301

میرے حصے کے بادلو

: محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔
ساون پھر أن پہنچا ہے ۔بادلو:برسات أۓ گی ۔تم جم کے برسوگے۔زمین جل تھل ہو گی ۔دریاٶں میں طغیانیاں ہونگی ۔یہ بپھر کر کناروں سے باہر أیٸں گے۔ندیاں دریا بن جاٸیں گی۔نشیبی علاقوں میں فٹوں اونچا پانی کھڑا ہوگا ۔فصلیں اس میں ڈوب جایٸں گی ۔درختیں اس میں کھڑے تنہا تنہا نظر أیٸں گے۔۔لیکن بادلو:اس سے ان اونچے محلے والوں کا کچھ نہیں بگڑےگا ۔وہ یا تو بہت سے اونچے اونچے ٹیلوں میں اپنے لۓ محل بنا چکے ہونگےیا اپنے گرماٸ مکانوں میں شفٹ ہو چکے ہونگے یا تو اپنی قیمتی گاڑیوں میں گرماٸ علاقوں کی سیر پہ نکل چکے ہونگے ۔وہاں پر فایو سٹار ہوٹلوں میں بارشوں کا مزا لے رہے ہونگے ۔ان کے بچے بالکونیوں میں کھڑےتیرے بوندں کو اپنے چلو میں محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہونگے اور “ساجنیں” جو پہلی برسات میں ساون کا ذکر کرکےوعدہ کر رہی تھیں۔۔۔کہ برسات میں جب ساون کا مہینہ أۓ گاتو وہ اپنے ساجنوں کو انگوٹھی کا نگینہ بنایٸنگی ۔۔
لیکن میرے حصے کے بادلو:تم جم کے نہ برسنا ۔میرا کچامکان ہے وہ بھی دریا کنارے نشیب میں ہے ۔اس کے اندر پانی بھر جاۓ گا ۔میں کسی “زندگی بچاٶ”کشتی میں کسی ملاح کے رحم و کرم پہ اٹھتے دریا کی خونی موجوں کو حسرت سے تکتا رہونگا ۔۔ادھر اپنی جان پہ بنی ہوگی ادھر بچوں اور خاندان کی فکر ہوگی ۔بچوں کی أنکھوں میں اترا خوف مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیگا۔پیچھے میرے خستہ مکان کی دیواریں ڈھ جایٸنگی ۔دروازے چٹخ جایٸنگے اور سر پہ چھت نہیں رہے گی ۔فصلیں تباہ ہوجایٸنگی ۔تو اپنی مزدوری کے عوض کا غلہ بھی نہ ملے گا ۔زندگی مزید قرضوں تلے دب جاۓ گی ۔۔فیسیں چھڑینگی ۔بل چھڑینگے ۔قرضے چھڑینگے ۔۔
بادلو :تم تو چھٹ جاٶ گے ساون گزرے گا مگر میں زندگی نام کے عذاب کا سامنا نہ کر سکوں گا۔
بادلو: ہمارے ہاں کے “بڑوں” اور ہمارے درمیان زمین أسمان کا فاصلہ ہے۔ہماری أھیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں ۔نہ ان کے پاس ایسی أنکھیں ہیں جو ہمیں دیکھ سکیں ۔ان کے پاس نہ ایسے دل ہیں جو ہماری حالت پہ تڑپ اٹھیں ۔نہ ان کے پاس اتنا وقت ہے کہ ہمیں دے سکیں ۔ان کواپنی عیاشیوں اور دنیا کی أسایشوں سے فرصت نہیں ان کو گھمنڈ ہے کہ یہ أسایشیں ان کے قدم چومتی ہیں ۔ان کے محلوں کے اندر پانی داخل نہیں ہوگا ۔ان کےکارخانوں کی پیداوار میں کمی نہیں أۓ گی ۔ان کا کاروبار چلتا رہےگا ۔۔ان کا چولہا جلتا رہے گا کبھی ٹھنڈا نہیں ہوگا ۔ان کے بچوں کو فیس کی أداٸگی کا مسلہ نہیں ہوگا ۔نہ کسی دکان پہ ان پہ قرض چھڑےگا ۔۔
بادلو:وہ تمہیں enjoy کرینگے ۔ان کو ساون کا انتظار رہتا ہے ۔
حکومتیں أنے سے پہلے غریبوں کو گھر دینے کا وعدہ کرتی ہیں پھر أنے کے بعد ان کا وعدہ وفا نہیں ہوتا ۔پہلی دفعہ بھٹو صاحب نے اپنا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔۔۔”روٹی ۔۔کپڑا ۔۔مکان “۔۔۔وہ روٹی مہیا کرنے کی تگ و دو میں تھے کہ قہر کا شکار ہوگیا ۔پھر اس کے بعد کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا ۔ان کے اخلاف اپنے اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھول گۓ ۔خود ان کے ایوان اقتدار کے نزدیک تھر میں ہم بھوک سے بلکتے بلکتے مر کھپتے رہے ۔کسی کو احساس نہیں ہوا۔۔سندھ کے بیہاری ۔۔بلوچستان کے سرداروں کے ظلم وستم کی چکی میں پسے ہوۓ مقہورو مجبور ۔۔پنجاب کے چودھریوں کے پنجوں میں گرفتار مزارع۔۔”سرحد” کے خان خوانین کےوفادار ۔۔قباٸل کے سرداروں کے وفادار ۔۔سابق ریاستوں کے سابق شاہوں کے منہ تکنے والے مظلوم اب بھی بےگھر و بےدر ہیں ۔ان کو کیا پتہ کہ محلوں اور ایوانوں میں کیا ہوتا ہے ۔۔۔محلوں اور ایوان والوں کو ہماری جھونپڑیوں کے اندر کی دنیا کا ادراک نہیں ۔۔شام کے بعد یہ سورج کسی کےگھر نہیں اترتے ۔ان کو اندھیروں کا کیا پتہ ۔۔۔۔
قسم سے میرے حصے کے بادلو : مجھ پہ رحم کرو ۔۔۔جم کے مت برسوں ۔۔۔یہاں پر اندھیر نگری ہے ۔۔یہاں پر عوام دوست حکومت ہو ۔۔۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام لانے والے ہوں ۔۔۔جیالوں کی حکومت ہو ۔۔۔سب سے پہلے پاکستان ہو ۔۔۔۔یا کسی اور کی حکومت ہو ۔۔۔اندھیر نگری میں کسی سے کوٸ توقع نہیں ۔۔۔تم تو جم کے برسوں گے ۔۔مگر ہم تیرے بپھرے ہوۓ دریاٶں کی موجوں کی نذر ہو جایٸں گے ۔۔۔ ہمارا نام لینے والا کوٸ نہیں ۔۔۔۔۔بادلو: تم جم کے برسوں گے پھر چھٹ جاٶگے ۔۔۔مگر ہمیں کوٸ باغی اور من چلا موج اپنے ساتھ بہاؤ کر لے جاۓ گی ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں