290

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔ خواتیں کا عالمی دن اور قاری جمیل کا لکچر۔۔۔محمد جاوید حیات

عورت بھی کیا عجوبہ ہے سارے عالم کے لئے درد سر ہے۔کبھی اس کا جسم موضوع بحث کبھی اس کا حسن خرابی بے سیار کی ابتداء۔کبھی یہ خود فساد کی جڑ۔۔ملکوں ملکوں اس کی وجہ سے آگ۔۔قوموں قوموں کے زوال میں اس کا کردار۔انسانیت کا تانابانا اس سے وابستہ۔اچھے اچھوں کے خلل دماغ کا یہ سبب۔کبھی بہت بے وقعت کبھی ہیرا جوہرات سے قیمتی۔ہر دور میں اس کے الگ موضوعات۔اس کی الگ حیثیت۔اس کا الگ مقام۔کبھی یہ دیوتا۔۔کبھی ننگ خاندان زندہ گڑی جائے دفن کی جائے۔کبھی مورتی۔۔بڑے بڑے دیوتا کی مورتیاں اس کے جسم کے نمائندے۔اے عورت!تیرا نام فساد ہے۔۔اے عورت!تیرا نام کمزوری ہے۔۔یہ موضوع سیمنار کہ عورت انسان بھی ہے کہ نہیں۔کبھی چادر چاردیواری کبھی جسم اس کا مرضی اس کی۔۔مدام کیوری سائنسدان۔۔کوئی خلاباز۔۔پائلٹ۔۔جنگجو۔۔سیات دان۔استاد۔۔ڈاکٹر۔۔ایک مخمصہ ہے۔۔ ایک دلچسپ موضوع۔۔اس لئے اس کو کائنات کی رنگینی کہا گیا۔۔اگر ایسا نہ ہوتا تو کون اپنا دماغ خراب کرتا۔لیکن یہ تو تسلیم شدہ ہے کہ انسایت کی گاڑی کا دوسرا پہیہ۔۔دوسرا اور اہم ستون۔۔۔ انسان تب انسان۔۔۔ عورت مرد دونوں مل کر انسانیت کے تار وپوت۔۔ہر دور کے ساتھ یہ معصوم مخلوق اپناتعارف معاشرے میں مختلف انداز میں کرانے کی کوشش کی مگر فطرت نے اس کو جو مقام دیا ہے مقام بھی وہی رہا تعارف بھی وہی رہا۔۔وہ کوشش کرکے بھی اپنا مقام امومت تبدیل نہ کر سکی۔۔اس کوماں بننا ہی پڑا ورنہ اس کو فطری تسکین کبھی نہیں ہوا۔اس کو بہن بننے میں سکون ملتا ہی رہا۔ا سکو اپنے حسن اپنی شخصیت سے والہانہ محبت ہی رہی۔۔اس کی فطرت تلوار کی جگہ زیور ہی مانگتی رہی۔اس کا بچپن ”ٹگ وار“کی جگہ گڑیوں کی شادی پر اسرار کرتا رہا۔اس کے اندر کی بچی”للکار“کی بجائے ”پکار“ کو ترجیح دیتی رہی۔اس کو آنسووں سے محبت رہی۔۔وہ اندر کی اس جنگ میں جیتنے کی بہت کوشش کی مگر ہار ہی گئی۔وہ عورت ہی رہی۔۔ ماں،بہن،بیٹی شریک حیات۔۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کونسا مسلک،کونسا معاشرہ،کونسا مذہب،کونسی تحریک اور انقلاب اسلا م سے زیادہ اس کو عزت دی۔اس کو مقام عطا کیا۔اس کے حقوق متعین کیا۔۔لیکن پھر بھی وہ کبھی کبھی اپنی فطرت کے خلاف ایک سلوگن بن کے وقت کے صحرا میں بگولے کی طرح اٹھی مگر پھر سہم گئی اور اپنا وجود کھو نے کے خطرے تک پہنچ گئی۔۔موجودہ دور میں جہان ہر طرف جمہوریت،آزادی،حقوق،اختیار وغیرہ کی آوازیں اٹھ رہی ہیں تو ان پنڈولمز نے پھر سے حوا ء کی بیٹی کو وقت کے صحرا میں بگولے کی طرح اڑانے پہ تلے ہوئے ہیں۔۔”خوتین کا عالمی دن“ پوری دنیا میں اور پاک سر زمین میں بھی منایا جا رہاہے۔۔اس حوالے سے گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت میں صبح کی اسمبلی میں قاری جمیل کا پر معز خطاب سننے،سنانے اور لکھنے کے قابل رہا۔۔قاری جمیل ایک سلجھے ہوئے مقرر ہیں دینی اور عصری علوم سے با خبر ہیں۔۔انھوں نے اپنے خطاب میں پہلے انسان اور انسانیت کی تعریف کی۔۔پھر تاریخ کے حوالے سے انسانیت پر مظالم کا ذکر کیا پھر اسلام کے حوالے سے مرد اور خواتیں کے مقام،فرائض اور کر دار کا ذکر کیا۔۔آپ نے کہا کہ قرآن نے جہان مر دکا ذکرکیا وہاں عورت کا بھی ذکرکیا۔”بے شک مسلمان مرد اور عورتیں،مومن مرد مومن عورت،قربانی والا مرد قربانی والی عورت،صابر مرد صابر عورت،اللہ سے ڈرنے والامرداور اللہ سے ڈرنے والی عورت،صدقہ دینے والا مرد اور صدقہ دینے والی عورت،روزہ دار مرد اور روزہ دار عورت،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا مرد اور عورت،اللہ کاذکر کرنے والا مرداور اللہ کا ذکر کرنے والی عورت۔۔۔۔پھر پردے کے لئے پہلے مرد کو حکم کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھو پھر عورت کے لئے حکم۔۔پھر سورت النساء۔۔میراث حقوق مرتبے اور مقام کا ذکر۔۔سورہ بقرہ اولاد کی پر ورش شادی بیاہ طلاق کا ذکر۔پھر حضرت مریم ؑکا ذکر۔پھر احادیث پاک۔۔فخر موجوداتﷺ کا پاک رویہ۔۔عورت کے بارے اللہ سے ڈرو کی تاکید۔۔عورت خوشبو۔عورت ناموس۔۔عورت جائے پناہ وجہ سکون۔۔عورت وفا کی پتلی۔۔ماں کے قدموں تلے جنت۔۔قاری جمیل نے کہا۔۔قرآن نے مرد کو عورت کا نگہبان مقرر کیا۔۔محافظ اور ذمہ دار۔۔اب المیہ یہ ہے کہ یہ عورت پھر حقوق مانگ رہی ہے۔۔دوسری طرف مرد شکوہ کنان ہے کہ عورت آزادی مانگ رہی ہے۔یہی مرد اگر سوچے کہ کیا وہ عورت کے سارے حقوق پورا کر رہا ہے۔جائداد میں حق دے رہا ہے۔۔نان نفقہ کا خیال رکھ رہا ہے بیٹے کی طرح بیٹی کی تعلیم وتربیت کر رہا ہے۔اس کو اللہ کی رحمت سمجھ رہا ہے۔بالکل ایا کچھ نہیں کر رہا ہے۔ خالی اس کوبرا بھلاکہہ رہا ہے۔۔وہ بے چاری اس ظالم سماجھ میں پسی جا رہی ہے۔۔وہ مجبور محض ہے۔وہ محروم ازلی ہے۔وہ شکستہ و درماندہ ہے۔یہی مرد جس کا کام عورت کو برا بھلاکہنا ہے۔۔اگر عورت بے راہرو ہو گئی ہے تو یہ مرد نہیں سوچتا کہ اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت تو اسی مرد کے ہاتھوں ہوئی ہے۔دوسری طرف یہی عورت بس مرد کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔اپنے مقام اور فرائض کا پتہ نہیں۔قاری جمیل نے کہا کہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو عورت کی اہمیت مرد سے زیادہ ہے عورت کی تعلم و تربیت مرد سے اہم ہے۔عورت کا کردار مرد سے موثر ہے۔یہ کردارگھر کے اندر بھی اہم ہے اور باہر بھی لیکن اگر کردار نہیں ہے تو نہ اس کو گھر کے اندر نبھایا جا سکتا نہ باہر۔۔خاندان کی بنیاد عورت ہے۔غیرت مند قوم کی تربیت عورت کرتی ہے۔۔اس کی گود پہلی تربیت گاہ ہے۔اس کی باوقار زندگی چادر کے اندر ہے۔۔آج اعیار ملت بیضاء کی ماں،بہن بیٹی کو اس چادر سے باہر لانا چاہتا ہے۔۔تاکہ ملت بیضاء اپنی غیرت کھو دے۔۔عورت کی تعلیم و تربیت پر جتنا زور اسلام دیتا ہے اتنا کوئی مذہب نہیں دیتا۔لیکن مذہب دنیا نے دیکھی ہے کہ عورت جب اس چادر ناموس سے باہر آتی ہے تووہ کھلونا ہے بے قیمت سی چیز ہے خواہ وہ صابن کے اشتہار میں ہی کیوں نظر نہ آئے۔۔قاری جمیل نے کہا کہ ہم خواتیں کے عالمی دن کے حامی ہیں لیکن خاتون اپنا نعرہ بدل دے۔۔درست اور اعلی تعلیم و تربیت مانگے۔۔وارثت میں حق مانگے۔۔معاشرے میں مقام مانگے۔۔اس کے ساتھ کون نہیں دے گا۔کون اپنی ماں کا ہاتھ نہیں چومے گا کون اپنی بیٹی کی پشانی پہ بوسہ نہیں دے گا۔کون اپنی بہن کا احترام نہیں کرے گا۔۔اگر عورت آج بیدار ہوئی ہے یہ سب کچھ مانگ رہی ہے تو اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔۔اس کی حمایت کرنی چاہیے لیکن اسلامکے متعین کردہ دائرے سے باہرمسلمان اور مومنہ عورت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔۔اس کی تقریر کا لفظ لفظ موتی لگا۔۔اور صفحہ قرطاس اس کا تقاضہ کرنے لگے کہ موتی الفاظ بن جائیں۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں