247

ے وقت کی راگنی……..ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

25جولائی 2018کو وطن عزیز میں انتخا بات ہوئے تھے نو مبر 2023ء کواگلے انتخا بات ہونے والے ہیں لیکن پرنٹ اور الیکڑا نک میڈیا میں منفی ایک یا منفی سب کی راگنی کے ساتھ قو می حکو مت کا شو شہ چھوڑا جا رہا ہے کسی کے پاس چڑیا کی لائی ہوئی خبر ہے تو کسی کو چڑیل نے خبر دی ہے یہ چڑیا دو سا لوں کے اندر چڑیل کیسے بنی؟ اس پر بات کرنے سے بات نہ کرنا بہتر ہے ایک پادری کو فو جی افیسروں سے خطاب کی دعوت دی گئی پادری نے بات شروع کرتے ہوئے کہا مجھے جو بات کرنی ہے وہ تو مجھے معلوم ہے مگر مجھے یہ علم نہیں کہ بات کہاں سے شروع کی جائے ہمارے ہاں کی ہر چڑیا اور ہر چڑیل کا یہی مسئلہ ہے ان کو یہ تو بتا دیا جا تاہے کہ کیا بات کرنی ہے لیکن یہ نہیں بتا یا جا تا کہ بات کہاں سے شروع کر نی ہے اس لئے چڑیا بھی بھٹک جا تی ہے چڑیل بھی راستہ بھول جا تی ہے   ایک بڑے پریس کلب کے چھوٹے کمرے میں یخ بستہ ہوا تھی کچھ با خبر اور کچھ بے خبر لو گ تھے منفی ایک کا ذکر آیا تو سینئر صحا فی نے کہا یہ شوشہ وہ لو گ چھوڑ تے ہیں جن کی سوچ اور فکر سیا سی نہیں ہوتی ایک بے خبر دوست نے لقمہ دیا کہ یہ بات تو ہمارے وزیر اعظم نے قو می اسمبلی میں پا لیسی بیان دیتے ہوئے کہی سینئر صحا فی بولے بھا ئی وزیر اعظم کی سوچ ہمیشہ سیا سی نہیں ہوتی معین قریشی اور شو کت عزیز کونسی سیا سی سوچ اور سیا سی فکر رکھتے تھے؟ پھر پا لیسی بیان پا لیسی کے بغیر بھی ہو سکتی ہے محمد خان جو نیجو، میر ظفر اللہ خان جما لی اور چوہدری شجا عت حسین کے بیا نا ت کا ریکارڈ کھنگال کر دیکھیں آپ کو ان میں پا لیسی نظر نہیں آئیگی ایک مہمان نے کہا بعض اوقات حکومت قبل ازوقت انتخا بات کر وا کر سیا سی شہید کا درجہ حا صل کر لیتی ہے اور بھاری مینڈیٹ لیکر دوبارہ آجا تی ہے سینئر اخبار نویس نے کہا درست ہے مگر یہ ایسی حکومت ہوتی ہے جس نے دو سالوں میں تین چار کھرب روپے کے تر قیاتی اور فلا حی منصو بوں پر کام شروع کیا ہواُس تر قیا تی اور فلا حی ایجنڈے کی تکمیل اُس کا ووٹ بینک بن جا تی ہے ہمارا مسئلہ وہی ہے جس کی طرف حبیب جا لب نے اشارہ کیا تھا ؎ سرِ منبر وہ خوا بوں کے محل تعمیر کرتے ہیں علا ج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں حبیب جا لب جس بے مثال ترنم کیساتھ اپنا کلا م سنا تے تھے اُس کو کا غذ پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تا ہم ان کی بات کسی کو سمجھائی جا سکتی ہے خا ص کر کے وہ لو گ جو تقریر سننے کے خو گر ہو ں وہ شعر پڑھ کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں اس وقت منفی ایک یا قومی حکومت کا شوشہ منتخب قیا دت کے مفاد میں ہر گز نہیں پھر یہ کسی کے مفا دمیں ہے؟ یقینا سوال کرنے والے کا اشارہ حزب اختلاف کی طرف ہو گا لیکن حزب اختلاف کو قوم نہیں ملتی قومی حکومت کہاں سے ملے گی یہاں 8قومیتیں ہیں 20مذا ہب ہیں مذاہب میں 7پُر امن اقلیتیں ہیں 13جنگجو اور عسکریت پسند گروہ ہیں جنکا تعلق اکثر یتی گروہ سے ہے جو مسلمان کہلاتا ہے مگر یہ سارے گروہ ایک دوسرے کو غیر مسلم کا طعنہ دیتے ہیں یا دش بخیر! ایک زمانہ تھا جب ملا کنڈ دویژن میں نفاذ شریعت محمدی کا مطا لبہ ہو رہا تھا اور مطا لبہ کرنے والے فتویٰ دے رہے تھے کہ جو لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں، سیا سی جما عت بناتے ہیں، ووٹ میں حصہ لیتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں وہ سب دائرہ اسلام سے خا رج ہیں ایک من چلے نے سوال کیا کہ ملا کنڈ ڈویژن کی 99فیصد آبادی کو آپ نے اسلا م سے خا رج قرار دیا پھر شریعت محمدی کی جگہ اپنے لئے اقلیت کے حقوق کا مطا لبہ کیوں نہیں کرتے؟ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف نے اگر قو می حکومت کا مطا لبہ منوا لیا تو قوم کہاں سے لائیگی؟ کیا ہم 73سالوں کا طویل دورانیہ الٹے پاوں چل کر ایک بار پھر 1947ء کا سال واپس لا سکتے ہیں جب ایک قوم نے اپنے لئے الگ وطن حا صل کیا تھا اُس وقت قوم کو وطن کی تلاش تھی آج ہمارے وطن کو قوم کی تلاش ہے اور وطن حیران ہے کہ قوم کدھر گئی؟ قو م کو 73سالوں سے ورزش والی مشین پر بٹھا یا گیا ہے مشین کی سوئی بتا رہی ہے کہ دس کلو میٹر کا فا صلہ تم نے طے کر لیا مشین کو بند کر کے قوم دیکھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوم اُسی مقام پر کھڑی ہے جس مقام پر مشین کا بٹن دبا نے سے پہلے کھڑی تھی پریس کلب کا مہمان کہتا ہے جمہوریت کا پودا درخت بننے میں وقت لیتا ہے سینئر صحا فی اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پودے کی جڑیں زمین کے اندر جگہ بنا نا شروع کرتی ہیں تو ما لی اُس کی جڑوں کو اکھاڑ کر دیکھتا ہے کہ جڑوں نے اپنی جگہ بنا ئی ہے یا نہیں؟ منفی ایک اور قومی حکومت کی راگنی بھی اُسی مالی کی طرف سے آ رہی ہے جو بے وقت کی راگنی الابتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں