350

کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے چند تجاویز

نغمہ حبیب
کرونا وائرس آیا اور پوری دنیا میں ایسی بڑی تبدیلی لا یا کہ دنیا کے کئی حکمران باوجود بڑے برے دعوؤں کے وہ کچھ نہیں کر سکے نہ کر سکتے تھے جو اس وباء نے کیا۔وہ دنیا جو بڑے بڑے منصوبوں میں گم تھی نہ انسانی جان کی اہمیت تھی نہ صحت کی وہی دنیا بلبلا اٹھی اور تمام منصوبوں کو چھوڑ کراسی ایک منصوبے پر توجہ مرکوز ہو گئی اگرچہ نقصان کو روکا تو نہیں جا سکا لیکن کم کرنے کی کوشش ضرور کی گئی جس کے لیے مختلف ایس او پیز بنائی گئیں۔پاکستان بھی پوری دنیا کی طرح اس کی زد میں آگیا اگرچہ دیر سے آیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے قابل عمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اس بیماری کے جسمانی اثرات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں اور اگر اس سے متعلق سہولیات بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوں تو اُس کے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان انتہائی تشویشناک اور افسوسناک حالات میں بھی منافع حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سب سے پہلے مختلف قسم کے ماسک اپنی اصل قیمت سے کئی کئی گنازیادہ قیمت میں بکنے لگے، ناقص قسم کے ماسک بھی تیار ہونے لگے، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں یہ بھی نظر آیا کہ سڑیٹ ہاکر بچہ سڑک کے کنارے سے ماسک اٹھا رہا ہے۔ بڑی بڑی دکانوں نے بھی ماسک مہنگے داموں بیچنے شروع کیے۔ اس کے بعد ٹیسٹوں کا معاملہ آیا تو ایک ٹیسٹ آٹھ دس ہزار روپے میں کیا جانے لگا۔ پرائیویٹ ہسپتالوں نے ایک مریض کے علاج کے لاکھوں روپے لیے اور لے رہے ہیں۔رپورٹس کے مطابق یہ روزانہ تقریباً ایک لاکھ تک بن جاتے ہیں جس کا دیناہر کسی کے بس کی بات نہیں جبکہ دوسری طرف کرونا ایسا وبائی مرض ہے کہ گھر میں ایک کو لگ جائے تو دوسروں کولگنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور یوں ایک گھر میں کئی کئی مریض ہو سکتے ہیں جن کا پرا ئیویٹ ہسپتالوں میں علاج ایک عام پاکستانی کے لیے کسی طرح ممکن نہیں لہٰذا اس بات کو یقینی بنا نا ضروری ہے کہ ان پرائیویٹ ہسپتالوں کو من مانے ریٹ لگانے سے روکا جائے اور ایک معیار مقرر کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا علاج ممکن بنایا جا سکے۔اسی طرح کئی جگہوں سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ہسپتالوں میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری کے مریضوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے یہ آکسیجن یا تو ہوتی نہیں ہے یا مہنگے داموں فراہم کرنے کے لیے پہلے سے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ”نہیں ہے“۔ ہسپتالوں کو کافی آکسیجن فراہم کرنے کے احکامات دیے جائیں تاکہ اگر وینٹیلیٹر کی سہولت میسر نہ بھی کی جاسکے تو کم از کم آکسیجن کی فراہمی تو یقنی بنائی جائے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ وینٹیلیٹرز کی ابھی تک کمی نہیں آئی لیکن حقیقت میں کئی مریض وینٹیلیٹر نہ ملنے کے باعث بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں تو اگر کمی نہیں ہے تو ضرور تحقیق کی جائے کہ کیوں کسی مریض کو اسے فراہم نہیں کیا گیا۔ وینٹیلیٹر تو ایک طرف ہمارے ایک عزیزکو کرونا ہوا تو ان کے لیے ہسپتال میں بیڈ تک بڑی مشکل سے حاصل کیا گیا لہٰذاجو ٹریجیٹکری بنائی جاتی ہے اگر مکمل کے لیے ممکن نہیں تو انداز اً ہی بیڈز اور انسانی وسائل میں اضافہ کیا جاتا رہے خاص کر سرکار ی ہسپتالوں کے حالات بہتر بنانے اور وسائل بڑھانے کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کرنا ایک دو فیصد کے علاوہ لوگوں کے لیے ممکن نہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان کے لیے بھی درآمدی پالیسی کو آسان بنایا جائے تاکہ وہ دواؤں اور دیگر ضروریات کو باآسانی اور بہتر نرخوں پر منگواسکیں اور پھر حکومت ان ہسپتالوں کو اپنے چار جز عام آدمی کی پہنچ تک لانے کا پابند کرے۔ یہ تو ہسپتالوں کے اندر انتظامات کے لیے کچھ تجاویز ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری مرض کا پھیلاؤ روکنا ہے لہٰذا اس کے لیے بھی منصوبہ بندی انتہائی ضروری ہے جیسا کہ سلیکٹڈ لاک ڈاؤن سے کرونا پازیٹیو کیسزمیں کمی آئی ہے لیکن اس معاملے پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومتوں کو ضلعی انتظامیہ کو یہ ذمہ داری دینی چاہیے کہ ایسے مقامات کی تلاش کرے جہاں جہاں اس مرض کے زیادہ کیسز ہیں تاکہ وہاں لاک ڈاؤن کیا جاسکے اور یہ یاد رکھا جائے کہ بہت سارے کیسز ہسپتالوں کے خراب حالات اور تنہائی کے خوف سے رپورٹ نہیں کیے جا رہے لہٰذا ایسا میکنزم بنایا جائے کہ ان مقامات کی نشاندہی ہو سکے جہاں ایسا ہے اور وہاں بھی لاک ڈاؤن کیا جا سکے کیونکہ مکمل طور پر بے مہار طریقے سے لاک ڈاؤن کھولنے کے نتائج ہم دیکھ اور بھگت رہے ہیں، لہٰذا بجائے کسی اور کے ڈاکٹروں اور صحت کے معاملات سے متعلق ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے اور اسی کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں اور اگر ضرورت پڑے اور مرکزی بازاروں کو بھی بند کرنا پڑے تو کرنے سے گریز نہ کیا جائے کیوں کہ انسان ہوں گے تو معیشت بھی دوبارہ چل پڑے گی لیکن زندگی کا واپس لانا ممکن نہیں اور یہ بیماری کسی کے ساتھ رعایت نہیں کر رہی اور چھوٹی اور غریب آبادیوں سے لے کر پوش علاقوں تک پھیل چکی ہے اس لیے حکومت کو بھی سب جگہوں کے لیے ایک ہی پالیسی بنانی چاہیے تاکہ اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ کرونا ایک حساس معاملہ ہے اور اس کی حساسیت کا ادراک ہی اس سے بچاؤ میں ہماری مدد کر سکتا ہے اسی لیے ہمیں اس کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ محکمہ صحت، ہسپتالوں اور حکومت سب کی ذمہ دارویوں سمیت ہم عوام کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے اور وہ ہے تمام حفاظتی اقدامات کو بروئے کار لا نا اور ایس او پینر پر عمل کرنا، کم سے کم گھروں سے نکلنا اور زیادہ سے زیادہ ہجوم سے اجتناب کرنا تو اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہی تو امید ہے کہ اس کے پھیلاؤ کو قابو میں رکھ کرمعاملات کو کم سے کم نقصان تک محدود رکھا جا سکتا ہے منصوبہ بندی حکومتی سطح سے لے کر شخصی سطح تک ہونی چاہیے اور پھر اس منصوبہ بندی پر سختی سے عمل درآمد ہمارے اس بیماری سے بچاؤ میں بہت حد تک ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں