299

قانون کے محافظ.. آنکھیں کھُلی رکھیں…تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

٭ قرانطینہ۔

کوروناخان…… کا اتنا خوف چھایا ہوا ہے کہ سب لوگ ”قرانطینہ“ میں گھُس گئے ہیں۔حضرت ”کچھوا میاں“ کی طرح سر، ٹانگیں اور دم اندر سمیٹے ”محو حیرت“ ہیں۔اگر ایک بیان”دغنا“ہویا خود کو ” عوامی درد“میں چور چور دیکھانا ہو تو ”سر اقدس“ شریفانہ انداز میں باہر نکال کر ایک عدد ” شہبازانہ“ ”بلاوانا “ ” والیانہ“ ”جماعتانہ “ ” ٹیگرانا “ ” مولانانہ “ ” احماقانہ “ ’ ’شکستانہ“ اور ” وردیانہ “ قسم کے ویڈیو لنگ سے عوام کوشرف دیدار بخش دیتے ہیں۔ جبکہ کافر ممالک کے ارب پتی کڑور پتی دل کھول کے غریبوں کی مدد میں لگے ہیں اور ہمارے ” رئیس“ دولت لانہیں سکتے کیونکہ وہ سوئیس بنکوں اور دبئی میں بند ہیں جہاں ” لاک ڈاون “ اور” ائے ٹی ایم“ میں لگے ”کورونا “سے انہیں خطرہ ہے ۔ جو چندادارے سر گرم ہیں ان میں بھی ”بیس کلوآٹا“ دینے والے ہاتھ ” بیس“ اور لینے والے ”دو ہاتھ“ نظر آتے ہیں۔ اللہ را….. لوگوں کی غربت کا مذاق نہ اڑائے اگر چے لوگ”داد“ آپ کو دیں گے مگر …… گالیوں…. کے ساتھ۔ بہتر ہے ”خدا کی البم“ آپ کی تصویر لگی ہو نہ کہ سوشل اور الیکڑانک میڈیا میں۔ خود ضرورت مندوں کو بھی چاہیے کہ خود کو ضرورت مند رکھیں… پیشہ وار بھکاری نہ بنائیں۔ جہاں تک ”قرانطیناس“ کا تعلق ہے ہر گھر،بازار مساجد میں اجتماعی طور پر لگا ہے اور کورونا کے خلاف لیکچرز جاری ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خلوت سے فائدہ اٹھاکر کتب بینی، تلاوت، نماز۔ ذکر واذکار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر چہ بوریت کے دن ہیں۔ اگر ہم جیسے جو ”ففٹی رنز“ بنا چکے ہیں اور کسی بھی وقت بولڈ ہوسکتے ہیں کو ”عمرانی انڈے“ مہیا کیے جاتے تو ”قرانطیناس“ میں وآفر مقدار میں چوزے نکل آتے اور ”اعتکاف، چلہ، دھرنا، خلوت، مراقبہ یا قرانطینہ کے یہ طول پکڑتے آیام قوم کے کام آتے اور”نمودار ہونے والے کورونا ٹائیگرز“ کے لیے ”چوزے جمع“ کرنا آسان ہوجاتا…. اور خان صاحب کاکوئی ایک منصوبہ تو لوگوں کے سامنے آتا اور یہ سہولت بھی ہوجاتی کہ چندہ کے ”سونامی“ کے ساتھ ان کے تقسیم کیے ہوئے… انڈوں…. سے…. مرغییوں…. کی ناکامی کے بعد ”انسانی کاریگری“کے کمالات دنیا کے سامنے آتے۔ اور ”کورونا ٹائیگرز“ کوجان بنانے کا موقع بھی ہاتھ آتا۔خالی ”گھبرانا نہیں“ کے گردان سے تو پیٹ نہیں بھرے جاتے اس کے لیے ”روزگار“ کا ہونا ضروری ہوتا ہے جس کے تمام دروازے ”سونامی“ میں بہہ چکے ہیں۔اور خان صاحب ”خشک ریت“ کے ذروں کو کب تک ہاتھ میں دبائے رکھیں گے جو انگلیوں سے ’’ رینگتے “ ہوئے نکلے جارہے ہیں۔ ٭ تین بم۔ ہم بھی… سر…. قرنطینہ سے نکال کر…. نیٹ کے گود میں جا بیٹھے تو… انجوئی کرونا… کے حوالے سے درجن بھر میل منتظر پائے۔ ان میں تین میل ایسے ہیں جو ”بم“ سے کم نہیں۔دروش سے…. ثناء صاحب فرماتے ہیں ”کہ پشاور سے آنے والوں کو لیٹ ٹائم شک کی بنیاد پر ”قرانطین“ کے نام پر دوروش اور بونی کالجز کی زینت بنائی جارہی ہے جہاں مطلوبہ سہولیات میسر نہیں بلکہ اور بھی لوگوں میں ”کورونا“ ہونے کا اندشہ ہے اور ”سفارشی“ چہرہ کراکے ہی نکل جانے کا سامان کرالیتے ہیں۔یہ مسلہ سامنے لائیں“ علی اکبر صاحب کی دکھ بھری میل کا خلاصہ یہ ہے کہ ”تبلیغی حضرات“ اس وائرس کو پھلانے کا ذمہ دار ہوسکتے ہیں اور ان کی مومنٹ گاؤں گاؤں جاری ہے اور حکومتی ادارے کہہ رہے ہیں کہ ”بارہ کہواور سندھ۔پنجاب کے کچھ علاقوں میں رائے ونڈ اجتماع کے بعد یہ کورونا پھلا۔“ ہماری پولیس کہاں سوئی ہوئی ہے؟ بونی سے ایک دوست جن کانام میں لینا نہیں چاہتا کا فرمان ہے تمہارے بھائی صاحب کروئی جنالی میں کوئی ”کھانسے“ توہسپتال چھوڑ دیتے ہیں غیرت ہے تو میل شامل کریں تاکہ ”فرنڈلی کھانسی“ والوں کو ”کوروناکھانسی“ کی خوف سے نجات مل سکے اور ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے وہ ذہنی، جسمانی اور مالی پرشانی کاشکار نہ ہوں۔ DHOs صاحبان اور DCosکم از کم سپرے تو کراستے ہیں گلی محلوں میں۔“کیا ان کے پاس اتنے بھی فنڈز دستیاب نہیں …. اگر نہیں تو مسجدوں میں چندہ ہی کرالیں ویسے بھی …. مدینہ کی ریاست خیرات کے زور پر چل رہی ہے۔ ٭ کاغذ کی کشتیاں۔ امید ہے تینوں میل… باخبر اور نااختیار صاحبان تک پہنچ جائیں گے۔ میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں ہم چترالی آوازکی رفتار سے تیز ”رائے اور مزاج“ بدلنے کے عادی قوم ہیں۔خود ہماری زبان کھوار کا ایک ناخالف سا محاورہ ہے کہ ”توری دوسیکو………. حکومت سختی نہ کرے تو گلہ…. پابندی لگائے تو بھی تنقید،ڈسی صاحب روڈ بند کرے تو رونا۔دوکائیں کھولے تو چیخنا۔صبرو برداشت نام کی کوئی چیز ہم میں موجود نہیں۔ انتظامی طور پر کمی کوتائی ہوسکتی ہے اور اس پہ جائز حد تک تنقید بھی جاری ہے اور حکام اسے بطور اصلاح قبول بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان حالات میں کہ اسلام آباد تک میں وہ مطلوبہ سہولیات دستیاب نہیں چترال کے ڈی سی، کرنل یا ایس پی کی جانب ”انگلیاں اٹھانا قبل از وقت ہوگا۔ دوسری جانب ہمارے میڈیکل اسٹاف جن میں ڈاکٹرز سے لے کر اسٹاف تک سب کے پاس وہ ضروری لوازمات کا دستیاب ہونا بہت ضروری ہے آخر یہ میڈیکل افیسرز، سرکاری اہل کار، جوان، بھی اسی قوم کے بچے ہیں کیاانہیں ”زندہ“ رہنے اور لوگوں کے لیے خودکو ”محفوظ“ رکھنے کا حق نہیں…. آخر کب تک ہمارے یہ ” محافظ “ حکومت وقت کی ”کاغذی کشتیوں“ میں ڈوبنے کے خوف میں مبتلاسفر کرتے رہیں گے۔ ؎ آمیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر سمندروں کے سفر پہ کیا روانہ انہیں : ٭ علماء کا کردار۔ عصر کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوا تو ایک بھرپور تبلیغی محفل ”دنین جوڑ“ کے نام سے جمی تھی۔ نماز کے بعد بھی بیاں اور مطالبات کا طویل سلسلہ جاری رہا اور ”پندرہ، سات، سہ روزہ جماعتوں“ کی فہرستیں ترتیب پائیں بعد از دعا ”کورونا خان، جدید سائنس، ڈاکٹروں،حکومتی اقدامات، ہدایات اور ”شرعی ونبوی احکامات“ کو باہر پھینک کر ” دست درازی، بغلگیری، بوسہ ماری “ کے مناظر براہ راست دیکھائے گئے اس کینچھاتانی میں درجن بھر ”پپیاں“ ہمارے حصہ میں بھی آئے۔ اور مجمع آئندہ ہفتے دوبارہ اکھٹے ہوکے”کوروناخان“ کا مذاق اڑانے کے ارادے سے اختتام پذیر ہوا۔ جمعہ کے بیاں میں مولانا عماد نے مختصر خالص نبوی ہدایات اور احتیاط بتائے باہر نکلے تو ایک ”ناہنجار“ نے امام کی ایمانی کمزوری پر ”موبائل لکچر“ داغ دی۔اور اسلامی تعلیمات کو جوتے کی نوک پہ رکھا اور ”میری جسم میری مرضی“ جیسا اٹیک یہ سمجھ کر کیا کہ وہ اسلامی محاذ کا بہت بڑااور اکیلا شاہ سوار ”شاہ‘‘ ہے۔ انتظامیہ خصوصا علماء کرام سے بھی درخواست ہے کہ وہ تبلیغ سے وابستہ حضرات کو جو اس کار خیر میں لگے ہیں سمجھائیں کہ امت زندہ رہی تو تبلیغ بھی ہوگی۔ بعض جگوں سے ایسی اطلاعات ہیں جو بہت ہی دل ہلا دینے والے ہیں اس لیے۔ یہ جماعت بنا بنا کر محلوں میں پھرنا اس وبائی اور ہنگامی حالات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی بہت سے جماعت میں یہ وائرس پھیل چکا ہے اور وہ مساجدمیں بند ہوکے رہ گئے ہیں۔سمجھنے والوں کے لیے یہ فرمان ہی کافی ہے ”کہ دانائی مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں سے بھی ملے اٹھا لو“ ٭ جیو بھٹو۔ تعلیمی ادارے جون تک ”شمع کے پروانوں“ پر بند کر دئے گئے۔ مرحوم بھٹو کا دور یاد آگیا ہم لوگ پرئمیری سکول میں ”انڈے اور پراٹھوں“ کے زور پہ میڈل لیے جارہے تھے کہ ملک میں کیا مسلہ درپیش ہوا کہ تمام بچوں کو” بغیر امتحان “ ترقی دی گئی جب یہ اعلان بچوں نے سنا تو ”جیو بٹھو“ کے نعرئے لگے اور سب دیوانہ وار گھروں کی طرف بھاگے تاکہ’’ تیس مار خانی“ کامیابی کی روداد سناکر ”چاونی“ کا حقدار بن سکیں۔ اس سال کے بعد تعلیمی سفر میں بچوں کا ”انڈوں اور پراٹھوں“ بھرا سفر بھی کمزور پڑھتا گیا اور لڑکے بغیر محنت کے کسی ”بھٹو“ کے انتظار میں ”خلیل احمد“ مرحوم بنتے گئے۔ لگتا ہے…. تبدیلی والی سرکار ”کورونا ٹائیگرز“ کو لانچ کرنے بعد ”نالائقوں کی سونامی“ کا اعلان بھی کرے گی تاکہ بچوں کو ”امتحانی کورونا“ سے بھی نجات مل سکے اور وہ ”جئے بٹھو“ کے بعد ”جئے عمران“ پھیکا سا نعرہ بھی لگاسکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں