296

ٹائٹل: ریڈکراس۔۔’’پروفیسروں کا المیہ‘‘۔۔۔تحریر: امیرجان حقانیؔ

آج میں ایک ایسا خط شائع کرنے جارہا ہوں جو میرے خلاف ہے، میری پوری کمیونٹی کے خلاف ہے۔اپنے خلاف کوئی تحریر شائع کرنا بہت مشکل ہے بلکہ آج کے دور میں ناممکنات میں شامل ہے تاہم میں یہ رسک لینے جارہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میرے احباب خوش دلی سے ان فرمودات کا سامنا کریں گے اور اگر واقعتا ان باتوں میں صداقت ہے تو اپنی اصلاح فرمائیں گے۔انشاء اللہ
’’السلام علیکم! امید ہے آ پ خیرت سے ہونگے۔محترم حقانی صاحب! میں آپ کا پرانا قاری ہوں، آپ کی تحریریں اخبارات اور سوشل میڈیا میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔سماجی،Group photo of profisrz سیاسی اورتعلیمی مسائل پر آپ کی رائے کا احترام معتبر حلقوں میں کیا جاتا ہے۔آپ چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل کو بھی اجاگر کرتے ہیں مگر پانچ سالہ طویل عرصہ گزارنے ، اور سب کچھ جاننے کے باوجود بھی اپنی برادری کے متعلق ایک حرفِ شکایت نہ لکھنا حیرت سے خالی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آج آپ سے مخاطب ہوجاؤں اور آپ سے آپ کی شکایت کروں، آپ کی برادری کی شکایت کروں،آپ تمام پروفیسروں اور لیکچراروں کو آئینہ دکھاؤں، تاہم مجھے یہ یقین ہے کہ آپ میرے اس تحریر کردہ خط کو اپنے کالم میں شائع نہیں کریں گے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ آپ اپنے خلاف اور اپنی چہیتی برادری کے خلاف اپنے کالم میں جگہ دے ہی نہیں سکتے۔یہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اپنا احتساب سب سے مشکل ہے اور اپنے متعلق حقائق عامۃ الناس تک پہنچانا کوئی نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی ان حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔آپ میرے تلخ حقائق کو اپنے کالم میں جگہ دیںیا نہ دیں میں آپ کو لکھ کر اپنا فرض ضرور ادا کرونگا۔اورجلدگلگت بلتستان کے ٹیچروں کی کارستانیوں اور لاپروہیوں پر مشتمل تفصیلات بھی آپ کو تفصیل سے لکھ کرارسال کرونگا۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام پروفیسرز اور لیکچرار اپنے فرائض منصبی سے انصاف نہیں کرتے۔اکثر کالجز میں پانچ ماہ سے کم د رس و تدریس کا سلسلہ چلتا ہے اور اس قلیل وقت میں بھی یہ حضرات حاضر نہیں ہوتے ہیں یا یکسوئی اور ایمانداری سے تیاری کرکے نہیں پڑھاتے ہیں۔جتنی کوشش ایگزام لینے اور اسسمنٹ کرنے کے لیے کرتے ہیں اس کا عشرہ عشیر بھی پڑھانے کے لیئے نہیں کرتے۔بہت سارے پروفیسر ز اور لیکچرار کالجز جانے کے بجائے پیپرز چیک کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں اور درجنوں کی تعداد میں یہ حضرات دوران تدریس اوٹ اسٹیشن ایگزام ڈیوٹیاں لگواتے ہیں اور کلاسیں ضائع کرکے امتحان لینے کے لیے دور دور علاقوں میں چلے جاتے ہیں اگر انہیں یہ کہا جائے کہ ان علاقوں کے کالجز میں پڑھانے کے چلے جاؤ تو ان کی جان نکلتی ہے اور ہزاروں بہانے بناتے ہیں اور ہر قسم کا سیاسی و مذہبی سورس لگاتے ہیں کہ ان کا فورا تبادلہ ہوجائے۔کیا یہ سچ نہیں ہے؟۔پروفیسروں اور لیکچراروں کی اسسمنٹ اور ایگزام ڈیوٹی کے لیے کوششوں کو دیکھتا ہوں تو ہنسی آجاتی ہے کہ یہ لوگ ایک ایگزام ڈیوٹی کے لیے برادری کے دوسرے پروفیسرز اور لیکچرارز کے بارے میں کیا کیا سازشیں بنتے ہیں اور من گھڑت کہانیاں بناتے ہیں اور ہر قسم کے کارڈ کھیلتے ہیں جن میں مذہبی،علاقائی، لسانی اور تعصب کارڈ سرفہرست ہیں۔ پرنسپل شپ کے لیے لڑنا تو معمول کی بات ہے اور پسندیدہ اسٹیشنوں میں ٹرانفسری اور پرنسپل بننے کے لیے پروفیسر برادری کونسا حربہ ہے جو استعمال نہیں کرتی؟اور ہاں اسسمنٹ میں ہیڈ بننے کے لیے ایک دوسروں پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں اور کالجوں میں پڑھانے کے بجائے دفتروں میں کلرک بننے کا رجحان سینئر پروفیسروں اور لیکچراروں میں بدرجہ اتم پایاجاتا ہے۔ اس کے لیے ہرممکن تگ و دو بھی کرتے ہیں۔
حقانی ؔ صاحب! ایمانداری سے بتائیں کہ کیا آپ کی برادری کے لوگ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرتے ہیں؟ یقیناًجواب نفی میں ہے۔ طلبہ کو مطمئن کرنا اور ان کے اشکالات و اعتراضات کا مسکت اور درست جواب دینا گلگت بلتستان کے کالجز میں رواج ہی نہیں ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے لیے پروفیسروں کو مطالعہ کرنا ہوتا ہے جو وہ قطعا نہیں کرتے؟۔ مجھے دوچار کے علاوہ کوئی پروفیسر ملا ہی نہیں کہ جو کتاب دوست ہو، اپنے پاس کتابیں جمع کرتا ہو، اچھی گاڑی اور اچھے کپڑے پہننے میں ایک دوسروں سے سبقت ضرور لے جائیں گئے مگر اچھی کتاب خریدنے یا پھر کسی لائیبریری سے ایشو کرواکر پڑھنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا۔تین سو افراد پر مشتمل اس پوری برادری میں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے تحقیق و تفتیش کو اپنا اورڑھنا بچھونابنایا ہواہے؟کتنے ہیں جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کرتے ہیں؟ کتنے ہیں جو تحقیقی مقالے لکھتے ہیں اور علمی و ادبی مجلسوں میں پیش کرتے ہیں؟ ایک بھی نہیں نا؟ اور ہاں کتنے لوگ ہیں جو سماجی و معاشرتی مصلح بن کر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں؟ اور تو اور آج کے جدید دور میں آپ کی برادری کے اکثر لوگ انٹرنیٹ سے بھی واقف نہیں،اخبار تک نہیں پڑھتے چہ جائیں کہ اخبار میں کوئی فیچر، کالم یا مضمون لکھیں،آپ کی دو درجن سے زائد کالجوں سے ایک بھی میگزین نہیں نکلتا حالانکہ طلبہ سے میگزین کی مد میں لاکھوں فیس وصول کی جاتی ہے۔مجھے انصاف سے بتاؤ کہ آپ کی پوری برادری نے کتنی ادبی، علمی اور قلمی کانفرنسیں کروائی ہے اور محفلیں منعقد کی ہیں؟ ایک بھی نہیں۔کسی ادبی، علمی اور سماجی مجلس میں پروفیسر وں کا کنڑی بیوشن زیرو فیصد ہے۔ریڈیو پاکستان ، ایف ایم چینل اور ٹی وی میں کتنے پروگرامز کرتے ہیں؟ ۔یہ سچ بھی غور سے سن لو کہ دنیا میں لوگ تحقیق، تالیف، اور علمی مقالے لکھ کر پروفیسر بن جاتے ہیں مگر گلگت بلتستان میں آپ کی برادری کے لوگ گریڈ ۱۸ اور ۱۹ حاصل کرکے پروفیسر بن جاتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لکھتے ہیں۔کچھ لوگ شاعری کرتے ہیں اور کچھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ ان کی شاعری اور تحریریں سرقہ شدہ ہوتی ہیں۔دوسروں کے الفاظ، تراکیب اور ادبی جملے اور خیالات چراکر شاعری کرنا ، تحریریں لکھنا اور کتابیں تالیف کرنا یقیناًعلمی وادبی دنیا میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔معاشرہ پروفیسروں سے کچھ امیدیں رکھتا ہے مگر آج تک ان کی امیدیں بھر نہیں آتی۔کتنی کتابیں ہیں جن کا ترجمہ گلگت بلتستان کے پروفیسروں نے کی ہیں حالانکہ میں درجن سے زائد لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بہترین کتابوں کے ترجمے کیے ہیں جو پروفیسر نہیں۔آپ لوگ اپنی نجی محفلوں میں ہر ایک کو لتاڑتے رہتے ہو مگر آپ سے ایک بھی ادبی اور علمی و صحافتی اور تحقیقی کام نہیں ہوتا۔ کیا آج تک تعلیم میں بہتری، معاشرے میں انصاف، سماجی ہم آہنگی، اور اداروں کی ترقی اور علاقے کی بھلائی کے لیے آپ کی برادری نے کوئی رہنمائی کی ہے؟ کوئی پلا ن تیار کرکے حکومت کودیاہے کہ وہ اس کو نافذ کرے؟۔ہاں یہ تو دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ نے اپنی پرموشن، ٹائم سیکیل کی منظوری اور دیگر مالی مفادات کے حصول کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ہر کوشش کی ہے اور کالجوں میں ہڑتالیں کروائی ہے اور طلبہ کا وقت ضائع کیا ہے۔آپ حضرات کی ایک ایسوسی ایشن بھی ہے جو ابھی تک رجسٹرڈ ہی نہیں۔ایسوسی ایشن کی ماضی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کا واحد مشن یہ ہے کہ فلاں کی ٹرانسفری فلاں جگہ ہوجائے۔ ٹائم سیکیل مل جائے۔ فلاں کی ایگزام ڈیوٹی لگائی جائے اور فلاں کی نہ لگائی جائے۔ اسسمنٹ ریٹ بڑھایا جائے اور سپلیمنٹری میں صرف فلاں فلاں کو بلاؤ، اس کے لیے ایک دوسروں کی شکایات کا انبار لگاتے ہیں اور اپنے مقام سے بہت نیچے گرجاتے ہیں۔صرف اور صرف ذاتی مفاد کے لیے کوئی شین بنتا ہے کوئی یشکن بنتا ہے کوئی بلتی بنتا ہے کوئی گلگتی بنتا ہے اور کوئی مذہبی کارڈ استعمال کرتا ہے کوئی لسانی داؤ کھیلتا ہے اورکوئی دوستی کا واسطہ دیتا ہے؟آپ لوگ ایسوسی ایشن کے الیکشن کرواتے ہو اور ہارنے والا پینل جیتنے والے پینل کو ہر قسم کے برے القابات سے نوازتا ہے اور اس کی جیت تسلیم ہی نہیں کرتا باوجودیکہ اپنے آپ کو سوشل بھی کہلاتا ہے۔
میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اپنے پیشے اور علاقے کے ساتھ مخلص ہوتے تو یہاں سماجی اور تعلیمی انقلاب برپا ہوجاتا۔ آپ سماجی، فلاحی، تعلیمی اور ادبی و تحقیقی مجلسیں منعقدکرتے اور نوجوان نسل کی درست سمت رہنمائی کرتے اور انہیں شعور وآگاہی دیتے۔ حکومت کے لیے شفاف تعلیمی اور معاشرتی پلان تیارکرکے دیتے۔ ادبی و تعلیمی جرائد نکال کر ہزاروں نوجوانوں کو قلم و کتاب دوست بناتے اور جدید دور کی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انہیں تیار کرتے مگر آپ کے پاس ان چیزوں کے لیے ٹائم ہی نہیں۔کوئی لکڑیاں فروخت کرتا ہے۔ کوئی چکی پیستا ہے۔کوئی لوہا بیچتا ہے کوئی چیری کا کاروبار کرتا ہے۔کوئی اسٹیشنری کی دکان لگاتا ہے۔کوئی سیپ بیچتا ہے کوئی کاسمیٹکس کی دکان سجاتا ہے۔ کسی نے اسسمنٹ کو کمانے کا ذریعہ بنایا ہے کسی نے ایگزام ڈیوٹیوں سے ڈالر بنانے کا گُر سیکھا ہے۔کسی نے قیمتی پتھر خریدنے کا دھندا اپنا یا ہوا ہے۔کسی نے این سی پی گاڑیوں کا کاروبار شروع کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ آپ سیخ پا ہونے کے بجائے میرے بیان کردہ تلخ حقائق پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور ایک پروفیسر کا کردار ادا کریں گے۔یاد رہے کہ اگر آپ کی حالت نہ بدلی تو گلگت بلتستان کے عوام آپ کو بھی ٹیچرایسوسی ایشن کی طرح ایک پریشر گروپ سمجھیں گے ‘‘۔
نوٹ: گلگت بلتستان پروفیسر اینڈلیکچرار برادری کا کوئی فرد اگر اس کا جواب لکھنا چاہتا ہے تو پلیز لکھ کر مجھے ارسال کریں میں اپنے کالم میں شائع کرونگا اور میں خود بھی پروفیسروں اور لیکچراروں کی حمایت میں لکھونگا اور بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کرونگا۔ انشاء اللہ۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں