362

قدرت کا پیغام…… تحریر : ناہیدہ سیف ایڈووکیٹ

دنیا نے کتنی ترقی کر لی سائنس نے دنیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ایک سیکنڈ کے اندر اپ اپنا پیغام پوری تک پہنچا سکتے ہو دنیا گلوبل وولج بن گئی انسان نے ترقی کے وہ سفر طے کیے کہ واہ
انسان جتنا بھی طاقتور ہو جتنا بھی بڑا ہو وہ انسان ہی ہے وہ کتنی بھی ترقی کرے کتنے بھی ایجادات کرے ایٹم بنائے چاند تک پہنچ جائے لیکن پھر بھی وہ انسان ہے وہ اس کائنات کے ہر اس راز تک پہنچنے کی کوشش کرے جو اس سے پنہان ہے جہاں اس کی حد مقرر ہے وہ اس سے آگے جانے کے لئے جتنا بھی جتن کرے وہ جا نہیں سکتا وہ کائنات کے رب کےساتھ نہیں الجھ سکتا اس کےساتھ مڈبھیڑ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس کی ذات ازل ہے اور آخر وہی حی وہی قیوم ،اس کائنات کو وجود میں لانے کے بعد اس کے خالق نے اس کا انتظام رکھا اس نے سورج پیدا کیا چاند پیدا کیا اور ڈسپلن ایسا ،کہ کچھ بھی ہو جائے یہ اپنے مقرر کیے ہوئے حدود سے آگے پیچھے نہیں ہٹ سکتے چاند کو رات کا کام اور سورج کو دن کا کام سونپ دیا گیا روشنی کے لئے ۔
اسی طرح اس کائنات کے ہر ذرے میں ایک حد اور ایک ٹھراءو نظر آتا ہے موسم دیکھ لے ہر پھل کے پکنے کا اپنا ٹائم ہر فصل کے پکنے کا اپنا ٹائم ،کہا گیا اس میں نشانیاں ہیں غور ،فکر کرنے والوں کے لئے،
پھر انسان کو پیدا کیا۔ اور اپنے مخلوق میں اشرف مخلوقات کا درجہ دیا ، زندگی جینے کا طریقہ سلیقہ اور قرینہ سیکھانے کے لئے اپنے پیغمبر بھیجے ان کے ذریعے بنی نوع انسان کو تربیت سکھاءی اچھائی اور برائی میں فرق، راستے متعین کیے اور انسان کی مرضی پر چھو ڑ دیا چاہے تو وہ اچھائی کا راستہ اپنائے چاہیے تو برائی کااور ایک محدود وقت کےلئے حساب کتاب کا دن مقرر کیا، اور کلیئر بتا دیا کہ موقع ہے مہلت کا سدھرنے کا سوچنے کا سمجھنے کا۔ کائنات کے تمام مخلوقات میں سے انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کو اگر کبھی حکومت ملی تو فرعون بن کر اپنی پرستش بھی کروانی شروع کی اور اپنی حد سے گزرنا شروع کیا جب بڑا دماغ دیا تو مذہب کو سائیڈ پر کر کے خود کو سائنس کے ترقی کے سپرد کیا ،یہ سوچے بغیر کہ وہ تو صرف ڈینگی اور کرونا کی مار ہے ان کی ساری سائنس اور ترقی وقت آنے پر ان چھوٹے چھوٹے وائرس کے آگے بے بس ہیں ،ترقی یافتہ ملک کے اطالوی وزیراعظم نے رو کر اپنی قوم سے خطاب کیا کہ میں بے بس ہوں دنیاوی سارے علاج بے بس ہو چکے میں اسمانی معجزے کا منتظر ہوں اور آسمانی خدا کی مدد کا طلبگار ہوں،انسان کی اوقات اتنی سی ہے، بس
اس کائنات کے دونوں مقدس مقامات خالی کرائے گئے حرمین شریفین،مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے اپنے کرتوتون پر بہت نظر ثانی اور بار بار معافی بہت معافی مانگنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کی وجہ سے مکہ مدینہ ہم سے روٹھ تو نہیں گئے یہ قدرت کا پیغام ہے کہ سدھر جاؤ ٹھہر جاؤ میرے کائنات کو بے ایمانیوں ،برائیوں، دھوکہ بازیوں جھوٹ ،منافقات کا اڈہ اتنا مت بناؤ لوط کی قوم کے راستے پر چلنا شروع مت کرو کہ میں رحیم کریم سے قہار پر آ جاؤ ، پھر تمہیں نجات کوئی نہیں دے سکتا ،یہ جو تھوڑی بہت بچت ہو رہی ہیں جو ریلیف مل رہی ہیں ساری کائنات کو یہ ان(ص) کالی کملی والے کی مہربانی ہے جو رحمت العالمیں ہیں جن کا اٹھنا بیٹھنا امت کی بخشش سے شروع ہوتی اور ختم ہوتی تھی یہاں تک اس امت کی کرتوتوں کی بخشش کے لیے اپنا پکڑی مبارک حرم پاک کے صحن میں رکھ کر احرام کی حالت میں چھ گھنٹے زارو قطار روتے رہے عرب کی گرمی تھی اور آپ کے بال مبارک شانوں تک لمبے تھےاور ہوا کی وجہ سے اڑ رہے تھے لیکن گڑ گڑا رہے تھے رو رہے تھے اپنی عاجزی اپنے مالک کے سامنے بیان کر رہے تھے میری امت پر وہ آفت مت لانا جو آپ دوسرے انبیاء کی امت پر لائے تھے۔ میرے مالک میری امت کی کمزوریوں پر ان پر اتنا بوجھ مت ڈالنا جن کو وہ اٹھا نہ سکے ،محبت کے اس پیمانے کو کیا بیان کیا جائے باقی امت نے کوئی برائی نہیں چھوڑی،اور کوئی کسر نہیں چھوڑی تعلیمات سے روگردانی میں، کرپشن کے مال سے خیرات، بے ایمانی کر کے حج عمرہ ،جھوٹ بول کر نماز منافقت اور کرپشن سے دوسروں کی مدد اور تو اور تو شرم اور ڈھائی کے معیار کا اندازہ دیکھے یہ سب کرنے کے ساتھ ساتھ ایات کریمہ کے بڑے بڑے کتبے اوپر لٹکے ہوئے اور نیچے یہ کام ہو رہے ہیں میں نے کہیں یہ نہیں دیکھا کہ کرہشن کر کے دوسروں کی مدد کرو ،بے ایمانی سے مال بنا کر حج عمرہ کرو پتہ نہیں یہ دین یہ لوگ کہاں سے لائے ہیں دین تو بہت بڑی چیز اخلاقی طور پر بھی ان چیزوں کی گنجائش نہیں ، جب اپ کسی بددیانتی اور کرپٹ بندے کا ساتھ دے رہے ہو اس کے برے اعمال کو سپورٹ کر رہے ہو تو اپ بھی اس کے ساتھ شامل ہو اور تمام ایماندار لوگوں کی توہین کر رہے ہو برائی کو ہاتھ سے روکنے زبان سے روکنے اور آخری درجے میں دل میں برا کہنے کا کیا گیا مطلب اسکا یہ ہے کہ اپ کو کسی طرح بھی برائی کا ساتھ دے کر پروان نہیں چھڑھانا چاہئیے یاد رکھے کرپشن اور بے ایمانی مجبوری میں نہیں عیاشی کے لئے کی جاتی ہے لالچی کرپٹ اور حریص لوگ کم ظرف ترین لوگ ہوتے ہیں جو کہ معاشرے کے لیے ناسوز اور انکا فعل ناقابل معافی ہوتا ہے
جب یہ چیزین حد سے گزر جاتی ہیں تو قدرت اپنا پیغام بھیجتا ہے کبھی ڈنگی تو کبھی کروانا وائرس کی شکل میں،
صرف حرام گوشت حرام نہیں ہوتا جھوٹ کرپشن منافقت بے ایمانی کسی کا حق کھانا اچھے برے میں تمیز نہ کرنا،دھوکہ دینا یہ سب حرام کی شکلیں ہیں یہ سوچ اور شعور کی بات ہے کہ آپ کے نزدیک سمگلنگ کرنا حرام ہے یا مردار گوشت کھانا، کرپشن کرنا رشوت لینا حرام ہے یا چوہے کھانا، لالچ بری بلا ہے یا چمگاڈر کا چمڑا ،اپنی سوچ اپنا معیار ہوتا ہے
فرق تو ان میں کوئی نہیں انکی شکلیں اور واردات ضرور مختلف ہو سکتے ہیں ،
کروانا وائرس نے آفت کی شکل میں اس کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے سائنسی علوم تو بے بس نظر آرہے ہیں روحانی علوم سے استعفادہ کرنا پڑے گا اور اس استفادہ کو کامیابی تک پہنچانے کے لیے استغفار اور درود پاک ہی اول اور آخری راستہ ہے اللہ تعالی اس آفت کو اس کائنات سے اپنے حبیب محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقے اٹھا لے اور اس کائنات پر اس کے مکینوں پر اپنی مہربانی برسا دے امیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں