حکومت کے شانہ بشانہ جو غیر سرکاری ادارے پورے ملک میں ،بالخصوص چترال اور گلگت بلتستان میں نظر انداز شدہ اور نچلے طبقے کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف سیکٹر میں کام کر رہے ہیں ۔ اُن میں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک ( اے کے ڈی این ) کا کردار نمایاں ہے ۔ گذشتہ تین دھائیوں سے یہ ادارہ گلگت بلتستان اور چترال میں لوگوں کی طرز زندگی میں بہتری لانے کیلئے معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ان گنت چھوٹے منصوبوں کے ذریعے روزگار کے مواقع پیداکرکے مسائل کے حل کے سلسلے میں شب و روز سرگرم عمل ہے ۔ جن سے لاکھوں افراد بالواسطہ اور بلا واسطہ فائد اُٹھارہے ہیں ۔ آغا خان کونسل پاکستان نے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے زیر اہتمام گلگت بلتستان و چترال میں تعلیم و صحت و دیگر شعبوں میں کئے گئے اقدامات کے بارے میں آگہی دینے کے سلسلے میں چترال اور جی بی کے صحافیوں کو آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی ، آغاخان ایجوکیشن ایگزامنیشن بورڈ اور آغا خان یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کے دورے کی دعوت دی
اے کے یو میں نر سنگ کا شعبہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس شعبے کا چترال اور گلگت بلتستان سے بہت قریبی تعلق ہے ۔ کیونکہ ان علاقوں سے بڑی تعداد میں بچے بچیاں نرسنگ کورس مکمل کرنے کے بعد نہ صرف چترال اور گلگت بلتستان کے ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں ۔ بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ نرسنگ کے شعبے کی ہیڈ ڈاکٹر روزینہ کریمیلانی چترال اور گلگت بلتستان کے نرس طلبہ پر انتہائی اعتماد کرتی ہیں اور اُنہیں انتہائی باصلاحیت قرار دیتی ہیں ۔ ڈاکٹر روزینہ سمیت اس شعبے کے تمام اساتذہ نے نرسنگ میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔ اور اُن ہی کی زیر تربیت سالانہ نرسوں کی بڑی تعداد ڈگری لے کر فارغ ہوتی ہے ۔ یونیورسٹی میں نرسنگ میں تربیت یافتہ چترال کے مقام سوسوم سے تعلق رکھنے والی بیٹی طاہرہ جو پیدائشی طور پر دل میں سوراخ والے بچوں کے علاج اور نگہداشت پر کام کرتی ہیں ۔ کئی بین الاقوامی اداروں سے بھی ڈگری حاصل کر چکی ہیں ۔ انہوں نے اپنے کام سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی ۔ اسی طرح غذر گلگت کے نوجوان نے بھی اس شعبے میں اپنے تجربات صحافیوں کے سامنے پیش کئے ۔ یہاں سے فارغ شدہ نر سنز اپنے کام کی ماہر ہوتی ہیں ۔ چترال اور گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے یہ خوشی کی بات ہے ۔ کہ ان علاقوں کی پسماندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے نرسز کورسز کے طلبہ کی فیسیں ختم کردی گئی ہیں ۔ اور میرٹ پر آنے والے بچے بچیاں بغیر کسی داخلہ فیس کے اس شعبے میں ڈگری حاصل کر رہے ہیں ۔ آغا خان یو نیورسٹی ہسپتال کراچی کی ڈاکٹری اور نرسنگ کی ڈگریاں بین الاقوامی سطح پر مستند مانے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ۔ کہ اس انسٹیٹیوٹ سے فارغ شدہ ڈگری ہولڈرز کو جاب کے حصول میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ ہ میں وقفے کے دوران ہسپتال کے اُس حصے کی وزٹ کرائی گئی ۔ جہاں داکٹرز اور نرسز کی تربیت مصنوعی انسانوں پر کرائی جاتی ہے ۔ اور پھر وہ اصل انسانوں کے علاج معالجے اور اپریشن کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے خود (ڈمی) مصنوعی مریضوں کے نبض چیک کئے ۔ جن کی نبض بالکل زندہ انسانوں کی طرح کام کر رہے تھے ۔ اور تدریسی ڈاکٹرز زیر تربیت ڈاکٹروں اور نرسوں کو عملی طور پر پڑھا رہے تھے ۔ ہ میں بتایا گیا ۔ کہ یہ لیبارٹری دُنیا کی اعلی لیبارٹریوں میں شامل ہیں ۔ اور یہاں سے ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسز حقیقی معنوں میں نہ صرف مرض کی تشخیص کر سکتے ہیں ۔ بلکہ ان کا علاج عام ڈکٹروں سے ہٹ کر نہایت ماہرانہ طور پر کر سکتے ہیں ۔ ہسپتال میں ای میڈیکیشن پسماندہ علاقوں کیلئے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ ہ میں ای میڈیکشن سنٹر کا وزٹ کرایا گیا ۔ جہاں ڈاکٹر مریض کے ٹیسٹ آن لائن دیکھنے کے بعد ادویات تجویز کرتے ہیں ۔ اور اس کیلئے مریض کو ہزاروں کلومیٹر دور سے سفر کی صعبتیں برداشت کرکے آغا خان ہسپتال کراچی جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ چترال میں بونی میڈیکل سنٹر اور گلگت بلتستان میں گلگت میڈیکل سنٹر کو اس کے ساتھ لنک کر دیا گیا ہے ۔ جہاں معیاری لیبارٹریز میں مریض کے ٹیسٹ رپورٹ آن لائن اے کے یو ہسپتال کے اس شعبے میں بھیجا جاتا ہے ۔ جہاں متعلقہ ڈاکٹرنسخہ تجویز کرتا ہے ۔ وزٹ کے دوران ہسپتال کے لان ، سبزہ زار اور درختوں کے نیچے کُرسیوں پر اپنی باری کا انتظار کرنے والے مریضوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوا ۔ کہ ہسپتال پر اشرافیہ ، صاحب استطاعت اور مخصوص کمیونٹی کے علاج کا الزام حقیقت پر مبنی نہیں ہے ۔ علاج معالجے میں کسی مریض کی مالی حیثیت نہیں دیکھی جاتی ۔ صرف انسانیت کے قدرو احترام میں علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔ جس میں متوسط اور نادار طبقے کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ تاہم کچھ لوگ ہسپتال کے قواعد و ضوابط سے نا بلد ہونے کی وجہ سے الزام تراشیوں پر اتر آتے ہیں ۔ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
دورے کے دوسرے روز آغا خان یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کا دورہ کرایا گیا ۔ اس ادارے کے ڈین ڈاکٹر ساجد نے گلگت بلتستان اور چترال کے صحافیوں کو خوش آمدید کہا ۔ ہمارے اس نشست میں گلگت اور چترال سے پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر ز کے ہیڈز ویڈیو لنک کے ذریعے سے ہمارے ساتھ موجود تھے ۔ ڈاکٹر ساجد نے بتایا ۔ کہ اے کے یو آئی ای ڈی کا قیام 1993 میں عمل میں لایا گیا تھا ۔ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا ۔ کہ اس ادارے کے ذریعے اعلی صلاحیتوں کے مالک اساتذہ تیا ر کئے جائیں ۔ جن کے ذریعے سے قوم کے نو نہالوں کو مستقبل میں معیاری تعلیم اور تربیت فراہم کی جا سکے ۔ اپنے قیام کے گذشتہ چھبیس سالوں سے ادارہ اپنے اہداف کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ادارے نے اب تک 19018 اساتذہ کو تربیت فراہم کرکے اُن کے استعداد کار کو بڑھایا ۔ جس میں سرکاری اساتذہ کی تعداد 13000 ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر آٹھ نظر انداز شدہ اضلاع جن میں گلگت بلتستان اور چترال شامل ہیں ۔ میں ڈراپ اوٹ طلباء کو دوبارہ سکولوں میں لانے کی کوششیں اُن کے پروگرام کا حصہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں پچیس ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں ۔ اور آٹھائیس ملین بچوں کے پا س صرف واجبی تعلیم ہے ۔ جو ان کی ضروت کو پورا نہیں کرتا ۔ ہماری کوشش ہے ۔ کہ کوئی بھی بچہ زیور تعلیم سے محروم نہ رہے ۔ اور اس جدو جہد میں رائل نارویجن ایمبیسی کا تعاون ہ میں حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہمارا مقصد صرف تعلیم کی فراہمی نہیں ۔ بلکہ معیاری تعلیم کی فراہمی کو ممکن بنانا ہے ۔ تاکہ ادارے کی زیر نگرانی فارغ ہونے والے طلبا ء زندگی کے تمام شعبوں میں وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر سکیں ۔ اے کے یو آئی ای ڈی ، ای سی ڈی سے لے کر پی ایچ ڈی تک اعلی تعلیم کی فراہمی میں اپنا کرادار ادا کرتا ہے ۔ اس مو قع پر صحافیوں کی طرف سے سکولوں کے حوالے سے مختلف سوالات کئے گئے ۔ چترال کی طرف سے اپر چترال کے مقام یارخون اور بروغل میں سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ کے زیر انتظام چلنے والے تقریبا بارہ سکولوں کی بندش اور بارہ سو طلبہ کی تعلیمی مشکلات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈاکٹر ریاض اور شیرزاد علی حیدر نے کہا ۔ کہ سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ کو این او سی نہ ملنے کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں ۔ تاہم آغا خان ایجوکیشن نے عارضی طور پر طلباء کی تعلیم کا انتظام کر لیا ہے ۔ مستقل بنیادوں پر مسئلے کے حل کیلئے حکومت کے ساتھ بات چیت جاری ہے ۔ صحافیوں کو بعد آزان آغا خان اگزامنیشن بورڈ کا بھی دورہ کرایا گیا ۔ ڈاکٹر شہزاد چیمہ اس شعبے کے ڈین ہیں ۔ انہوں نے امتحانی طریقہ کار اور پرچہ جات کی مارکنگ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ۔ کہ امتحانی سوالناموں کی تیاری انتہائی سکیورٹی میں کی جاتی ہے ۔ اور امتحانی پرچہ جات کی مارکنگ با قاعدہ طور پر مشینیں کرتے ہیں ۔ جس میں غلطی کی گنجائش صرف ایک فیصد ہے ۔ انہوں نے بتایا ۔ کہ آغا خان امتحانی بورڈ میں نقل کا تصور نہیں ہے ۔ اور نہ کسی قسم کی رشتہ داری اور تعلق کی بنیاد پر نمبر اپنی مرضی سے حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ اور نہ کسی کے نمبر گھٹائے جا سکتے ہیں ،یہی اس کے اعلی معیار کی دلیل ہے ۔ ڈین نے مختلف مشینوں کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دی ۔ جو کہ آغا خان ایگزامنیشن بورڈ کو دوسرے تمام تعلیمی اداروں کے مقابلے میں شفاف اور منفرد بنا دیتی ہیں ۔
دوسرے دن کا آخری سیشن گلگت بلتستان اور چترال کے مشترکہ اہم مسئلہ خود کُشی سے متعلق تھا ۔ اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر روزینہ کریمیلانی نے صحافیوں سے تفصیلی گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے ۔ کہ پورے ملک میں بڑوں کیلئے چار سو اور بچوں کے لئے صرف پانچ نفسیاتی ڈاکٹرز ہیں ۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بیماری کی سمجھ ہی نہیں ہے ۔ پوری دُنیا میں مردوں کی خودکُشی کی شرح زیادہ ہے ۔ لیکن حیران کُن امر یہ ہے ۔ کہ گلگت بلتستان اور چترال میں جوانسال خواتین اور لڑکیوں کی خود کُشی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ والدین ، رشتے داروں اور معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے اکثر اوقات بہت معمولی نوعیت کے مسئلے کے باعث خو د کُشی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر ، روحانیت،ماحول اور رشتے دار ایسے واقعات کو روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں ۔ خصوصا اس حوالے سے میڈیا کا اکردار انتہائی اہم ہے ۔ وہ ی اس طرح ،کہ خود کُشی کرنے والے کو زیادہ ہیرو کرکے پیش نہ کیا جائے ۔ سنسنی خیزی سے پرہیز کیا جائے ۔ اور مبالغہ آرائی سے اجتناب برتا جائے ۔ جگہ اور علاقے کو مخفی رکھا جائے ۔ تو اس میں بہت کمی آسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق خود کُشی کی کئی وجوہات ہیں ۔ تاہم جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت کا خیال رکھنے کی صورت میں اس میں بہت حد تک کمی آسکتی ہے