انسان کہلانے کا وہی شخص مستحق ہے جو دوسروں کےلئے دل میں درد رکھتا ہوں ، دوسروں سے محبت کا سلوک روا رکھتا ہو۔ ان کی مصیبت میں مدد کرتا ہوں ۔ الغرض” انسان وہ ہے جو دوسروں کےلئے جئے“۔حقیقت میں انسانیت کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔ مخلوق خدا کی خدمت کرنا اور ان کی مشکل وقت میں مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ معاشرے میں ایک اعلی کردار انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہے ۔ اخلاقی زندگی کا اصلی جوہر یہی ہے۔ کرونا وبا کے باعث حالیہ لاک ڈاو¿ن سے ضلع چترال میں مزدور اور غریب طبقہ بری طرح متاثر ہیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت خوراک کا ہے جس کے حل کےلئے حکومتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن اسی ضلع سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس کا نام” قاری فیض اللہ “ ہے وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے خوراک کے اہم مسئلے کے حل کےلئے ایک مسیحا کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ایسے افراد جن کے گھروں میں راشن کی فراہمی نہیں اور ایسے لوگ جو لاک ڈاو¿ن کے باعث مزدوری کرنے سے قاصر ہیں ان تک راشن کو ممکن بنارہے ہیں ۔ اس وبا ءکے باعث متاثرہ افراد کی خدمت میں حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کام کررہی ہے اورنادار و مستحق طبقہ کے گھروں تک راشن پہنچایا جارہا ہے اور امدادی کاروائیوں کا یہ سلسلہ ضلع بھر میں جاری ہیں جو کہ باعزت طریقے سے ان کی دہلیز پر خوراک کی اشیاءتقسیم کر رہے ہیں۔ قاری فیض اللہ جو کہ خدمت خلق کو بحیثیت انسان اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہیں۔متاثرہ خاندانوں تک بنیادی ضرورت راشن کی فراہمی کو یقینی بنا کر اس بات کا عملی ثبوت دیتے ہیں کہ انسانیت کا رشتہ سب سے بڑا ہوتا ہے اور مصیبت کی وقت میں ضرورت مندوں کے کام آنے سے معاشرے میں لوگوں کے درمیان اختلافات ختم ہوتے ہیں اور قربتیں بڑھتی ہیں ۔ قاری فیض اللہ جیسے مسیحاو¿ں کی بدولت ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی آرہی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ یوں لگتا ہیں کہ قاری فیض اللہ خدمت خلق کےلئے ہی وجود میں آئی ہے ۔ بلا لحاظ مذہب و ملت
” درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کےلئے کچھ کم نہ تھے کرویباں“۔