276

بھوک کس کی ۔ اناج کس کا !۔۔۔ٹحریر: کامران ساقی

ایک بزرگ کے گھر پانچ درویش حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ کھانے کا وقت تھا۔ بزرگ نے اپنی خادمہ کو الگ بلا کر ہوچھا ۔ مہمانوں کی تواضع کے لئے گھر میں کچھ کھانے کو ہے؟۔ خادمہ نے بتایا کہ صرف ایک روٹی موجود ہے۔ بزرگ نے فرمایا کہ ایک روٹی سے کیا ہوگا؟۔ مہمانوں کے حصے میں ایک ایک ٹکڑا ہی آئے گا۔ یہ کہہ کر آپ مہمانوں دوویشوں کے پاس تشریف لے آئے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک سوالی نے در پر صدا دی۔ بزرگ نے فرمایا کہ وہ روٹی اس ضرورت مند کو دے دو جو دروازے کے باہر کھڑا ہی۔ خادمہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور بزرگ مہمانوں کے ساتھ مصروف گفتگوہو گئیں۔ کچھ دیر بعد خادمہ حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا۔ ’’ایک شخص کھانا لے کر آیا ہے‘‘۔ ’’کتنی روٹیاں؟‘‘ بزرگ نے خادمہ سے پوچھا۔ جب خادمہ نے بتایا کہ دو روٹیاں ۔تو آ پ نے فرمایا کہ اسے واپس کر دو ۔ وہ شخص غلطی سے ہمارے گھر آگیا ہے اور وہ کھانا ہمارا نہیں ہے‘‘۔ خادمہ نے روٹیاں واپس کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد خادمہ نے اطلاع دی کہ ایک اور شخص کھانا لے کر آیا ہے۔ بزرگ نے روٹیوں کی تعداد پوچھی تو آپ کو بتایا گیا کہ پانچ روٹیاں ہیں۔ بزرگ نے جوابا فرمایا ۔ ’’اس بار بھی کھانا لانے والے سے غلطی ہو گئی۔ اس سے کہہ دو کہ وہ کھانا ہمارا نہیں ہے‘‘۔ تیسری بار ایک اور شخص کھانا لے کر آیا۔ پھر جب خادمہ نے آپ کو بتایا کہ گیارہ روٹیاں ہیں تو بزرگ نے مسرت کے لہجے میں فرمایا۔ ’’ہاں! یہ کھانا ہمارا ہے۔ اسے قبول کر لو۔‘‘ خادمہ نے کھانا لا کر درویش مہمانوں کے سامنے سجا دیا۔ پھر جب درویش کھانا کھا چکے دو ایک مہمان نے عرض کیا کہ تین مختلف اشخاص کھانا لے کر آئے۔ دو افراد کو آپ نے واپس کر دیا مگر تیسرے شخص کے لائے ہوئے کھانے کو قبول فرما لیا۔ آخر کیا راز ہے؟۔ بزرگ نے درویشوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں ایک کے بدلے دس اور آخرت میں ستر دوں گا۔ بس اسی حساب کتاب کی بنیاد پر میں نے دوآدمیوں کو واپس لوٹا دیا اور ایک شخص کا کھانا قبول کر لیا۔ جس نے اللہ کی راہ میں سوالی کو ایک روتی دے کر رزاق عالم سے سود ا کیا تھا۔ پھر جب ایک شخص دو روٹیاں اور دوسرا پانچ روٹیاں لے کر آیا تو میں نے جان لیا کہ یہ حساب درست نہیں ہے۔ تیسرا شخص گیارہ روٹیاں لے کر آیا تو میں نے کسی تردد کے بغیر انہیں قبول کر لیا کہ یہ عین حساب کے مطابق تھیں اور دینے والے کی شان رزاقی کو ظاہر کر رہی تھیں۔ دس روٹیاں میری ایک روتی کے بدلے میں تھیں اور جو روٹی میں نے سوالی کو دی تھی اللہ تعالیٰ نے وہ بھی واپس کر دی تھی‘‘ ۔ہر شخص حکومت وقت کو اپنی اور معاشرے میں آباد افراد کی حالت زارکا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ بد قسمتی سے ہم اپنے حقوق سے تو آگاہ ہیں مگرفرائض سے نہیں۔ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی حالت ، صحت اور بھوک کی ذمہ دار ی ہم سب کی بھی ہے۔ زرا غور کیجئے ۔ ہماری گلی ، گاؤں ، محلے ، شہر میں کتنے بچے ہیں جو سکول نہیں جاتے؟۔ ہم خود اپنی موٹر گاڑیوں کو انہیں بچوں سے صاف کرواتے ہیں۔ ہم نے ہی ان معصوم بچیوں کو اپنی بیگمات کی سہولت کے لئے نوکرانیاں بنا رکھا ہے۔ روز ہماری گلی محلے میں لوگ علاج کے لئے پیسے نہ ہونے کے باعث زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔ مگر ہم حکومت وقت کو ذمہ دار ٹھہرانے کے علاوہ ان غریبوں کے علاج کے لئے کچھ کرنے سے پرہیزگار نظر آتے ہیں۔ہم لاکھوں روپے کے پالتو کتے کو تو وقت پر کھانا دیتے ہیں۔مگر گھر میں محتاج ماں باپ، بہن بھائیوں اور اولادکا حال تک نہیں پوچھتے۔ ہم اس محمد ﷺ کی امت ہیں جو ایک وقت کا کھا کر باقی تقسیم کر دیتے تھے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ۔ آج ہماری روح جسم میں دب کر رہ گئی ہے۔ رات کو کھانا پکانے کے بعدہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ضرورت کی روٹیاں کتنی تھیں اوربعد از ان میں سے آدھی بچ گئیں ہیں۔ ان روٹیوں کو ہم کپڑے میں لپیٹ کر برتن میں چھپادیتے ہیں۔ جن کوسورج نکلتے ہی ضائع سمجھ کر کوڑے کی نظر کر دیتے ہیں یاشاید جانوروں کو ڈال دیتے ہیں۔ مگر زندگی کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے ایک روز بھی پڑوسی کے دروازے پر دستک دے کر یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کہ ’’بھائی تم بھوکھے تو نہیں’’۔ ہمارے نزدیک رشتوں اور انسانوں کی قدر جانوروں سے کہیں کم ہے اور پھر بھی ہم حکمرانوں اور جاگیرداروں سے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔ بزرگ کے صبر و قناعت اور توکل کی شان دیکھ کر تمام درویش توحیرت زدہ رہ گئے۔مگر ہم نے آج بھی اپنے رب کی رحمت پر یقین کرنا نہیں سیکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب غریبوں ، محتاجوں اورضرورت مندوں کا خیال رکھیں۔ تاکہ معاشرے میں رہنے والا ہر شخص خوشحال زندگی گزار سکے۔ یقین کیجئے جس رات آپ پڑوسی کا حال پوچھ کر سوئیں گے وہ رات آپکی زندگی کی خوبصورت ترین رات ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں