288

لاک ڈاؤن اورماحولیاتی آلودگی۔۔۔۔محمدفیضان نواب ناظم

انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا۔ عقل و فراست سے نوازا گیا۔ انسان نے اپنے گردونواح کا مشاھدہ کر نا شروع کیا اور اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے مختلف جوگاڑ لگاتا رہا۔ اسطرح وہ پتھر کے دورسے بتدریج ترقی کرتا ہوا آج کے جدیدسائنسی دور میں پہنچ گیا۔ انسان نے بڑی بڑی فیکٹریاں لگائیں،ہوائی جہازوں گاڑیوں اور ریل گاڑیوں میں سفر کرنے لگا۔ توانائی کی ضروریات کو فوسل فیول یعنی پٹرول،کوئلہ اور قدرتی گیس سے پورا کرنے لگا۔ فوسل فیول کے جلنے کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھتا چلا گیا۔جس سے فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگا دھویں میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسی دیگر زہریلی گیسز فضا میں پھیل گئیں۔ آلودہ ماحول کے باعث انسان مختلف بیماریوں کا آسانی سے شکار ہونے لگا اور اپنی قوتِ مدافعت کو کمزور کر بیٹھا۔ پچھلے سال کے اختتام پر چین کے شہر ووہان سے کوڈ -19 نامی ایک بیماری نے جنم لیا جس نے چند ہی دنوں میں وبا کی صورت اختیار کرتے ہوئے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ بیماری کرونا نامی وائرس سے انسان کو لگتی ہے جو کہ پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور اس سے متاثرہ شخص دم گھٹنے سے مر جاتا ہے۔ لاکھوں افراد اس بیماری سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس بیماری سے ترقی یافتہ ممالک زیادہ متاثر ہوئے ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، اٹلی، چین، اسپین اور جرمنی سرفہرست ہیں۔ صرف امریکہ ہی کے اندر ستر ہزار کے قریب اموات ہو چکی ہیں جو کہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ اس وقت دنیا کی تقریباً نصف آبادی مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ بین الاقوامی توانائی کی ایجنسی (IEA) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کے مارچ میں گزشتہ سال کی بہ نسبت ہوائی ٹریفک میں 60 فیصد اور زمینی ٹریفک میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ اپریل کے وسط تک توانائی کی ضروریات میں 17 سے 25 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں رواں سال کے اختتام تک 2.6 بلین ٹن (٪8) تک کی کمی ہو سکتی ہے جو کہ گزشتہ کئی سالوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہو گی۔لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر گاڑیاں,ہوائی جہاز, فیکٹریاں, دفاتر, ریسٹورانٹس وغیرہ سب کچھ بند ہیں۔ جس کی وجہ سے توانائی اور بجلی کی کھپت میں نمایاں کمی دیکھی جا سکتی ہے اور اس کمی کے اثرات ماحول پر مثبت انداز میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس کمی کی ایک واضح مثال بھارت کے متعدد علاقوں سے تقریباً 30 سال کے بعد سلسلہ کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں کا نظر آنا ہے جو کہ انتہا درجے کی آلودگی کے باعث فضا میں اٹی ہوئی تھیں۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے باعث فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل میں نارمل درجہ حرارت کی بہ نسبت اسلام آباد کے درجہ حرارت میں 12 فیصد اور راولپنڈی کے درجہ حرارت میں 10 فیصد تک کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی لاک ڈاؤن کی مرہونِ منّت ہے لیکن جب انسان اس وبا کو شکست دے گا تو دوبارہ اپنی ڈوبی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے توانائی کا بے دریغ استعمال شروع کر دے گا جس سے دوبارہ ماحولیاتی آلودگی میں بے پنا ہ اضافہ یقینی ہے۔ اسلئے انسان کو ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کے متبادل طریقے ڈھونڈنے اور اختیار کرنے ہونگے۔جن میں شمسی, ہوائی توانائی وغیرہ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ ماحول کی صفائی اور بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات اُٹھانے ہونگے،کیونکہ اگر ماحول صاف ہو گا تب ہی انسان اچھی صحت کے ساتھ زندگی گزار سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں