365

باز یچہ اطفال…تحریر:تقدیرہ خان ….

تیا غالب نے سچ کہا تھا کہ دنیا باز یچہ اطفال ہے جہاں ہر روز ایک نیا تماشہ ہوتا ہے۔ حضرت غالب مغلیہ عہد کی آخری نشانی تھے جن کے بعد دنیا نے کئی رنگ بدلے اور نئے تماش بینوں نے نئے تماشے لگائے اور آگے چل دیے۔ تھوڑی سی جنبش ہم نے بھی کی مگر گھوم پھر کر واپس اُسی مقام پر آگئے جہاں سے چلے تھے۔ بحیثیت قوم ہم نے جس کسی کی انگلی پکڑی وہ قوم کو اندھے کنویں کی منڈیر پر چھوڑ کر چلتا بنا۔
ہم نے اس بدحالی کا ذکر ایک دوریش سے کیا تو فرمانے لگے کہ میدان میں بچے فٹ بال کھیل رہے تھے اورہر طرف دھول مٹی تھی۔ نہ کوئی ریفری تھا اور نہ ہی باقاعدہ باؤنڈری یا کوئی گول پوسٹ تھی۔ ایک فٹ بال تھا اور بے شمار بچے تھے۔ فٹ بال جس کے پاس آتا وہ کک لگاتا اور فٹ بال کے پیچھے دوڑتا۔ ایک بچہ یہ سب کھیل دیکھ رہا تھا کہ قریب سے ایک باباجی گزرے۔ بچے نے بابا جی کو سلام کیا اور پوچھا، باباجی آخر اس فٹبال کی کیا ٖغلطی ہے کہ ہر کوئی اسے کک لگاتا ہے اور دوبارہ کک لگانے کے لیے اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ باباجی نے فرمایا، بیٹے فٹ بال کی غلطی یہ ہے کہ اندر سے کھوکھلا ہے۔ اس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہے اور یہ بے وزن ہے۔ کیا کبھی کوئی شخص پتھر کو کک لگاتا ہے؟ پتھر چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو اسے کوئی کک نہیں نہیں لگاتا۔
موجودہ دور میں آبادی، رقبے اور قدرتی وسائل کی بہتات کی اتنی اہمیت نہیں جتنی امن، شخصی آزادی، تعلیم صحت، ذہنی ہم آہنگی، قانون کی حکمرانی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ جس ملک میں سیاسی انتشار، باہمی رقابتوں کا رواج، اعلیٰ ترین سطح پر کرپشن کا رحجان، بد انتظامی، عدل کے مختلف معیار اور قیادت کا فقدان ہو وہ قوم نہ تو اقوام عالم میں عزت کا مقام رکھتی ہے اور نہ ہی اندرونی خلفشار اور طوائف الملوکی کے ماحول پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عہد رفتہ سے لیکر عہد جدید تک قوموں کی تاریخ میں جتنے انقلابات آئے اُن کی بنیادی وجوہات بد نظمی، غربت، جہالت قحط سالی، ذہنی خلفشار، بد اعتمادی اور عوام کش طریقہ حکمرانی تھیں۔
عہد حاضر کی ترقی یافتہ اقوام نے ماضی کے حالات اورواقعات کی روشنی میں زندگی کے ہرشعبے پر توجہ دی، اصلاحات کا نفاذ کیا اور عوامی خواہشات اور ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ، آسان اور قابل عمل قوانین مرتب کیے اور پھر سختی سے اُن پر عمل بھی کیا۔
ملک کے سربراہ اور اعلیٰ ترین حکومتی منصب پر فائز حکمرانوں اور عہد یداروں کے لیے ملکی آئین و قانون میں کوئی سہولت نہ رکھی اور نہ ہی کسی کے حسب و نصب، دولت و جاہ وحشمت اور خاندانی وقارو روایات کے پیش نظر اُسے کسی قانون کے خلاف قدم اُٹھانے کی اجازت ملی۔ یہ سب تماشے او رڈرامے بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ اور بالخصوص اہل پاکستان کا مقدر ٹھہرے۔ وقت گزرتا رہا اور اُمت خرامات میں کھو گئی اور اہل پاکستان نودلیتے کلچر اور شعبدہ باز سیاستدانوں کے چکموں کے خو گر ہوگئے۔سیاست عوام کے ہاتھوں سے چھین کر نودولیتے اور جاگیردار گھرانوں کے گھرکی لونڈی بنا دی گئی تو حالی موالی سیاسی گھرانے وجود میں آنے لگے۔ سیاست کاروبار اور جمہوریت تماشہ اقتدار بن گئی تو عام آدمی کی اہمیت پالتو جانوروں سے بھی کئی درجے کم ہوگئی۔ کاروباری گھرانے حکمران بن گئے تو ضررویات زندگی پر اُن کا قبضہ ہو گیا۔
دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی اس حالت زار کے ذمہ دار عوام ہی ہیں جن میں جرات احتجاج اور انکار کی حس ہی باقی نہیں رہی۔ عوام کی بے حسی اور غلامانہ ذہنیت سے نوکر شاہی نے بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا اور ظالمانہ طرز حکمرانی کا حصہ بن کر عوام کی نسوں سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ کر حکمرانوں کی دولت کے انباروں پر نچھاور کر دیا۔
آزادکشمیر کے مرحوم وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان پاکستانی سیاست اور جمہوریت کو گدر کھیڈ یعنی آوارہ بچوں کا کھیل کہہ کہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ گو کہ وہ خود بھی اس کھیل کا حصہ تھے مگر یہ اُن کی مجبوری تھی۔
ہمارے کھوکھلے پن اور بے توقیری کا سبب ہمارے قائدین اور طریق حکمرانی ہے۔ آئے دن قوموں کی برادری میں ہماری عزت ووقار کم ہو رہا ہے چونکہ ملک کے اندر گدر کھیڈ جاری ہے۔ حکمران خاندانوں اور اُن کی صلاح کا ربیورو کریسی نے ایک باعزت، بہادر اور غیور قوم کو اپنی شیطانی خواہشات کی بھینٹ چڑھا کر فٹ بال نیشن میں بدل دیا ہے جواندر سے کھلی اور بے وزن ہوگئی ہے۔
ہمارے سیاسی دانشوروں اور حکیموں کی حکمت و تدبر کا یہ حال ہے کہ وہ زرداری اور شریف گھرانوں کے قلعوں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ مشاہد اللہ اور مشاہد حسین سیّد کی سوچ میں دو گھرانوں کے گھروں کے درمیان حائل سٹرک جتنا ہی فاصلہ ہے۔ باقی سیاسی شاعروں اور جمہوری گلو کاروں کے موسیقار بھی سانجھے ہیں۔ ایک طرف مریم اور دوسری طرف بلاول کی ٹیمیں ہیں اورملک بازیچہ اطفا ل اور قوم گدر کھینڈ میں مگن بے خبر اور بد حال ہے۔
ملکی میڈیا مال کمانے اور گدر کھیڈر پر تبصرہ نگاری میں مصروف قومی بدحالی کا مذاق اڑانے میں مشغول ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت سے سزا سنائی گئی تو شریف خاندان نے اسے خدائی فیصلہ قرار دیکر خاموشی اختیار کر لی۔جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے فرمایا کہ یہ ملک کسی سلیکٹڈنے آزاد نہیں کروایا تھا۔ مگر یہ بھی نہ بتا سکے کہ اُن کے خاندان کا تحریک آزادی میں کتنا حصہ تھا۔ سرشاہنواز بھٹو نے کشمیر کے معاملے میں جو کھیل کھیلا اُسکا خمیازہ آج پاکستانی اور کشمیری بھگت رہے ہیں اگربلاول تاشقند اور شملہ معائدوں پر بھی کچھ روشنی ڈالتے تو بات سمجھ میں آجاتی۔
پھر فرمایا کہ ضیاء الحق اور مشرف کی با قیات کے خلاف جنگ جاری ہے گی۔ بلاول شاید بے خبر ہیں کہ ضیا الحق او رپرویز مشرف کی باقیات ایوبی باقیات کی دوسری نسل ہے اور اسکا بڑا حصہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں ہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ بگٹی اور بے نظیر قتل کیسوں کے فیصلوں کا بھی انتظا ر ہے۔ کوئی تو پوچھے کہ آپ کے والد پانچ سال تک حکمران رہے ہیں آخر وہ فیصلہ کیوں نہ کر سکے۔ بگٹی صاحب کیساتھ کیا ہوا اسکا بہتر جواب جنرل عبدالقادر بلوچ اور جنرل عبدالقیوم ہی دے سکتے ہیں۔ جنرل قادر بلوچ تب گورنر بلوچستان تھے اور جنرل عبدالقیوم نے اس واقعہ پر نوائے وقت میں طویل مضامین لکھ کر حادثہ کی قبل از وقت پشینگوئی کردی تھی۔
آخر میں فرمایا کہ جمہوریت کے لیے عدالتوں سے مزید فیصلے آنے چاہیے۔ پتہ نہیں جناب بلاول کو کس نے بتایا ہے کہ جمہوریت عدالتی فیصلوں سے پروان چڑتی ہے۔ بلاول کو کون سمجھائے کہ جمہوریت جمہوری رویوں اور قائدانہ صلاحیتوں سے مضبوط ہوتی ہے۔ عدالتیں انصاف کرتی ہیں، لیڈر شپ فیکٹریاں اور ووٹ چھاپنے کی مشینیں نہیں عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں اور سیاست کو گھر کی لونڈی اورجمہوریت کو کاروبار نہ بنائیں حکومت گدر کھیڈ نہیں اور نہ ہی مملکت باز یچہ اطفال ہے۔
چند روز پہلے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل پر نامور اینکر کے سامنے ن لیگ کے بیرسٹر رانجھا اور پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کے ہمراہ پی ٹی آئی کے شبلی فراز جلوہ افروز تھے۔ ٹاپک کشمیر تھا۔ جی ہاں وہی مرحوم محمود ہاشمی کا اداس کشمیر او ر اسرار احمد راجہ کا لہولہان کشمیر۔ جناب قمر زمان کائرہ، شبلی فراز کی باتوں پر زیرلب مسکراتے اور تمسخراڑاتے یہ ثابت کر رہے تھے کہ مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیاں صرف وہ ہی جانتے اور سمجھتے ہیں۔اُن ہی کے پاس اس مسئلے کے حل کا مجرد نسخہ ہے۔ وہ اپنے لیڈر آصف علی زرداری اور بلاول کی سیاسی بصیر ت و حکمت کے تابع کسی بھی لمحے کشمیر فتح کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کا ہدف کشمیر سے زیادہ شبلی فراز تھے جبکہ حقیقتاًیہ گدر کھیڈ ہی کھیل رہے تھے۔ پتہ نہیں شبلی فراز نے انہیں درست طریقے سے ہینڈ ل کیوں نہ کیا۔ بہر حال یہ شبلی فراز صاحب کا مسئلہ ہے۔
جناب کائرہ سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ سر شاہنواز بھٹو کی جونا گڑھ پالیسی کے اثرات نے ہی 1947ء میں کشمیر کو بھارت کی غلامی میں دیا اور پھر جناب ذولفقار علی بھٹو مرحوم تو 1965ء میں ہی کشمیر اور کشمیریوں کا گلہ کاٹنے کا بندوبست کر رہے تھے جو نہ ہوسکا۔ تاشقند میں کیا ہوا؟ بھٹو مرحوم تو نہ بتا سکے مگر درگا د اس اور مینن کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ بھٹو درہ حاجی پیر پر بھارتی قبضے کے حق میں کیوں تھے۔
شملہ کے بعد بھٹو آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے مگر سردار عبدالقیوم خان اور کرنل حسن مراز بھٹو کے راستہ کی رکاوٹ بن گئے۔ 1973ء میں اندرا گاندھی نے فاروق عبداللہ کے ذریعے بھٹو کا کیا پیغام بھیجا او ر بھٹو صاحب نے کیا کہا شاید کائر ہ صاحب کو یاد نہیں۔ SK دلت کی کتاب ”واجپائی ایئرز“ پڑھیں تو جواب مل جائیگا۔ کائرہ کے محبوب لیڈر آصف زرداری نے تو مسئلہ کشمیر تیس سال تک منجمند کرنے کا پیغام دیا تھا اورعملاً آصف علی زرداری اورمیاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا کر دس سال تک اس مسلئے کو منجمند ہی رکھا۔ جناب کائرہ بھی زرداری دور حکومت میں وائسرائے کشمیر رہے ہیں اور سوائے اپنی برداری کی خدمت کے اور کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا۔
محترم شبلی فراز نے یہ پوچھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ قمر زمان کائرہ پہلے وزیر امورکشمیر ہیں جنہوں نے وزیراعظم آزادکشمیر کو دھمکی دی کہ میں تمہیں وزیر امور کشمیر بن کر دیکھاؤنگا۔ جناب قمر زمان کائرہ کی اس دھمکی کا لائن آف کنٹرول کے ہر دو جانب خاموش دھماکہ ہوا ور سوائے کائرہ برادری کے ہر کشمیر ی نے مایوسی و محرومی کا اظہار کیا۔ جناب کائرہ کی دھمکی کا صاف مطلب تھا کہ تم لوگوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ پروفیسر نذیر انجم مرحوم نے سچ کہا تھا۔
میرے کشمیر ذرا جاگ کہ کچھ جاہ پسند
غیر کو تیرے مقدر کا خدا کہتے ہیں۔
سیاستدان جب جاہ پسند ہوں تو سیاست گدر کھیڈبن جاتی ہے۔ قوم فٹ بال اورملک باز یچہ اطفال بن جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں