287

بھارت اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک

محمدفیضان نواب ناظم
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی(USCIRF) کی حالیہ رپورٹ میں بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک نامزد کیا ہے۔ مزید اس رپورٹ میں متنازعہ شہریت بل (CAA) کی منظوری، بابری مسجد کے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور مقبوضہ وجموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے جیسے اقدامات پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت آزادی کے شروع دن سے ہی اقلیتوں کیلئے محفوظ ملک نہیں رہا۔ 1984؁ء میں سکھوں کا قتل عام، 1992؁ء میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا سانحہ، 2002؁ء میں گجرات ریاست میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا و دیگر ماضی کے تلخ و رنجیدہ واقعات ہیں۔ راقم الحروف کا دو ماہ قبل شائع شدہ کالم میں سنگ پریوار کے اقلیتوں کے لیے نفرت اور ان کے ناپاک عزائم کے بارے میں تفصیلا لکھا تھا۔ سنگ پریوار انتہا پسند ہندوؤں کی تنظیم ہے جو کہ ویشوا ہندو پریشاد، راشتریا سوایم سیوک سنگ (RSS)، بجرنگ دل اور موجودہ رولنگ جماعت بھارتیا جنتا پارٹی پر مشتمل ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں کے خلاف مظالم شدت اختیار کر گئے۔ مسلم آبادی کی نسل کشی کی خاطر مودی سرکار نے متنازعہ شہریت بل گزشتہ سال منظور کیا۔جس کے بعد اس کے خلاف پورے بھارت میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں پولیس نے زبردستی گھس کر پرامن احتجاج کرنے والے طلبا و طالبات کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 200 کے لگ بھگ سٹوڈنٹس زخمی ہوگئے۔ نئی دہلی میں جاری یہ مظاہرے اس وقت خونی شکل اختیار کر گئے جب بھارتیا جنتا پارٹی کے راہنما کپل مشرا نے مسلم مظاہرین کو مظاہرہ ختم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور انتہا پسند ہندوؤں کو اکسایا۔جس کے نتیجہ میں رواں سال فروری کی 23 تاریخ کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھروں اور کاروباری املاک پر دھاوا بول دیا اور مسلم کش فسادات شروع ہوگئے جو کہ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہے۔ مسلمانوں کی دکانوں، گھروں، املاک کو مسمار اور جلا دیا گیا۔ عبادت گاہوں کو شہید کیا گیا۔ ان دنگوں کے دوران 53 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس ان دنگوں کے دوران ہندو حملہ آوروں کی مدد کرتی رہی۔اسی طرح دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ فسادات یکطرفہ اور منظم طریقہ سے پلان کیئے گئے تھے۔ ہندوتوا کے یہ سفاک طبیعت انتہا پسند پجاری مسلم کشی کے ساتھ ساتھ جنگی جنون میں بھی مبتلا ہیں۔ سویڈن کے ایک تحقیقاتی ادارے (SIPRI) کی گزشتہ دنوں مختلف ممالک کے فوجی اخراجات پر Trends In World Military Expenditure 2019 نامی رپورٹ کے مطابق بھارت کے فوجی بجٹ میں 2018 ؁کی بہ نسبت 2019 ؁میں 6.8 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ امریکہ اور چین کے بعد 71 بلین ڈالر کا بھارتی فوجی بجٹ دنیا کا تیسرا بڑا بجٹ رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت ایل او سی پر اشتعال انگیزی اور چھیڑ خانی سے باز نہیں رہتا اور پورے خطہ کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں موجود بھارتی فوجی جموں وکشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ جہاں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت کی جانب لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کو 9 ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام عالم بھارت سرکار اور اس کے رویہ پر تنقید تو کرتی رہی مگر بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ اور اسی وجہ سے مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی پر تاحال قائم ہے۔ وادی میں فون سے لے کر انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔وادی کا پوری دنیا سے رابط مکمل منقطع ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نظام زندگی بری طرح مفلوج ہے۔ اسکول و کالج سے لے کر میڈیکل سٹور تک سب کچھ بند ہے۔ ایسے میں بھارتی فوج کے مظالم کشمیریوں میں حریت کی تحریک کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔ انہیں جاری وساری بھارتی فوجی کے مظالم کے پیشِ نظر بعض کشمیری نوجوان آزادی کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جس کی مثال گزشتہ دنوں کشمیری نوجوان ریاض نیکو کا شہید ہونا ہے جو کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ریاضی کا استاد تھا۔جس کو 2010 ؁ء میں بلاوجہ قید کیا گیا اور زندگی اجیرن بنا دی گئی۔ جس کہ نتیجہ میں اس نوجوان نے یہ راہ اختیار کی۔ اگر بھارت باز نہ آیا تو بھارتی مسلم ودیگر اقلیتوں میں انتہا پسندی پروان چڑھے گی اور پورے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس سے بھارت کے ٹکڑے ہونا ناگزیر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں