534

قدیم کالاش تہوار چلم جوشٹ(جوشی) کرونا وائرس کے خوف کے سائے میں بھی حسب روایت ڈھول کی تھاپ پر اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ اختتام پذیر

چترال (محکم الدین) ساڑھے چار ہزار سال قدیم کالاش تہوار چلم جوشٹ(جوشی) کرونا وائرس کے خوف کے سائے میں بھی حسب روایت ڈھول کی تھاپ پر اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ اختتام پذیرہوا۔ فیسٹول کے اختتامی رسوم کی آدائیگی کے موقع پر معاون خصوصی وزیر اعلی خیبر پختونخوا برائے اقلیتی امور وزیر زادہ بھی موجود تھے۔ جنہوں نے اس موقع پر غیر رسمی خطاب میں پوری دُنیا کو محبت اور امن و بھائی چارے کے فروغ کا پیغام دیا۔ ایک طرف کروناکے خلاف ماسک، سنٹائزر اور گلوز پہن کر مقابلے کی تیاری اور دوسری طرف جوانسال مردو خواتین کی رنگین لباس نے حالیہ فیسٹول کو ایک عجیب صورت حال سے دوچار کر دیا تھا تاہم کالاش قبیلے نے اپنا یہ اہم تہوار ایس او پی پر عمل کرنے کے ماحول میں بالاخر انجام دے دیا۔۔ کالاش قبیلے کے لوگ محدود آبادی اور اپنے منفرد خاندانی نظام کے تحت ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں۔ ایسے میں اس قسم کے تہوار مردو خواتین دونوں کو اور بھی انتہائی قریب کر دیتے ہیں۔ کیونکہ خوشی کے اظہار کیلئے رقص مذہب کا حصہ ہے اور کالاش مذہبی رقص چھارسو (ڈانسنگ پلیس) میں ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈالے ڈھول کی تھاپ کے ساتھ چھلکے بغیر مکمل نہیں ہو تا تاہم مذہبی رسوم کی آدائیگی کے دوران ایس او پی پر عمل کر نے میں قبیلے نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور حتی الوسع احتیاطی تدابیر کے ساتھ فیسٹول کی رسومات ادا کی گئیں۔ سنگین حالات کے باوجود فیسٹول میں لوگوں کی شرکت کافی رہی۔ چلم جوشٹ کالاش قبیلے کا انتہائی اہم تہوار ہے جو موسم بہار میں منایا جاتا ہے یہ فیسٹول قدیم زمانے سے سردیوں کی صبر ازما مہینے گزرنے کے بعد بہار کی آمد، نئی فصلوں کی تیاری اور مال مویشیوں کی گرمائی چراگاہوں کو لے جانے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ آج بھی کالاش قبیلے میں مال مویشیوں کی افزائش کو مذہبی امور کی انجام دہی میں خصوصی اہمیت حاصل ہے اور ہر تہوار کی تکمیل مال مویشیوں کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ حالیہ چلم جوشٹ میں کسی بھی سیاح کو شرکت کی اجازت نہیں تھی اور نہ انتظامیہ کی طرف سے کسی کو تصویر بنانے یا میڈیا کوریج کی اجازت دی گئی تھی۔ ایک مقامی نوجوان فتح اللہ نے فون پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیسٹول میں کالاش قبیلے کے مردو خواتین کی کافی تعداد موجود تھی تاہم عمر رسیدہ افراد کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔جبکہ سابقہ ادوار میں فیسٹول کے موقع پر قبیلے کے یہ بزرگ چھارسو (ڈانسگ پلیس) میں کالاش قبیلے کے حکمرانوں اور دیگر اسلاف کے کارنامے انتہائی جذبے کے ساتھ بیان کرتے تھے اور قبیلے کے افراد خصوصا ًنوجوان مردو خواتین حلقہ بنائے یہ داستانیں نہایت توجہ کے ساتھ سنتے تھے۔ جبکہ اس مرتبہ یہ تاریخی داستانوں سے خالی فیسٹول منایا گیا۔فیسٹول کے لئے ایک این جی او ایکٹیڈ نے کرونا سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ماسک، گلوز اور دستانے اور سنیٹائزر فراہم کئے۔ جبکہ ریسکیو 1122کے ایمبولینس کسی بھی ناخوشگوار حالات سے نمٹنے کیلئے موقع پر موجود تھے۔ کرونا وائرس نے جہاں کالاش فیسٹول کو ایک محدود پیمانے پر منانے پر مجبور کیا وہاں چترال کی کالاش وادیوں میں سیاحتی آمدنی سے زندگی گزارنے والے لوگوں اور ہوٹل مالکان کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور وادیوں کے ہوٹل جو ماہ مئی میں کالاش تہوار چلم جوشٹ میں آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا انتظار کرتے ہیں۔ بے بسی کی تصویر بنے معاشی زبوں حالی کا شکار ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں