299

دھڑکنوں کی زبان ….. محمد جاوید حیات …..23 مارچ پھر آئی

تاریخ میں تیئس مارچ کادن بہت دفعہ آیا ہے۔۔بہت سارے دن اور تواریخ بہت دفعہ آئی ہیں۔مگر کبھی کبھی یہ دن ایک بار آئے اور امر بن گئے کسی بھی مارچ کے مہینے میں تیئس تاریخ آ سکتی ہے۔۔یہ ۰۰۹۱ء میں بھی آئی تھی۔۔۰۳۹۱ء میں بھی یہ تاریخ آئی تھی۔مگر ۰۴۹۱ء میں جو آئی تو امر بن گئی۔۔باقی دنیا کے اقوام کے لئے نہیں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اہم ثابت ہوئی۔۔اس وقت کے برصغیر کے مسلمان بھی عجیب تھے۔۔سیدھا سدھا۔ان کو اپنی فکر نہیں تھی۔۔دوسروں کی فکر قوم کی فکر۔۔مستقبل کی فکر۔آزادی کی فکر۔ان کی جیب خالی۔ہاتھ خالی۔دامن خالی۔اگر کچھ ہے دوسروں پہ نثار۔۔دوسروں کے لئے قربان۔۔کوئی بات کرے گا۔۔قوم کی بات کرے گا۔۔عجیب تھے۔۔ایک جنون زدہ دیوانے۔لبیک۔جان مال عزت و آبرو حاضر ہے۔۔نجات۔۔آزادی۔۔آزادی کی نعمت۔۔ساری رات جدو جہد سارا دن جد وجہد۔۔والدین بچوں کو نصیحت کریں۔۔قوم پہ ا متحان آیا ہے۔۔اس امتحان کی تیاری کرو۔پاس ہو جاؤ بیٹا!۔۔تن من دھن اگر کوئی حقیقتیں ہیں وہ واضح ہو گئی تھیں۔دنیا مان گئی تھی کہ یہ دیوانے جیت جائیں گے۔۔مخاصمت بھی بہت تھی۔۔اس جد و جہد کو ”دیوانے کی بڑ“ کہا کرتے تھے۔۔ایک بدن کے دو ٹکڑے کرنے والے کہا کرتے تھے۔۔ہوا یوں۔۔۔کہ ۳۲مارچ کا دن آیا۔۔ایک”فرزانے ”جس کو اغیار لاکھ ”دیوانے“کہتے تھے نے منزل کی نشاندھی کردی پھر اس کی طرف سفر کی وضاحت کردی۔۔ایک قرارداد پیش ہوئی۔۔مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔۔اس کے لئے الگ خودمختار ملک چاہیے۔۔اس سمے جذبات کیسے ہونگے۔۔یہ سارے دیوانے کیسے خواب دیکھ چکے ہونگے۔محبت ہمدردی اور انصاف کا خواب۔۔ترقی خوشحالی اور سرخروئی کا خواب۔۔سچائی ایمانداری اور ایثار کا خواب محنت مشقت اور خلوص کا خواب۔۔تعلیم تہذیب اور ہنر کا خواب۔وطن کو جنت بنانے کا خواب۔۔گلشن کو سجانے کا خواب۔۔مضبوط دفاع کا خواب۔۔ڈیموں سڑکوں اور کارخانوں کا خواب۔۔تجارت معیشت اور دولت کا خواب۔صداقت امانت اور دیانت کا خواب۔روزگار خوشحالی اور بے فکری کا خواب۔۔خوابوں کا ایک سلسلہ۔۔ان خوابوں کی تعبیر ممکن بنانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کا خواب۔۔آزادی نعمت ہے ۔اپنا وطن ہوگا ایسا ملک جس کو اپنا کہہ سکیں گے۔قرارداد کیا پاس ہوئی”دیوانے“سر پہ کفن باندھ کے میدان میں اترے۔۔یہی ۳۲مارچ پھر سات بار آئی دیوانوں پہ ہنسی نہیں شاباشی دی۔۔آزادی ممکن ہوئی۔ اب مرحلہ اس آزادی کی نعمت کوسنبھالنے کا ہے۔ان خوابوں کی تعبیر کا ہے۔۳۲ مارچ ہر سال آ کر ہم سے پوچھتی ہے کہ آزادی تو ممکن ہوئی تھی۔ان دیوانوں کے ہاتھوں ممکن ہوئی تھی۔۔اب ان خوابوں کی تعبیر بھی ممکن ہوئی ہے کہ نہیں؟۔۔جو اس وقت دیکھے گئے تھے۔کیا ذمہ داروں اور بڑوں کے ہاتھوں تم محفوظ ہو۔۔کیا کوئی زینب کسی درندے کے ہاتھوں کچل تو نہیں جاتی۔کیا کوئی مزدور سرکار کے پنجوں تلے دب تو نہیں رہا۔۔کیا کوئی انجنئر سڑک بناتے ہوئے قوم کے مسقتبل کو سوچتا ہے۔۔کیا کوئی استاد اپنی کلاس میں قوم کے نونہالوں کو شاہین بنانے میں مصروف ہے۔۔کیا کوئی سپاہی اپنے مورچے میں مضبوط دفاغ کے خواب کی تعبیر میں مصروف ہے۔۔کیا کوئی سیاست دان کرپشن سے پاک ہے۔کیا کوئی پولیس مین جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرض سمجھ رہا ہے۔کیا کوئی ڈرائیور مسافروں کا احترام کر رہاہے۔کیا کوئی عورت سوچ رہی ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک میں رہتی ہے وہ اسلا م قرآن اور اپنی تہذیب کے دائرے میں ہوگی۔کیا سڑکین،کارخانے اور تعلیمی ادارے بنے ہیں۔کیا روزگار آیا ہے۔کیا خوشحالی نے دستک دی ہے۔کیا غلامی،انحصار اور نقل کی وباء دور ہو چکی ہے کیا قبلہ مغرب ہی ہے یا اپنی منزل اپنا قبلہ ہے یہ سب سوالات ہر سال ۳۲ مارچ پوچھ کے جاتی ہے اور کوئی جواب نہ پاکر مایوس جاتی ہے۔اس کو جواب دینے کی کسی کو جرائت نہیں ہوتی کسی کے پاس کیا ہمت ہوگی کہ کہہ سکے کہ یہ ملک قرضوں پہ چلتا ہے۔کوئی کیونکر کہہ سکے کہ ہمارا قبلہ واشنگٹن ہی ہے۔۔کوئی کیوں کر بتائے کہ اس ملک کے حکمران اپنی جائداد اور کار خانے بنانے میں مصروف ہیں۔کوئی کس منہ سے کہدے کہ یہاں پہ بچوں کا ریپ ہوتا ہے۔۔اس مجرم کی سزاء کی مخالفت کی جاتی ہے۔کس طرح بتائی جائے کہ کرپشن ہے۔۔غریب کا خون پیا جاتا ہے۔اگر کوئی حکمران اچھا کام کا سوچے بھی تو اس کو کرنے نہیں دیا جاتا۔۔اگر اقوام عالم کے سامنے اسلا م قرآن اور اپنی شناخت کی بات کرے تب بھی اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔بڑے دساور سدھارتے ہیں۔علاج بھی وہیں ہوتا ہے۔تفریح بھی وہیں ہوتی ہے۔کاروبار بھی وہیں سجا ہے۔۔لیڈر شپ کے لئے ادھر آتے ہیں۔تعلیم بڑوں کی الگ،غریبوں کی الگ۔۔سرکاری سکول۔۔۔پاس فیل کا تصور نہیں۔۔صلاحیت چانچنے کا تصور نہیں تربیت کی مد میں سزا ء کا تصور نہیں۔۔اساتذہ کے کام کی جانچ نہیں۔۔کوئی بھی اپنے کام اور فرض منصبی سے مخلص نہیں۔۔ بس حکمران پہ تنقید۔اگر استاد سے پوچھے تم اپنی کلاس پڑھاتے نہیں ہو۔ادھر وزیر اعظم پہ تنقید کیوں؟۔۔جواب کوئی نہیں۔قومی دولت قوم کی امانت ایک مفروضہ۔۳۲مارچ کو جواب دینے کی جرات کسی میں نہیں۔۔ایک تقریب سجائی جاتی ہے۔۔بڑے بڑی شان و شوکت سے آکے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔سرونگ آفیسرز،ہیڈز اور بیگمات۔۔وہی عورت بھوک سے بلکتے بچوں کے لئے دھائی دے رہی ہے۔۔وہی عورت کپڑے اور نوالے کو ترستی ہے۔۔وہی ننگے سر ٹھاٹ بھاٹ سے آکے تقریب انجائی کر رہی ہے۔۔۳۲مارچ ہنستی ہے یہ کیسی تقریب ہے۔۔یہاں پہ تو خواب اور خوابوں کی تعبیر والے کوئی نہیں۔یہاں پہ تو مخلص اور قربانی والے کوئی نہیں۔۔۳۲مارچ وزیر اعظم سے کہتی ہے”میں تاریخ ہوں مجھے میری شان کے ساتھ دھرانا پڑتا ہے۔ان خوابوں کی تعبیر کی کوشش کرو۔۔لڑو بڑو ان ناسوروں کے آگے ڈٹ جاؤ۔تاریخ تمہیں یاد کرے گی۔۔جب تاریخ کسی کویاد کرے تو بہت اچھا لگتا ہے“۔۔۔۔۔۳۲ مارچ کاسورج غروب ہوتا ہے اور ۴۲ مارچ کی رات دامن پھیلاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں