332

احساس کے خاتمہ پر فاتحہ پڑھ لیں۔۔۔۔۔تحریر :میاں وقاص ظہیر

مشہور افسانہ نگار اشفاق احمد ( مرحوم ) کیا خوب فرما گئے ہیں ، انہوں نے لکھا ہے کہ فاتحہ انسان کے مرنے پر نہیں احساس کے مرنے پر پڑ ھنی چاہئے، جب احساس رخصت ہوتا ہے ، تو اس کا آخری ٹھکانہ بے ضمیر قبرستان ہے ، اس کے بعد کرپشن ، رشوت، بدعنوانی اور قتل و غارت گری کا بازار اسی طرح گرم رہتا ہے ، جس طرح آج وطن عزیز میں گرم ہے ، ہماری نا لائقیوں کی وجہ سے عذاب بن کر جس طرح کے حکمران ،بیوروکریٹس ، تاجر مافیا ہمارے اوپر مسلط ہیں، اس پر تو ہماری احساسات پر فاتحہ پڑھ لینا ہی آخری ذریعہ نجات ہے ، حکومت واپڈ ،پی آئی اے ،سٹیل سمیت درجنوں سرکاری اداروں کی نجکاری کی ٹھان چکی ہے ، واپڈا ، پی آئی اے سمیت دیگر ملازمین سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے، مجال ہے اس’’ وائیبرنٹ ‘‘میڈیا کہ ان کے احتجاج اور دھرنوں کو عام آدمی کے سامنے اتنی کوریج دے جتنی پی ٹی آئی کے دھرنے کو ملی ہے ، کہ یہاں کے ریاستی اداروں کو مفاد پرست ٹولہ قربان کرنے نکل چکاہے، نہ ہی جرات ہے احتساب و انصاف کے اداروں کو کہ وہ اس حکومت سے پوچھ سکیں کہ جناب! جو ادارے منافع بخش ہیں ان کی نجکاری کیوں کی جارہی ہے ، جو خسارے میں چل رہے ہیں انہیں خسارے سے نکالنے کیلئے کیوں آپ کی حکومت اور بھاری بھر کم مراعات پانے والے وزیروں ،بیوروکریٹس نے اقدامات نہیں کیں ، شاید اس لئے کہ حکومت کی طرف سے سوائے چند ایک خاندانوں کے باقی ساری قوم مرتی ہے تو مرجائے ، ان کے افراد بیروزگار ہوتے ہیں ہوجائیں ، پڑھے لکھے لوگ سڑکوں پر اپنے حقوق کیلئے پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہیں ،تشدد برداشت کرتے ہیں ،جیل جاتے ہیں ، جھوٹے مقدمات بھگتے ہیں، تو یہ سارے مظالم برداشت کرتے ہیں تو کرتے جائیں ،ہمارے توکان پر کوئی جوں نہیں رینگتی ، کیونکہ بیوروکریسی اور پولیس ان کی پالتو ہے ، باقی سب جہنم میں جائیں، بطور پاکستانی اور بطور انسان ہماری بیوروکریسی اور پولیس کو نہتے شہریوں پر مظالم ڈھانے سے قبل اس بات کا جائزہ ضرو ر لینا چاہئے کہ ہمیں تنخواہ حکومت نہیں دیتی ، اسی عام آدمی کے ٹیکس سے ملتی ہے جن کے ہم حقوق سلب کر رہے ہیں ، جن پر لاٹھیوں سے تشدد کرتے ہیں، مقدمات بناتے ہیں ، جیلوں میں بھیجتے ہیں، ہسپتالوں میں جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں، یہی ہماری بنجر زمینوں پر کھیت اور کھلیان بنانے کیلئے موسم کی سختی سے بالاتر ہوکر اپنا خون پسینہ خرچ کرتے ہیں، بجائے ان کے کہ ہم اس عام آدمی کی آسانی کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہم نے تو ان سے بنیادی سہولیات بھی چھین لی ہیں، گرمیاں ہے تو بجلی نہیں، سردیوں میں گیس نہیں ،بچوں کیلئے تعلیم نہیں ،ہسپتالوں میں مناسب علاج نہیں ،حتیٰ کہ عام آدمی کو صاف پانی پینے کی سہولیات نہیں ،روزگار کے مناسب مواقع نہیں ، جب انہی کی حاملہ بیویاں ،بہنیں ، بیٹیاں ہسپتال تک نہ پہنچنے سے فصلوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں تو کیا بیتا ہوگا، لعنت !بھیجتا ہو ایسی جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں پر جس میں جمہور ( یعنی عوام ) کی فلاح کیلئے کچھ نہیں کیا، اگر آپ میڑو بس ، میٹروٹرین اور سڑکوں بنانے کو ترقی کہتے ہیں ، تو ایک بارپھر ایسی سوچ پر لعنت جس نے آنکھیں مفادات کی پٹی نے بند کر رکھی ہیں ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے وقت سے پہلے ملازمت میں توسیع نہ لینے کے بیان جس طرح یہ مفادات پرست سیاستدان بغلیں بجا کر اسے حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں کیا کبھی انہیں نے عام آدمی کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی ، جنرل راحیل ’’پیور ‘‘فوجی بیک گراؤنڈ کے اعلیٰ ظرف انسان ہیں ، جو شخصیت ،مفاد سے بالاتر ہوکرادارے کو مقدس سمجھتے ہیں، ان کے فولادی اقدام نے ا یک طرف سیاسی حلقوں میں ہونے والی قیاس آرائیوں دوسری جانب حکومتی سوچ کو بھی ’’شپ اپ ‘‘کہا ہے ، ان کے ضمیر نے یہ گواہ نہیں کیا کہ وہ ان نیب زدہ ، بد کردار حکمرانوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوکر ملازمت میں توسیع مانگتے ، قوم کی طرح ن لیگ اور ان کے حواریوں کے تعصب کو کون نہیں جاتا جو اپنے مفادات کیلئے آخری حد تک چلے جاتے ہیں ، ابھی کل ہی کی بات ہے پرویز رشید کی پریس کا نفر نس میں سرکاری ایجنسی کے ایک سینئر صحافی نے’’ قرض اتارو ملک سنوارو ‘‘کی رقم کے بارے میں سوال پوچھا تو موصوف وفاقی وزیر اطلاعات آگ بگولا ہوگئے اور پریس کانفرنس کے دوران ہی ان صحافی کے سوال پر ایسی ڈانٹ پلائی یہاں تک کہہ دیا کہ آپ سرکاری ایجنسی کے صحافی ہوتے ہوئے وزیراعظم کیخلاف سوال کر رہے ہیں آپ کو کس نے نوکری پر رکھا ہے ساتھ ہی یہ کہہ کر پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے کہ آپ لوگ اس قابل ہی نہیں آپ سے بات کی جائے، محترم وزیر صاحب ! جان کی امان پاتے ہوئے صرف آپ کو یہ کہوں گا بظاہر آپ کے رویئے سے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ ہمیں حشرات الارض سمجھتے ہیں، تو ہمیں بھی کوئی شوق نہیں آپ جیسے تعصبانہ ذہنیت کے آدمی کیساتھ بات کرنے کا آپ پر اس وقت اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بھول رہاہے، اسی نشے میں دھت ہوکر شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ کل کلاں جب آپ پر برا وقت آئے گا تو آپ انہی صحافیوں کے ذریعے اپنی بات ایوان تک پہچانے کے محتاج نظر آئیں ، اس وقت آپ خود کو دنیا کا سب سے بڑا مظلوم ثابت کرنے کی ایکٹنگ کریں گے ، اب یہ صحافی برداری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کیمر ے کی آنکھ میں محفوظ ہونے والے ان کے الفاظ کو دیکھا جائے ، چلتے چلتے یہ کہتا چلو کہ ایک این جی اور کی ملک بھر ہیپاٹیٹس سے روازنہ ہونے والی چار ہزار اموات کی سروے رپورٹ کا پنجاب حکومت نے نوٹس لے کر محکمہ صحت سے 15روز میں پنجاب بارے اعداد وشمار کی جامع رپورٹ طلب کرلی ہے ، یہ بھی نوٹس پہلے لئے گئے نوٹس کی طرح ثابت ہوگیا کیونکہ عملی اقدامات نہ تو حکومت نے کرنے ہیں اور نہ ہی دور دور تک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو مر گئے یا مر رہے ہیں ہمیں ان کے مرنے پر فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے بلکہ اپنے اندر احسا س کے خاتمے پر فاتحہ پڑھ لیں جسے بے ضمیر قبرستان میں کئی برسوں پہلے دفنا دیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں