے متعلق بہت سی روایات ہیں اور سب کی سب سبق آموز ہیں۔ روایات میں ہے کہ آپ ؑ نے اللہ بزرگ و برتر سے پوچھا کہ اے اللہ چھپکلی ایک بیکار چیز ہے اسے بنانے کی کیا ضرورت تھی۔اللہ نے فرمایا:۔ اے موسیٰ ؑ کچھ ہی دیر پہلے چھپکلی نے بھی یہ سوال کیا تھا کہ اے خالق کُل موسیٰ پر اتنی توجہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔
پہلے اسے بنی اسرائیل میں پیدا کیا، پھر اُسے فرعون سے بچانے کے لیے پانی میں ڈلوایا، پھر اُس کی بہن کو ساتھ کر دیا کہ دیکھے کہاں جاتا ہے؟ پھر فرعون کے محل کی طرف رخ کر دیا، حضرت آسیہ کی گودمیں ڈال دیا، موسیٰ ؑکی ماں کو دودھ پلانے پر مقرر کیا تاکہ اسے سکون رہے۔ شاہی محل میں شہزادوں کی طرح پرورش کروائی، پھر قبطی سر پھر سے شخص سے جھگڑا کروا دیا، پھر نصیحت والا بھجوا کر مصر سے نکل جانے کا حکم ہوا۔ طویل صحرائی سفر کے بعد مدائن پہنچا تو حضرت شعیب ؑ کی بیٹیوں سے ملاقات کروائی، پھر شعیب ؑکی دامادی اور خدمت پر معمور کیا۔ دس سال بعد واپس مصر جانے کی خواہش دل میں ڈالی اور آگ کا شعلہ دکھلا کر پاک میدان میں بلالیا۔

پیغمبری عطا کی اور معجزات کے اعزازات سے بھی نوازا اور پھر فرعون جیسے ظالم، جابر اور متکبر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ دیا۔ اے موسیٰ ؑچھپکلی نے تمہاری ساری زندگی کا احوال بیان کرنے کے بعد پوچھا کہ اے ربّ تو خالق و مالک ہے موسیٰ ؑپر اتنا وقت لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ تو جو چاہیے کر سکتا ہے۔ تیرے حکم اور ارادے سے کچھ بھی باہر نہیں۔
انبیائے کرام اور اولیائے کرام کی زندگیاں اور اُن کی زندگیوں سے جڑے واقعات ہر دور کے انسانوں کے لیے غور و فکر کا مقام رہے ہیں اور جن لوگوں نے ان واقعات پر تحقیق کی وہ ہی کامیاب ہوئے اور خدمت خلق کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر جناب فواد چوھدری نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے بیان پر سخت رد عمل دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے آج تک کوئی رہنمائی نہیں ملی۔ آپ نے فرمایا حکومت ہر سال کروڑوں روپے اس ادارے پر خرچ کرتی ہے جسے اب سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ آپ کے بیان سے لگتا ہے کہ آپ اس ادارے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور اسے ختم کرنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
دیکھا دیکھی دوسرے وزیر اور وزیروں کے سرپرست بھی میدان میں اُتر آئے ہیں۔خالد مقبول صدیقی نے گورنر سند ھ کو استعفیٰ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کا کیا فائدہ جو کوئی کام ہی نہیں کر رہی۔ یہی حال بلوچی اتحادیوں کا ہے۔ اختر مینگل بھی اتحاد سے الگ ہونے کی سوچ رہے ہیں۔ سوال اُن کا بھی یہی ہے کہ جو حکومت وعدے کی پاسداری نہیں کرتی اور وفادری نبھانا نہیں چاہتی اُس کا ساتھ دینے کا کیا فائدہ۔خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اپنی ہی کابینہ اور اسمبلی ممبران سے مایوس ہیں۔اُن کی کوئی بات سنتا ہی نہیں تو ایسی صوبیداری کا کیا فائدہ جس کی ماتحتی میں کوئی حوالدر ہی نہ ہو۔ بی آر ٹی نے دنیا کے قدیم ترین آباد شہر جسے پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر کہا جاتا تھا کو کھنڈر بنا رکھا ہے۔ پشاور شہر کی حالت دیکھ کر جنا ب شیخ رشید یاد آتے ہیں۔ پنڈی میٹرو بن رہی تھی تو شیخ صاحب اکثر فرماتے تھے کہ میٹرو تو چلے گی نہیں مگر اسکا ملبہ کون اٹھائے گا اور کھڈے کون بھرے گا۔ پنڈی تو کیا میاں صاحبان کھینچ تان کراسے اسلام آباد تک لے گئے۔ یہ اور بات ہے کہ سی ڈی اے کے پہلے اور شاید آخری انتہائی ایماندار چیئرمین کیپٹن (ر) راجہ معروف افضل نے اس پر دستخط نہیں کیے چونکہ یہ منصوبہ پنچاب حکومت کا ہے سی ڈی اے کا اس سے کوئی لین دین نہیں۔
اب یہ سوال پشاور کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ خدا کے لیے ملبہ ہی اٹھا لو اور کھڈے بھر دو۔ ہو سکے تو بسیں موٹروے پر چلا دو یا بیچ دو،کچھ تو پیسے واپس مل جائینگے۔ اگر حالت یہی رہی تو افغان مہاجرین کے بچے بسیں کھول کھال کر بلال گنج پہنچا دینگے اور حکومت کے پاس سکریپ بھی نہیں ہو گا۔
جناب حشمت جیب ایڈووکیٹ نے رانا ثنا اللہ کی ضمانت پر سوال اٹھا دیا ہے کہ اس کیس کی کمزوری اینٹی نارکوٹک فورس کی کمزوری تصور کی جائے گی اور اگر مقدمہ ریورس چلا تو اس فورس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ ایسا ہی سوال عزت مآب جنا ب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اُٹھایا ہے۔ فرمایا ائیر پورٹ غیر قانونی کاروبار کے مراکز بن گئے ہیں۔ ائیر پورٹوں پر منی لانڈرنگ، منشیات فروشی اور دیگر غیر قانونی کاموں کے اڈے بن گئے ہیں۔ آئے دن خبریں آتی ہیں کہ ائیر پورٹ سیکیورٹی فورس کا عملہ مسافروں کی پٹائی کر رہا ہے اور گالم گلوچ ہو رہی ہے۔ بد تمیزی اور دھکم پیل جیسے واقعات تو روز مرہ کے معمولات میں شامل ہیں۔ یہی حالت سول ایوی ایشن اتھارٹی کا بھی ہے۔
ملتان ائیر پورٹ پر ایف آئی اے کے عملے نے تو حد ہی کر دی۔ بیمار ڈاکٹر کو چھینک آئی تو سزا کے طور پر اُس کا پاسپورٹ پھاڑ کر منہ پر دے مارا۔ جی ہاں یہ وہی گرین پاسپورٹ ہے جس کی عزت بڑھانے کا دعویٰ ہمارے وزیراعظم نے کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے تواپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا مگر اُن سینکڑوں مسافروں کا کون پر سان حال ہے جو ہرروز ائیر پورٹوں پر بے عزت ہوتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔یہی حال تھانوں اور کچہریوں کا ہے۔ پہلے لوگ رشوت دیکر کام نکلوا لیتے تھے مگر اب مہنگائی کی وجہ سے رشوت دینا بھی ممکن نہیں رہا اور نہ ہی غریب کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹا نا ممکن رہا ہے۔ عام آدمی سسک سسک کر مررہا ہے مگر خوفزدہ بھی ہے۔ اگر خان صاحب کی حکومت چلی گئی تو بلاول اور مریم صفدر کی حکومتیں رہی سہی کسر بھی نکال دینگی۔ پہلے اس قوم کو اس کا برا اور بھیانک تجربہ ہوچکا ہے۔ بے نظیر حکومت میں جو پراجیکٹ شروع ہوئے تھے نواز حکومت نے اُن پر کام روک دیا تھا۔ نواز دور میں فیض آباد کا پل تعمیر کے آخری مراحل میں تھا کہ حکومت چلی گئی۔ بے نظیر دور میں یہ پل کھندر بن گیا جسے بعد میں آنے والی نواز حکومت نے ہی مکمل کیا۔چوہدری پرویز الہٰی کے وزیر آباد ہسپتال اور شیخ رشید ایکسپریس وے کا احوال کچھ زیادہ پرانا نہیں۔
جناب چیف جسٹس نے انتہائی دکھ سے کہا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ جس جلد ی سے مکمل کیا گیا ہے یہ کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ پہلے اس منصوبے پر بی آرٹی، نیلم جہلم پراجیکٹ اور بھاشا دیا مر ڈیم اور دیگر بڑے منصوبوں کی طرح زیادہ سے زیادہ دیر کر کے پراجیکٹ کی لاگت بڑھا کر کمائی کی گئی اور پھر جلد از جلد لیپا پوتی کر کے کام مکمل کر دیا اور تختی لگا دی۔ حکومت میں آنے سے پہلے خان صاحب نے کسی ریٹائر میجر جاوید صادق کا بھی ذکر کیا تھا جن کا تعلق مانسہر ہ کے گاؤں عطر شیشہ سے ہے۔ ان کے کزن جنرل عبداللہ سعید اور جنرل وحید ارشد گجیال اپنے دور کے مشہور جرنیل رہے ہیں۔ میجر جاوید صادق مضبوط خاندانی پیس منظر کے حامل ہیں مگر ائیر پورٹ کی تعمیر میں اُنکا کیا کردار تھا پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی۔ جناب چیف جسٹس نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے اگر اس کے مطابق ائیر پورٹ کی عمارت گر گئی تو ذمہ داری کسی جاوید صادق پر نہیں ہوگی۔ جاوید صادق نہ انجینئر اور نہ ہی ٹھیکیدار ہیں۔ ٹیلی ویژن پر آکر موصوف کہہ چکے ہیں کہ میں کنسلٹنٹ ہوں۔ اگر اُ ن کی کنسلٹنسی میں ہیر پھر ہوا ہے تو کیا ہمارے آئین میں اس کی کوئی سزا بھی ہے یا نہیں؟یہ کام اسمبلی اور کابینہ کا ہے مگرانہیں قانون سازی اور ملک کی بہتری کے علاوہ بھی وقت گزاری اور تشہیر کے بہت کام ہیں۔
جناب فواد چوھدری نے پہلے عید کے چاند کو موضوع بحث بنایا اور علماء کرام سے طویل ”بیٹل آف سن اینڈ مون“ لڑنی پڑگئی۔ آخر علما ء کرام نے میدان مار لیا اور اس حدیث نبوی ﷺ پر اتفاق کر لیا کہ جہاں چاند نظر آئے وہاں عید کر لو۔ جناب فواد چوھدری کا سولر کیلنڈر بھی متنازع بن گیا اور لوگوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ فواد چوھدری اگر تھوڑا سا خرچہ کر کے ہر سال رمضان مبارک میں مولانا پوپلزئی اور اُن کے چند قریبی ساتھیوں کو عمر ے پر بھیج دیا کریں تو سارے ملک میں ایک عید ہونے کا چانس بن سکتا ہے۔ دوسری تجویز یہ کہ پوپلزئی صاحب کو مدرستہ کمیٹی سمیت امریکہ بھجوا دیا جائے تو خان صاحب کی مدت حکمرانی آسانی سے گزر جائے گی۔
کشور نائید جناب فواد چوھدری، اسد عمر اور کچھ نوجوان وزرأ کی فین ہونے کے باوجود سخت نا اُمید ہیں۔ کشور نائید نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ وہ بوڑھی ہوگئی ہیں مگرعلم و دانش ا ور حکمت میں اب بھی لاجواب ہیں۔ کشور نائید کے تین کالم موجودہ حکومت کے لیے قابل توجہ ہیں اور یہی عوامی رائے بھی ہے۔ ”شیری مزاری کیسے سناؤں درد بھر افسانہ، جناب وزیراعظم تبدیلی کے خدو خال سامنے لائیں اور پاکستان کی نوجوان مگر بابلد کابینہ“ جناب وزیراعظم کی توجہ چاہتے ہیں۔
بھٹو کے نفسیاتی اور سیاسی تضادات کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ ایک ماں نے 5جنوری 1925کو ایک بیٹا پیدا کیا۔ گھرانہ شاہنواز بھٹو کا تھا جہاں پہلی بیوی اور دو بیٹوں کا راج تھا۔ خورشید بیگم کو محسوس ہوتا تھاکہ جس محبت سے خان آف قلات کے محل میں شاہ نواز بھٹو نے دیوانگی کے عالم میں 16سالہ لڑکی سے شادی کی تھی گھر میں وہ کسی کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ د س سال کی عمر میں بچے کو سوتیلے بھائی سکندر بھٹو کے پاس بمبئی بھیج دیا گیا مگر پتہ نہیں کہ ماں ساتھ گئی یا نہیں۔ ماضی کی تلخیاں انسان کے قلب و ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں اور عمر بھر پیچھا نہیں چھورتی۔ بھٹو جیسا شخص جب بھی ماں کا ذکر آتا اُس کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔
محرومیاں اور مایوسیاں ہی نہیں بلکہ ہٹ دھرمی، اکھڑپن، ضد اور انتقام انسان کے کردار وعمل پر ہمیشہ ہاوی رہتے ہیں۔اگر یہ اثرات صاحبان اقتدار واختیارکے ذہن و قلب پر ہوں تو ایسے لوگ ملکوں اور قوموں کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔
جناب عمران خان اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ وہ کبھی ہار نہیں مانتے اور جب تک انہیں دلائل سے قائل نہ کیا جائے وہ بات بھی نہیں سنتے۔جناب عمران خان کو کون بتائے کہ حکمرانوں کو دلائل سے قائل نہیں کیا جاتا اُن کا فلسفہ و فکر اور پارٹی منشور پر عمل اُن کا ظرز حکمرانی ہوتا ہے۔
بد قسمتی یہ کہ قائداعظم کے بعد تاحال ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جو اقبالؒ کے بیان کردہ اوصاف حکمرانی سے ذرہ بھر مطابقت رکھتا ہو۔ نظریہ اسلام پر قائم ہونے والی ریاست پر اسی نظریے کے حامل شخص کو ہی حکمرانی کا حق ہے۔ مگرنگاہ بلند، سخن دلنواز جان پرسوز تو کسی کی نگاہ میں ہی نہیں۔ وزیروں کی بھرمار، وزاتوں کے انبار، پروٹوکول کی یلغار تو ہر سو ہے مگر جادہ میں منزل سے جس قدر عوام بے خبر ہیں حکمران اُسی قدر بیزار ہیں۔
ہمارے میرکاروں کی کوئی منزل ہی نہیں تو رخت سفر کی بات کرنا ہی بے معنی ہے۔ قائداعظم ؒ کی جیب سے نکلے کھوٹے سکے آج بھی عالمی مارکیٹ میں چلنے سے قاصر ہیں مگر عوام انہیں سکوں کے بھاؤ دال روٹی خریدنے کی کوشش میں ہیں۔ جو تھوڑا بہت تھا وہ سوئس بینکوں میں چلا گیا۔ حکمرانوں نے دبئی اور لند ن میں جائیدادیں خرید لیں اورجو بچ گیا تھا پکوڑوں والے کے نام جمع کروایا یا پھر ٹی ٹی، ٹی ٹی کھیل کر ایک دوسرے کے اکاؤنٹ میں ڈال دیا۔
پہلے لوگ زرداری اور نواز شریف کی حکومتیں جانے کے انتظارمیں دعائیں مانگتے تھے مگر اب و ہ دعاؤں کی جگہ بد دعائیں مانگ رہے کہ دعاؤں کا وقت گزر گیا ہے۔ گیس اور بجلی کا بل دیکھ کر بھلا دعا کس دل سے نکلے گی۔ وزیر کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا قصور نہیں ہم نے تو سلیب بنا رکھا ہے۔ اگر سلیب سیلاب میں بدل جائے تو صبر کرو۔ٹماٹر مہنگے ہیں تو دھی سے کام چلاؤ۔ موصوف کوکون بتائے کہ ٹماٹر سے دھی مہنگا ہے۔ دھی دودھ سے بنتا ہے اور دودھ کے لیے بھینس درکار ہے۔ لگتا ہے کہ ہم عمران خان کے نہیں بلکہ فرانس کے چارلس یازدھم کے دور میں رہ رہے ہیں جس کی ملکہ نے کہا تھا کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ۔ بیچاری کشور نائید مایوس نہ ہو تو کیا کرے۔ حالات تو کہہ رہے ہیں کہ ایسے ویزوں اور مشیروں کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ڈیز ا ئیز سوٹ، میک اپ، ٹی وی ٹاک اورنت نئی سیکموں سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ہنر مند نوجوان جیسے منصوبوں پر پیسہ ضائع کرنا کسی طور پر بھی دانشمندی نہیں۔ نئی اور پیسہ ضائع کرنیوالی سکیموں سے بہتر ہے کہ جاری سکیموں کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ عوام کو تھوڑا ہی سہی مگر کچھ توریلیف ملے۔
چاند 29کو نہ نظر آئے تو 30کو نظر آہی جاتا ہے۔ اگر نظر نہ بھی آئے تو عید ہو جاتی ہے چونکہ روزے 31نہیں ہوتے اور نہ ہی اٹھا ئیس ہو تے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نہ کسٹم کا محکمہ ہے نہ پولیس یا ایف ٹی آئی ہے جو ڈنڈے کے زورپر بات منوائے۔ دیکھا جائے تو جن محکموں پر حکومت کو ناز ہے اُن سے عوام سخت بیزار ہیں۔ سمگلنگ، منی لانڈرنگ، قتل ڈاکے اور چوریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ عوام پوچھتے ہیں کہ ان وزارت داخلہ کی کیا ضرورت ہے؟ سابق چیف جسٹس نے بھی حکومت سے سوال کیا تھا کہ محض 20فیصد ٹیکس وصولی کے لیے 20ہزار بندے ایف بی آر میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی سوال عام آدمی پوچھتا ہے کہ جب سارا نظام پٹواری اور تھانیدار چلا رہے ہیں تو ڈپٹی کمشنریوں، سیکرٹریوں اور اعلیٰ پولیس افسروں کی کیا ضرورت ہے؟؟؟
جناب فواد چوھدری سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں اور خود کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ایک ٹیلی ویژن بھی نہیں بنا سکتا۔ عام آدمی تو پوچھتا ہے کہ ٹیلی ویژن تو بڑی چیز ہے۔ اب ماچس کی ڈبیہ بھی چین سے آرہی ہے۔ کوئی وزیر اور وزارت ہے جس سے عوا م کو فائدہ ہورہا ہے۔ جب سب کچھ ایک جیسا ہی ہے تو رویت حلال اور اسلامی نظریاتی کونسل پر اتناغصہ کیوں؟۔
ریاست کا نظام قدرت کے نظام کا ہی پر تو ہوتا ہے۔ جس ریاست کا نظام قدرت کے کائناتی نظام کی ضد ہو وہ کبھی چل نہیں سکتا اور نہ ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔ خداموسیٰ ؑکی بھی سنتا ہے اور چھپکلی سے بھی مکالمہ کرتا ہے۔ وہ کسی کو تھپڑ نہیں مارتا اور نہ ہی دھتکارتا ہے۔ اُس نے ہر چیز کا حساب لوح محفوظ پر درج کر رکھا ہے۔ جناب وزیراعظم اور وزیروں کو سوچنا ہوگا کہ ہر چیز کا مصرف ہے مگر اصراف کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ حکمران ضدی
اور وزراہٹ دھرم اور ہتھ چھٹ ہوں تو نظام زندگی میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ حکمرانی کا وصف یہ نہیں کہ حاکم کو کوئی دوسرا قائل کر ے۔ ایسے حکمرانوں کے گرد مفاد پرست عناصر کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور حاکم وقت ہمیشہ غلط فیصلے کرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں