264

سیاسی دعوے اور الزامات۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

پشتوکامقولہ ہے’’ ہرگوجر وائی چی پئی زمادمیخی خہ دی ‘‘یعنی ہر گوالااپنے بھینس کے دودھ کی خوبی بیان کرتاہے لیکن سچ تویہ ہے کہ ملاوٹ میں کمی بیشی توہوسکتی ہے مگر خالص دودھ کوئی نہیں دیتا۔ٹھیک یہی حال ہمارے سیاستدانوں کابھی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کاکہناہے کہ عوام کی حفاظت کی بجائے اربوں روپے کابجٹ وی آئی پیزپر خرچ ہورہاہے،عام آدمی غربت کی چکی میں پس رہاہے جبکہ حکمران عیش وعشرت کی زندگی گزاررہے ہیں۔مسلم لیگ نون کی حکومت ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے کام کررہی ہے یہ کہناہے نون لیگ کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عباداللہ کا۔قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین افتاب احمد خان شیرپاؤ کہتے ہیں کہ پختونوں کی نظریں ان کی جماعت پر لگی ہوئی ہیں سب مل کرملک وقوم کی خدمت،تعمیروترقی اور تحفظ پاکستان کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔میڈیاسے گفتگوکے دوران دفاعی پیداوار اورسائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر راناتنویر حسین یہ کہتے سنائی دیئے ہیں کہ آئندہ دو سالوں میں بجلی اور گیس بحران پر قابو پالیاجائے گا۔عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اورخیبرپختونخواکے سابق وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی کہتے ہیں دہشت گرد شہرمیں دندناتے پھررہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے ۔پیپلزپارٹی کے مرکزی راہنماء سینیٹراحمد حسن خان نے لب کشائی کی ہے کہ عوامی مسائل کاحل پیپلزپارٹی کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔سیاسی جماعتوں سے جڑے وزراء،ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کے بیانات کے تناظرمیں اگر جائزہ لیاجائے تو80ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر90ء کی دہائی کے اواخر تک ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نوازدودومرتبہ برسراقتداررہی ہیں اور دونوں جماعتوں نے ایوان اقتدارتک رسائی کے لئے عوام سے جو وعدے کئے تھے اقتدارمیں آنے کے بعد انہیں نبھانے سے قاصر رہیں۔2002 میں مسلم لیگ قائداعظم وفاق میں حکمراں جماعت بنی تھی جبکہ مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے خیبرپختونخوا میں اقتدارکی باگ ڈورسنبھالنے کے ساتھ ساتھ وفاق میں فرینڈلی اپوزیشن کابھرپور کرداراداکیاتھااور دونوں جگہوں پہ ان کواختیارات اور وسائل حاصل تھے مگرمتحدہ مجلس عمل کی حکومت اور قیادت بھی پانچ سالہ دوراقتدارمیں عوامی توقعات پر پورااترنے میں ناکام رہی۔ 2008پیپلزپارٹی نے جہاں وفاق میں اقتدارسنبھالا وہیں خیبرپختونخوامیں عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ شراکت اقتدارکاحصہ بنی جبکہ سندھ اور بلوچستان کااقتداربھی پی پی پی کے ہاتھ آیامگرکھیل ختم اور تماشہ وہی پرانارہا۔سوال یہ اٹھتاہے کہ آج اگر اربوں روپے کابجٹ وی آی پیزپر خرچ کرنے،عام آدمی کی بد حالی اور حکمرانوں کی عیاشی کا تذکرہ کرکے جماعت اسلامی کے امیر واویلا کرتے سنائی دے رہے ہیں توانہیں اس بات کاادراک بھی ہوناچاہئے کہ ان کی جماعت ماضی میں بھی حکومت میں رہی ہے اور اب بھی صوبائی حکومت میں شامل ہے ایسے میں وہ اپنی کارکردگی کوکس نظرسے دیکھتے ہیں یایہ کہ دوسروں پر تنقیدضروری اور خود کوبری الذمہ سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر عباد اگرنون لیگ کی حکومت کوترقی اور خوشحالی سے جوڑرہے ہیں تو ترقی اور خوشحالی دکھانی بھی ہوگی کیونکہ مسائل اور بھی ڈھیر سارے ہیں محض چند سڑکیں تعمیر کرنے اور بجلی کے کھمبے لگانے کے سواء۔قومی وطن پارٹی کی توسمجھ نہیں آتی کہ وہ پختونوں کی سیاست کررہی ہے یاصوبے کی کیونکہ صوبے میں توصرف پختون نہیں بستے جبکہ حکومت کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے موردالزام ٹھرانے والے افتاب شیرپاؤتوماضی دو دفعہ وزیراعلیٰ اور ایک باروفاقی وزیرداخلہ رہ چکے ہیں۔وفاقی وزیر راناتنویرحسین آئندہ دو سالوں میں بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پانے کی نویدتو سنارہے ہیں مگردوسال کابھی کیاہی عجب فلسفہ ہے کہ وفاق میں اقتدارسنبھالنے سے تین سال قبل بھی نون لیگ دو سال میں توانائی بحران پر قابوپانے کاراگ الاپ رہی تھی اقتدارسنبھالنے پر بھی آئندہ دوسال کی بات کررہی تھی اور اقتدارکے تین سال گزرنے کے بعد بھی آئندہ دوسال میں مذکورہ بحران پر قابو پانے کادعویٰ کرتی سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔ادھر امن وامان کی صورتحال پرخیبرپختونخواکی موجودہ حکومت کو تنقید کانشانہ بنانے والے امیر حیدرہوتی کیابھول گئے کہ اس سے قبل وہ پانچ سال تک اسی صوبے کے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائزتھے اور ان کے دور میں امن وامان کی صورتحال شائد اس سے بھی زیادہ خراب تھی یہ اور بات ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی اور مثالی طرز حکمرانی کادعویٰ کرکے خودہی اپنے جال میں پھنس گئی ہے۔2013میں وفاق،پنجاب اور بلوچستان میں اقتدارنون لیگ کوملا،سندھ میں حسب روایت پیپلزپارٹی کوجبکہ خیبرپختونخوامیں پی ٹی آئی نے ایک دو جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی۔ تبدیلی کی نہ سہی ،گر توانائی بحران سمیت جتنے بھی وعدے مسلم لیگ نون نے عوام سے کئے تھے انہیں پورے کرنے میں اب تک وہ ناکام دکھائی دے رہی ہے جبکہ ذکر ہوتحریک انصاف کی تبدیلی کے دعوے اور وعدے کاتوخیبرپختونخواکی حکومت بھی واضح تبدیلی لانے سے قاصررہی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح نون لیگ کی قیادت بجلی اور گیس بحران ختم کرنے لئے بار بار دوسال کے وقت کا تعین کرتی آرہی ہے اسی طرح عمران خان بھی تبدیلی کے حوالے سے ہمہ وقت اگلے ایک سال ،ڈیڑھ سال اور دوسال کادعویٰ کرتے سنائی دیتے ہیں مگر تبدیلی ہے کہ آنے کانام ہی نہیں لے رہی ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہی ہے لیکن ذکرہومسلم لیگ نون اور تحریک ا نصاف کے دعوں کاتو دونوں جماعتوں کی قیادت کواس امر کااحساس وادراک ہوناچاہئے کہ وقت کسی کاانتظار نہیں کرتا اور خوش فہمیوں میں مبتلالوگ اکثر غلط فہمیوں کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ جھوٹ ،فریب اوردھوکہ دہی پرمبنی طرزسیاست اورحکمرانی کاعمل وقتی فائدہ تودے سکتا ہے مگر زیادہ دیر چل نہیں سکتادورحاضرمیں پیپلزپارٹی اس کی واضح مثال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسروں کوموردالزام ٹھراکربرابھلاکہنے کی بجائے اپنابھی محاسبہ ہوناچاہئے۔بصورت دیگر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں