304

صحت:عطیہ خداوندی۔۔۔۔۔ڈاکٹرساجد خاکوانی

دورخلافت راشدہ میں ایک بار ایک حکیم صاحب مدینہ تشریف لائے اور اپنی دکان کھول کر بیٹھ گئے۔کم و بیش ایک ماہ گزر گیااور کوئی مریض بھی نہ آیا۔ان حکیم صاحب نے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی شخص بیمار نہیں ہوتاکیا؟ توانہیں بتایا گیا کہ یہاں چونکہ سب لوگ محسن انسانیت ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا رہتے ہیں اس لیے وہ بیمار نہیں ہوتے۔آپ ﷺ کی سنتیں اپنانے کا یہ محض ایک فائدہ ہے حقیقت یہ ہے کہ نبی علیہ السلام کی سنتوں میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں پنہاں ہیں اور جو لوگ ان سنتوں پر اور نبیوں کے طریقے پر عمل پیرا رہتے ہیں ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی و روحانی صحت بھی برقرار رہتی ہے اور جسمانی آلائشیں اور روحانی آلاشیں ان سے دور رہتی ہیں۔نبیوں کی سنتوں کی حقانیت آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ایک مذہبی حقیقت تھی لیکن جیسے جیسے میڈیکل سائنس اور نیچرل سائنس ترقی کر تی چلی جارہی ہے یہ مذہبی حقیقتیں اب تجرباتی اور مشاہداتی حقیقتیں بنتی چلی جارہی ہیں۔یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اسلام اپنے آغاز میں شریعت تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بنتاجارہاہے۔
آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر یہ عجیب المیہ ہے کہ میڈیکل سائنس جتنی ترقی کرتی جارہی ہے،بیماریاں اتنی ہی بڑھتی جارہی ہیں اور موت مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جارہی ہے۔اسکی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے اولین وجہ آرام پرستی ہے۔جب سے قبیلہ بنی نوع انسان سے سخت کوشی رخصت ہوئی ہے تب سے قسم قسم کی بیماریوں نے انسانوں کو آن گھیراہے۔سخت کوشی،ورزش اور کسرت کے باعث انسانی جسم سے ناکارہ مادے نکلتے رہتے ہیں،جوڑوں کے متحرک رہنے سے انکی اندرونی کثافتیں دور ہوتی رہتی ہیں اور مسلسل تحرک کی وجہ سے انسانی اعضاء اپنے اپنے کام پر حاضر رہتے ہیں اور بیماریاں ان سے دور رہتی ہیں۔اسکے برعکس گزشتہ مختصرزمانے سے انسان کی کوشش ہے کہ ہر کام بستر پر لیٹے لیٹے ہی ہو جائے۔جو کام بہت محنت اور مشقت سے ہوا کرتے تھے اور وہ محنت و مشقت انسان کے لیے صحت کا باعث بنتی تھی اب ان کاموں کے لیے طرح طرح کی مشینیں آ گئی ہیں اورانسان اب آرام کی طرف مائل ہوتا چلا رہاہے۔
پہلے لوگ پیدل چلا کرتے تھے،پھرسائکل آ گئے۔سائکل سے فاصلہ جلدی طے ہوجاتااور جسم کی ورزش بھی ساتھ ساتھ ہوجاتی لیکن جب سے آٹو موبائلز نے انسان کے گھر کاراستہ دیکھاہے تب سے بہت کم فاصلے تک بھی پیدل جانا یا سائکل پر جانابھی عبث خیال کیاجاتا ہے۔اس طرح صحت کی تباہی انسان کا مقدر ہوجاتی ہے۔آٹو موبائل اور ریموٹ کنٹرول کلچر نے انسانوں کو گویا مفلوج کر دیا ہے۔ضرورت کی خاطر تو یہ سہولتیں ضرور استعمال کی جائیں کہ انکا وجود انسان کے لیے باعث رحمت ہے لیکن بلاضرورت اور محض آرام پرستی کی خاطر ان کا استعمال صحت کی تباہی کاباعث بن سکتا ہے۔ایک زمانے میں محلوں کے اندر اکھاڑے ہوا کرتے تھے اور نوجوان وہاں جاکر زورآوری کرتے تھے،اس طرح ان کی صحتیں برقراراور جسم تنومند رہتے تھے لیکن اب انکا رواج بھی کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اوراکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ نوجوانی کی عمر میں ہی طرح طرح کی بیماریاں آن گھیرتی ہیں اور اچھے بھلے نوجوان جنہوں نے ابھی دنیا کے رنگ بھی نہیں دیکھے ہوتے اور انکی جوانی بھنگ کاشکار ہوجاتی ہے۔
صحت سے دوری کی دوسری وجہ بسیارخوری ہے۔سادہ غذاصحت کی ضامن ہوتی ہے اور پیٹ کو جتنا بھرلیاجائے اورپھر بھراہی رکھاجائے تو قسم قسم کی بیماریاں پیٹ سے جنم لیتی ہیں۔حکماء کاقول ہے کہ کھانا کھانے سے صحت نہیں ملتی بلکہ کھانا ہضم کرنے سے صحت ملتی ہے۔کھانا تب ہی ہضم ہوتا ہے جب سادہ غذا کھائی جائے اورتھوڑی سی بھوک باقی ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیاجائے۔طرح طرح کے مرغن کھانے،مزیدار مشروب اور چائے اورکافی کی کثرت نے صحتوں کابیڑا غرق کر دیاہے۔آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اپنے پیٹ کے تین حصے کرو،ایک کھانے کے لیے دوسراپانی کے لیے اور تیسرا ہوا کے لیے۔چنانچہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ بھوک لگنے پر کھانا کھاتے تھے،پیٹ بھر کر کبھی نہیں کھاتے تھے اور سادہ غذاپسند فرمایاکرتے تھے۔کھانے میں اسراف کرنا خلاف سنت ہے۔
شادی بیاہ کے مواقع پر اور دیگر غمی خوشی کے مواقع پر گوشت کا کثرت سے استعمال،پکنک اور سیرو تفریح کے مواقع پر فاسٹ فوڈ کا استعمال،چائے کے ساتھ تلی ہوئی چیزوں کا استعمال،شوقیہ طورپرہوٹلوں پر کھانے کی عادت،میلوں ٹھیلوں پر سے غیرمعیاری پکوانوں کا خوردونوشت اور خوب بھنے ہوئے،تلے ہوئے اور مرچ مثالے سے اٹے ہوئے چٹ پٹے کھانے کھانا گویا بیماریوں کو اپنے ہاتھوں اور رقم خرچ کر کے خودخریدنا ہے۔اس طرح کی عادتوں کے بعد صحت کی خرابی شکایت کرنا عبث ہے۔کثیرالقومی اداروں نے ہمیں اپنی منڈی بناکر اپنی مصنوعات بیچنے کی آماجگاہ بنالیا ہے،انتہائی غیرضروری بلکہ نقصان دہ اشیاکی اشتہار بازی پر بے پناہ سرمایا خرچ کے تو مصنوعی طلب پیدا کی جاتی ہے اورانفرادی زندگیوں میں بیماری کا زہرگھولاجاتا ہے اور قومی سطح پر ملک سے باہرہم وطن اپنا خون پسینہ ایک کر کے زرمبادلہ کی رقم جو مادر وطن میں بھیجتے ہیں وہی زر مبادلہ ان کثیرالقومی اداروں کی اشیا خرید کر واپس انہیں ملکوں کو لوٹا دیاجاتاہے۔
صحت کی خرابی ایک وجہ جدیدآلات کا استعمال بھی ہے۔کئی تحقیقاتی ادارے جو بیرونی دنیاؤں سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے مستندرپورٹس میں یہ انکشافات کیے ہیں ہیں جدید آلات جن میں موبائل فون،کمپیوٹر،ٹیلی ویژن اور اسی طرح کے دیگر آلات بھی شامل ہیں انکا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک اور بعض اوقات تو کینسر جیسے موذی مرض کاباعث بھی بن جاتا ہے۔ان اداروں کی تحقیقات کے مطا بق آلات سے ایک خاص قسم کی شعائیں نکلتی ہیں جو انسانی جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں،جو آلہ جتنے قریب سے استعمال کیا جائے وہ اتنا ہی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔اب تو یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ آلات استعمال نہ بھی کروتو بھی اس کثرت سے بوسٹر لگ گئے ہیں کہ ہر وقت ہی ان سے نکلنے والی لہریں انسان کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتی ہیں۔عام حالات میں بھی یہ دیکھاگیا ہے کہ ان آلات کے کثرت سے استعمال کرنے والے یا پھر ان آلات کے اداروں میں کام کرنے والے جلد ہی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
کیڑے مار دوائیوں کابے پناہ استعمال انسانی صحت کی تباہی کی اوراہم وجہ ہے۔خاص طورپر جب ایسی سبزیوں اور پھلوں پر دوائیاں چھڑکی جاتی ہیں جنہیں چھیلے یا پکائے بغیربراہ راست کھا لیاجاتا ہے تو جو زہر کیڑے کے مارنے کے لیے ڈالا گیاتھا اب انسان کے اندر پہنچ جاتا ہے۔کیڑا کمزور ہوتاہے اور فوراََ مر جاتا ہے جب کہ انسان آہستہ آہستہ موت کے منہ میں داخل ہوتا ہے۔انسانیت کاراگ الاپنے والے یورپ اور امریکہ کے ممالک میں یہ دوائیاں ممنوع ہو چکی ہیں اور جو کوئی بھی انہیں فصلوں پر استعمال کرتا ہے اسے حوالات میں بند کر دیتے ہیں،اربوں ڈالر کی لگی انڈسٹری کا اس کے علاوہ اور کیااستعمال ہے کہ ان دوائیوں کو ایشیائی ملکوں میں انسانوں کے قتل کے لیے برآمد کر دیاجائے۔ انتہائی زہریلی دوائیاں جن کے اثرات بعض اوقات نسلوں تک میں چلتے ہیں انسانیت کے ٹھیکیدار ان دوائیوں کو چند سکوں کی خاطر انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے لیے بیچ دیتے ہیں اور سال بھر میں ایک دفعہ ”عالمی یوم صحت“منا کر انسان دوستی کی سند بھی حاصل کر لیتے ہیں۔جب سے یہ دوائیاں استعمال ہونے لگی ہیں دل،جگر،معدہ اور خاص طور پر گردے کے امراض میں کئی سو فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
آپ ﷺ کاارشادمبارک ہے کہ جب زنا عام ہوجائے گاتوایسی بیماریاں پیدا ہوں گی جن کاعلاج نہیں ہوگا۔پس ہم دیکھتے ہیں ایک زمانے میں ٹائفائڈبخارکاعلاج نہ تھا،بس مریض پر دو رضائیاں ٖڈال دیتے تھے اور اسکی صحت یا موت کا انتظار کرتے تھے۔بخارکاعلاج دریافت ہواتوٹی بی آگئی،ٹی بی کاعلاج دریافت ہواتو کینسر آگیااور اب کینسر کاعلاج دریافت ہونے لگاہے تو ایڈز جیسا موذی اورکروناجیسا متعدی مرض آگیاہے،اور آئے روز نت نئی اورعجیب و غریب بیماریوں کے نام سننے کو ملتے ہیں۔آنکھوں،کانوں اور زبان کے زنا،ہم جنسیت،جانوروں سے جنسی تعلقات،جنسی مناظر کی فلمیں،اختلاط مردوزن،مخلوط تعلیم،فلموں،ڈراموں اور سٹیج پر ناجائز تعلقات سے بھری ہوئی باہمی گفتگوئیں،عشقیہ موسیقی،رقص و سرود کی محفلیں اور عورتوں پر معاش کا بوجھ،یہ وہ اوامر ہیں جو زنا اور زنا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کاسبب ہیں۔انسان کتنا بے وقوف ہے کہ دلدل سے نکلنے کے لیے اسی دلدل میں ہاتھ پاؤں مارتا ہے جس کے باعث وہ مزید اندر ہی اندر دھنستا چلا جاتا ہے۔جسمانی صحت کا دارومدار اخلاقی صحت اورروحانی صحت پر ہے اوراخلاقی وروحانی صحت کا دارومدارایمان پر ہے۔”عالمی یوم صحت“ہمیں پیغام دیتاہے کہ صحت کے حصول کے لیے اپنے رب کی طرف رجوع کریں کہ اصل میں شافع الامراض وہی ہستی ہے اسی کے حکم سے صحت و شفا ملتی ہے اور اس ہستی کی طرف پلٹنے کا ایک ہی واحد راستہ ہے اور وہ محسن انسانیت ﷺکی ذات مبارکہ کو اپنا ماڈل اور آئیڈیل بنانا ہے اور انہیں کی طرح اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں